جمہوری اور آئینی حق سے انحراف
دنیا میں سرمائے اور تجارت کے طور پر قائم کردہ قبضہ گیروں کا یہ وہ کالونیل نظام تھا
پچھلے ہی ہفتے انصاف اور حقوق نہ ملنے کے حوالے سے حیدرآباد کی جامشورو یونیورسٹی میں عوام کے بلدیاتی حقوق اور بلدیاتی نظام میں اختیارات کی منصفانہ تقسیم نہ ہونے پر ''حیدرآباد روشن خیال فورم'' کے حمید سومرو اور دیگر شرکاء متفکر تھے کہ تمام تر بلدیاتی نظام کی موجودگی میں کیونکر عوام کے بنیادی حق کو دینے میں کوئی بھی حکومت اب تک سنجیدگی کا مظاہرہ کیوں نہیں کرپائی ہیں یاکیوں حکومتیں اختیارات کی تقسیم نچلے اداروں کو دینے میں پس و پیش سے کام لے رہی ہیں۔
فکر مند اور جمہوری سوچ کے دوستوں کے اس سیمینار میں میرا استدلال تھا کہ بلدیاتی نظام بنیادی طور پر نچلے طبقات کے سیاسی شعور کی بنیادیں یا سہولیات فراہم کرنے سے اس وجہ سے ناکام ہے کہ اس بلدیاتی نظام کی آڑ میں دراصل بالا دست طبقات اپنے اقتدار کو قائم رکھنے میں عام فرد سے ضروریات زندگی کی سہولیات کے نام پر حکومت کے خزانے میں محصولات جمع کرتے ہیں اور مزید یہ حکومتی بالادستی قائم کرنے کا وہ گورکھ دھندا ہے جو نچلی سطح پر عوام کو اختیارات دینے میں مکمل دھوکہ دہی کا نظام ہے۔
جسے برطانوی راج نے عوام کے نمایندوں کے ذریعے حکومت کے لیے سرمایہ اکٹھا کرنے کے لیے ایک عوامی نظام کے طور پر متعارف کروایا اور نچلے طبقے کے منتخب نمایندوں کو حکومتی سہولت کار بنایا اور ٹیکس کی مد میں عوام سے ٹیکس وصولی کا ایک ایسا مستقل حکومتی ذریعہ بنایا،جو ظاہر میں عوامی لگے مگر کام حکومتی خزانے میں مسلسل اضافہ کرنے کا کرتا رہے۔
میرا کہنا تھا کہ دنیا میں سرمائے اور تجارت کے طور پر قائم کردہ قبضہ گیروں کا یہ وہ کالونیل نظام تھا، جس نے شیر شاہ سوری اور مغل بادشاہت کے رائج پنچائتی نظام سے مستعار لے کر ایک ایسا نظام نافذ کیا۔
جو ہر صورت لگان اور دیگر ٹیکسوں کی مد میں خطے کی زمینوں کی پیداوار کے نتیجے میں سرمایہ جمع کرتا رہے،مگر دنیا میں سوشلسٹ نظام کے آنے کے خوف سے عوام کی بے چینی کو قابو میں کرنے کے لیے ''بلدیاتی نظام'' کا عوامی نظام رائج کیا گیا تاکہ عوامی سہولیات کے ضمن میں عوام سے ٹیکس وصول کیا جائے اور حکومتی خزانے میں اس کی رقم جمع کروا کر اس کا کم سے کم حصہ عوام کی ضروریات یا سہولیات کی مد میں خرچ کرکے عوام کی بے چینی کو کم سے کم کیا جائے،جب کہ بادی النظر میں یہ بلدیاتی نظام دراصل حکومت کے زیر اثر رہے اور بلدیاتی نمائندوں کو کسی طور با اختیار نہ کیا جائے۔
محض اسی فکر کے تحت برٹش راج نے اس نظام کو تقسیم ہند کے وقت اپنے پسندیدہ اور فرمانبردار ''مارشل ریس'' کے وفاداروں کے حوالے کیا،جنہوں نے آمر جنرل ایوب کے مارشل لا میں بی ڈی سسٹم کے تحت کنٹرول بلدیاتی اختیارات دیے جو آج تک پاکستان میں جاری و ساری ہیں۔بعض قوتیں چاہتی ہیں کہ یہ بلدیاتی نمائندے عوام کے سیاسی شعور کو آگے نہ جانے دیں،تاکہ بلدیات کے نظام پر قابض آمرانہ فکر حکمرانوں کے خلاف عوام سیاسی جدوجہد سے دور رہیں۔
اس ضمن میں یہ قوتیں کبھی مذہبی جماعتوں تو کبھی لسانی قوم پرست تو کبھی برادری سسٹم میں عوام کو تقسیم کرکے عوامی وسائل پر ہمیشہ قابض رہی ہیں اور قابض رہنا چاہتی ہیں، یہی وہ وجہ ہے کہ حالیہ بلدیاتی نظام میں کراچی میں اپنی پسند کا میئر لانے کے در پہ انتہا پسند گروہ متحرک ہے اور چاہتا ہے کہ کراچی کی اکثریتی جماعت پی پی کو بلدیاتی اقتدار سے دور رکھا جائے،یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ کراچی کی جیتی ہوئی اکثریتی جماعت کے مقابلے میں کراچی کی میئر شپ 1979 کی طرح دوسری جماعت کو دلوا کر پی پی کے مقابلے میں دوبارہ سے کراچی کی مقامی حکومت پر قابض ہوکر اپنی من مرضی کرنا چاہتی ہے۔
کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے میئر شپ کے انتخابات کا مرحلہ ایک ماہ گذرنے کے بعد بھی محض اس وجہ سے نہیں دیا جا رہا کہ کراچی کی اکثریتی جماعت سے یہ گروہ خوف زدہ ہے کہ کہیں ان کا کراچی پر قائم کردہ کنٹرول چھن نہ جائے،محض اسی وجہ سے وہ جیتی ہوئی پارٹی کو اپنی شرائط پر لا کر کراچی کے محصولات اور آمدنی پر اپنا کنٹرول چاہتی ہے۔
یہ نہیں کہ یہ معاملہ صرف کراچی کے لیے ہے بلکہ ریاست کے طاقتور حکمران برطانوی راج کے سبق کو یاد رکھتے ہوئے ملک کے کسی بھی حصے میں بلدیاتی منتخب قیادت کو اختیار نہیں دینا چاہتے اور نہ ہی محصولات کی مد میں جمع شدہ ٹیکس کی رقم نمائندوں یا علاقے کی فلاح بہبود پر خرچ کرنا چاہتے ہیں۔
بلدیاتی یا مقامی حکومتوں کی تشکیل کے نظام پر غور کریں تو اس کے قوانین میں عوام کو سنہرے خواب دکھائے گئے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ بلدیاتی قوانین کی روشنی میں سندھ کے کراچی، حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، دادو،نواب شاہ یا دیگر اضلاع اب تک مثالی ترقی پچھلے پچھتر برس سے کیوں نہیں کر سکے ہیں،اس کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ بعض قوتیں محصولات کی مد میں بلدیاتی رقم اور انتظام کمشنر و ڈپٹی کمشنر کے ذریعے اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی ہے اور بلدیاتی نظام سے سیاسی شعور کا کام لینے کے بجائے انھیں مذہبی،لسانی اور برادریوں میں تقسیم کرکے ملک کی اقتصادی ترقی کو روکنا چاہتی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ جب تک بلدیاتی نظام کے منتخب نمائندے اس نظام کے توسط سے عوام سے مسلسل سیاسی رابطوں میں نہیں آئیں گے،اس وقت تک وہ اپنے بلدیاتی اختیارات بھی حاصل نہیں کر سکتے اور نہ ہی عوام کو بلدیاتی سہولیات فراہم کر سکتے ہیں،آج کے زندہ سماج میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم عوام میں ہر ذریعے سے سیاسی آگہی پیدا کریں تاکہ ہماری نسلیں حکمران طبقات کی لوٹ کھسوٹ سے بچ پائیں، وگرنہ سب ٹاٹ پڑا رہ جاوے گا...