بے چارہ شام
زلزلے سے جو زیادہ تباہی ہوئی ہے اس کی وجہ وہاں دیر سے امدادی ٹیموں کا پہنچنا ہے
6 فروری2023 کا دن تاریخ انسانی میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس دن قیامت خیز زلزلے نے ترکیہ اور شام میں پل بھر میں ہزاروں انسانوں کی جان لے لی اور بے تحاشا مالی نقصان پہنچایا۔
اس میں شک نہیں کہ دونوں ہی ممالک میں زلزلے نے تباہی مچائی مگر ترکیہ میں جو امدادی کارروائیاں ہوئیں ویسی شام میں نہیں ہو سکیں۔
شام وہ بدنصیب ملک ہے جو گزشتہ دس برسوں سے ایک طرف خانہ جنگی کا شکار ہے تو دوسری طرف اس کے دشمن ملک مسلسل اس پر فضائی حملے کر رہے ہیں جس سے اس کے اکثر شہر کھنڈر بن چکے ہیں۔
لاکھوں لوگ اب تک اپنی جانیں کھو چکے ہیں اور مالی نقصان کا اندازہ کرنا مشکل ہے ایسے آفت زدہ ملک میں حالیہ زلزلے نے تو تباہی و بربادی کی انتہا کردی ہے۔
شام میں زلزلے سے مرنے والوں کی تعداد آٹھ ہزار بتائی جا رہی ہے مگر اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس زلزلے نے شام کے شمال مغربی حصے کو متاثر کیا ہے۔ بدقسمتی سے یہ علاقہ اب بھی شامی حکومت کے باغیوں کے قبضے میں ہے جہاں صرف باغیوں کا حکم چلتا ہے وہاں سرکاری اہلکاروں کا داخلہ ممنوع ہے۔
زلزلے سے جو زیادہ تباہی ہوئی ہے اس کی وجہ وہاں دیر سے امدادی ٹیموں کا پہنچنا ہے۔ اب بھی وہ وہاں مشکل سے پہنچ پا رہی ہیں صرف وہی امدادی ٹیمیں وہاں جا کر بحالی کا کام کر رہی ہیں جن کو باغی اجازت دیتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ ترکیہ میں ہلاکتیں شام سے زیادہ ہوئی ہیں مگر وہاں امدادی کام پورے عروج پر ہے۔ دنیا کے کئی ممالک نے وہاں اپنے رضاکار بھیجے ہیں جو رات دن امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں مگر شام میں یہ صورتحال نہیں ہے، جب کہ شام میں ترکیہ کے مقابلے میں امدادی کارروائیوں کا آغاز بہت دیر بعد شروع ہوا گو کہ دونوں ممالک میں ایک ہی وقت میں زلزلہ آیا تھا جس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.8 تھی۔
اس نوعیت کے زلزلے بہت خطرناک ثابت ہوئے ہیں۔ آزاد کشمیر میں 2005 میں آنیوالا زلزلہ بھی اسی نوعیت کا تھا اسی لیے یہاں بھی بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا تھا یہاں بحالی کا کام ضرور ہوا مگر بدقسمتی سے بعض زلزلے سے متاثرین اب تک خیموں میں رہ رہے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
نہ آزاد کشمیر حکومت ہی ان کی مدد کر رہی ہے اور نہ ہی حکومت پاکستان کو ان کا کوئی خیال ہے۔ شام کا المیہ یہ ہے کہ بشارالاسد حکومت کو مغربی ممالک نے ناپسندیدہ قرار دے رکھا ہے مغربی ممالک کی تقلید کچھ اسلامی ممالک بھی کر رہے ہیں ۔ ترکیہ حکومت بھی شام کے خلاف ہے مگر اس کی وجہ کچھ اور ہے۔
بشارالاسد شام کے سابق صدر حافظ الاسد کے بیٹے ہیں۔ مغربی ممالک جن میں امریکا اور یورپی ممالک شامل ہیں بشارالاسد کو ان کے اسرائیل کے خلاف رویے اور روس سے نزدیکی کی وجہ سے اقتدار سے ہٹانا چاہتے ہیں۔
بدقسمتی سے بشارالاسد سے دشمنی شام کے شہریوں کو برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔ گزشتہ دس سالوں سے شام پر مغربی فضائی حملے کر رہے ہیں اور اسرائیل اس مہم میں سب سے آگے ہے۔ ایک طرف یہ ممالک شام کو کھنڈر بنانے میں لگے ہوئے ہیں تو دوسری طرف داعش نے اندرون ملک قتل عام جاری کر رکھا ہے۔
اس کے علاوہ مغربی ممالک کی ملی بھگت سے وہاں حکومت مخالف کئی گروہ تخریب کاری میں مصروف ہیں کچھ عرصہ قبل شام کے حالات اتنے گمبھیر بنا دیے گئے تھے کہ بشارالاسد کا حکومت چلانا مشکل نظر آنے لگا تھا۔ ایسے وقت میں روس اور ایران نے شام کی بھرپور مدد کی اور وہ اتنی موثر تھی کہ مغربی ممالک بشارالاسد کو نہ ہٹا سکے۔
وہ آج بھی ناکام ہیں اور بشارالاسد اب ایک مضبوط حکمران بن چکے ہیں۔ مغربی ممالک کی شام سے دشمنی صرف اسرائیل کو تحفظ دینے کے لیے ہے مغربی ممالک کی صدام حسین سے بھی دشمنی ان کی اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے تھی، وہ صدام حسین کو نہ صرف حکومت سے ہٹانے میں بلکہ ہلاک کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے تھے گوکہ اس کوشش میں عراق ایسا تباہ ہوا کہ اب تک سنبھل نہیں سکا ہے۔
مغربی ممالک کے مسلسل فضائی حملوں اور خانہ جنگی کی وجہ سے شام کی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ وہاں کے لاکھوں لوگوں نے اپنی جانیں بچانے کے لیے مختلف ممالک میں پناہ لے رکھی ہے۔ اب اس وقت جب کہ شام پہلے ہی تباہ و برباد ہے پھر وہاں ہولناک زلزلہ آنے سے مزید تباہی و بربادی کا بھیانک منظر ہے ہزاروں لوگ زلزلے کی نذر ہو چکے ہیں۔
ہزاروں زخمی ہیں اس کے علاوہ لاکھوں بے گھر بھی ہوگئے ہیں جنھیں ہر قسم کی امداد کی ضرورت ہے مگر ایسے حالات میں اسرائیل شام کو اپنے خطرناک جدید میزائلوں کا نشانہ بنا رہا ہے۔ لگتا ہے دنیا سے انسانیت ختم ہوگئی ہے۔
اسرائیلی حکومت فلسطینیوں پر اتنے ظلم کر رہی ہے کہ شاید اتنے ظلم تو ہٹلر نے بھی یہودیوں پر نہیں کیے ہوں گے۔ دراصل اسرائیل کی غنڈہ گردی کے پیچھے مغربی ممالک ہیں خاص طور پر امریکا کی اسے مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ فلسطین کا مسئلہ 1948 سے زیر التوا ہے یہ مسئلہ محض اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور امریکی حکومت کی دوغلی پالیسی کی وجہ سے آج تک حل نہیں ہو پایا ہے یہی حال کشمیریوں کی آزادی کا ہے۔ بھارت کشمیریوں کو کچلنے میں بالکل اسرائیل کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔
بھارت کی پشت پناہی بھی مغربی ممالک کر رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں جب کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی پالیسی اپنائی جا رہی ہے تو دنیا میں کیسے امن قائم ہو سکتا ہے۔ ہر چھوٹا ملک بڑے ملک سے خوف زدہ ہے کہ وہ نہ جانے کب اس پر چڑھ دوڑے۔ امریکا جو خود کو امن کا پیامبر کہتا ہے اس کی جارحیت نے تو پوری دنیا کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے۔
کبھی وہ کوریا پر حملہ کرتا ہے تو کبھی ویت نام کو اپنے غضب کا نشانہ بناتا ہے اور کبھی افغانستان پر قبضہ کرتا ہے۔ بھارت اور اسرائیل جیسے ممالک کا دراصل مغربی ممالک نے دماغ خراب کر رکھا ہے۔
اسرائیل اسی لیے عرب ممالک پر حاوی ہے اور ان سے چھیڑ چھاڑ کرتا رہتا ہے کیونکہ اسے پتا ہے کہ اس کے طرف دار موجود ہیں جو مشکل وقت میں اس کا پورا پورا ساتھ دیں گے اور اسے مشکل سے باہر نکال لیں گے۔ مغربی ممالک کی اسی شے کی وجہ سے وہ شام اور اردن کے کئی علاقوں کو 1967 کی جنگ میں ہڑپ کر چکا ہے۔ وہ شام کی گولان کی پہاڑیوں پر بڑی ہٹ دھرمی سے قابض ہے حالانکہ سلامتی کونسل کی ان پہاڑیوں کو واپس کرنے کے سلسلے میں کئی قراردادیں موجود ہیں مگر اس پر اسرائیل عمل درآمد نہیں کر رہا۔
اسی طرح فلسطینیوں کا الگ ملک بنانے کے سلسلے میں بھی سلامتی کونسل کی قراردادیں موجود ہیں مگر اسرائیل ہٹ دھرمی دکھا رہا ہے اور مغربی ممالک اس پر خاموش ہیں جب کہ انھوں نے انڈونیشیا کے ایک حصے کو آزاد ملک تیمور بنانے اور سوڈان کے جنوبی علاقے کو ایک آزاد ملک بنانے کی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے میں پوری مستعدی دکھائی تھی۔