احتساب کے نظام کی ساکھ
آفتاب سلطان پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں کہ وہ کیوں ایک سال سے کم عرصہ میں یہ عہدہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے
احتساب کے قومی ادارہ National Accountability Bureau کے چیئرمین آفتاب سلطان کا استعفیٰ احتساب کے نظام کی ساکھ پر ایک سوال ہے۔
آفتاب سلطان کا کہنا ہے کہ وہ دباؤ قبول نہیں کرسکتے، نہ کسی فرد کے دباؤ پر فیصلے کرسکتے ہیں نہ فیصلے ملتوی یا منسوخ کرسکتے ہیں۔
بہت سے رہنما یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ آفتاب سلطان کو ان عناصر کی نشاندہی کرنی چاہیے جو ان پر دباؤ ڈال رہے تھے۔ آفتاب سلطان اس حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد 2022میں اس عہدہ پر تعینات ہوئے تھے۔ آفتاب سلطان کا تعلق سپیریئر سروس کے پولیس کیڈر سے ہے۔
آفتاب سلطان کے بارے میں تصور پایاجاتا ہے کہ وہ ایماندار اور حقائق کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔
آفتاب سلطان سے پہلے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نیب کے چیئرمین تھے۔ جسٹس جاوید اقبال سپریم کورٹ کے سابق جج تھے۔ ان کے مخالفین یہ الزام لگاتے رہے کہ جاوید اقبال کے دور میں نیب کو سیاسی مخالفین کو سزا دینے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ عمران خان حکومت کے اہم وزراء شیخ رشید اور فواد چوہدری وغیرہ اعلان کرتے تھے کہ مسلم لیگ ن کے یہ رہنما گرفتار ہونے والے ہیں، پھر نیب ان رہنماؤں کو گرفتار کرلیتی تھی۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نے ایک انٹرویو میں کہا تھاکہ نیب ان کے کنٹرول میں نہیں تھا۔ آفتاب سلطان کے دور میں تحریک انصاف کے رہنماؤں کی گرفتاریاں نہیں ہوئیں اور اس حکومت کے ترمیم کردہ نیب کے قانون کی بناء پر شریف برادران اور آصف زرداری سمیت متعدد رہنماؤں کے مقدمات واپس لیے گئے اور بہت سے مقدمات نیب سے ایف آئی اے کو منتقل ہوئے تھے۔
نیب کا ادارہ ایک جدید شکل میں سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں قائم ہوا تھا مگر بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق اپنے قیام سے اب تک یہ ادارہ متنازعہ سمجھا جاتا ہے۔
کرپشن وہ ناسور ہے جو پاکستان کو ورثہ میں ملی۔ پہلے گورنر جنرل بیرسٹر محمد علی جناح نے 11 اگست 1947کو پہلی آئین ساز اسمبلی کے دوسرے دن اپنی اساسی تقریر میں جہاں ریاست کے سیکولر ڈھانچہ پر روشنی ڈالی تھی وہاں کرپشن کے عفریت کی جانب عوام کی توجہ بھی مبذول کرائی تھی مگر بعدازاں کرپشن کا ادارہ پروان چڑھتا چلا گیا۔
ملک میں احتساب کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ صرف سیاست دان ہی بدعنوان نہیں تھے بلکہ بیوروکریسی میں بھی کرپشن پہلے دن سے سرائیت کر رہی تھی مگر حکمرانوں نے کرپشن کو اپنے اقتدار کو طول دینے اور مخالفین کو سزا دینے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا۔
پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دورِ اقتدار میں اینٹی کرپشن کا قانون نافذ ہوا۔ اس قانون کے تحت مسلم لیگ کے مخالف سیاست دانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ متعدد سیاست دان اس کا شکار ہوئے۔ سندھ کے سابق پریمیئر ایوب کھوڑو سمیت بہت سے سیاست دان اس قانون کا شکار ہوئے۔ ترقیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کرپشن کا انحصار ملک کی معیشت پر ہے۔
جب امریکا اور یورپی ممالک اور اتحادیوںنے سوویت یونین کے خلاف پاکستان کو فرنٹ اسٹیٹ بنانے کے لیے مختلف نوعیت کی امداد دینا شروع کی تو پھر کرپشن کا معیار بڑھنے لگا۔ اس امداد سے سیاست دانوں سے زیادہ سول و غیر سول بیوروکریسی مستفیض ہوئی تھی۔
اگرچہ ہندوستان کی تقسیم سے کروڑوں لوگوں نے ہجرت کی اور اپنی اربوں روپے کی جائیداد چھوڑ کر کے 50 اور 60 کی دہائی میں ان جائیدادوں کی الاٹمنٹ کے کلیمز کاروبار میں تبدیل ہوئے۔ افسروں نے جائیدادیں بنائیں ۔
جنرل ایوب خان کے دور میں کرپشن بطور ادارہ پردہ سیمیں پر ابھری۔ اس دور میں حکمراں جماعت سے منسلک سیاست دانوں کے علاوہ بیوروکریسی کی کرپشن کی داستانیں عام ہوئیں۔ اگرچہ اس زمانے میں معاشرہ میں کرپشن کو برا سمجھا جاتا تھا مگر ایک مصنوعی معاشرہ کی بنیاد پڑرہی تھی۔ جنرل یحییٰ خان نے کرپشن کے الزام میں 303 افسروں کو برطرف کیا۔
پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں 1300 افسروں کو برطرف کیا گیا مگر واقعات نے ثابت کیا کہ ان افسروں کو کرپشن کی نہیں بلکہ حاکموں کی ناپسندیدگی کی سزا دی گئی تھی۔ جنرل ضیاء الحق حکومت نے افغان پروجیکٹ میں اربوں ڈالر حاصل کیے۔
کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر عام ہوا۔ کرپٹ مذہبی سیاسی رہنماؤں و بیوروکریسی کا ایک نیا طبقہ وجود میں آیا۔ اب معاشرہ کی قدریں کمزور ہونے لگیں۔ کرپٹ افسروں کو معاشرہ میں نمایاں مقام ملنے لگا۔ اس زمانے میں کسٹمز کی ملازمت سونے کی کان سمجھی جاتی تھی۔
بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں قانون اور قواعد و ضوابط کوپامال کرنے کی مثالیں قائم ہوئیں جس سے ڈیپ اسٹیٹ کو کرپشن کا ایک اور ہتھیار ہاتھ آگیا۔ میاں نواز شریف کی پہلی اور دوسری حکومت کا زیادہ وقت پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے دور میں کرپشن کا سراغ لگانے میں گزرا۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت میں میاں خاندان کو اسی صورتحال سے گزرنا پڑا۔
پرویز مشرف نے شفاف نظام کے نعرہ سے اپنے دورِ حکومت کا آغاز کیا۔ ان کے دور میں احتساب کا سخت قانون نافذ ہوا۔ قومی احتساب بیورو کا قیام عمل میں آیا ۔ پرویز مشرف نے اقتدار میں رہنے کے لیے کئی ایسے سیاست دانوں سے سمجھوتہ کیا جن پر بدعنوانی کے الزامات تھے۔ پرویز مشرف کا کرپشن کا نعرہ محض نعرہ بن کر رہ گیا۔
جنرل مشرف نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ این آر او (قومی مصالحتی آرڈر) پر دستخط کر کے بھٹو خاندان سمیت بہت سے سیاست دانوں کے خلاف مقدمات واپس لیے۔ پھر ڈیپ اسٹیٹ نے نیب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو سستی این ایل جی معاہدہ کرنے پر نیب نے کئی ماہ قید میں رکھا۔ عباسی مسلسل یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ ترقی کے لیے نیب کے ادارہ کا خاتمہ ضروری ہے۔ موجودہ حکومت نے نیب کے قوانین میں خاصی ترامیم کی ہیں۔ مگر اب سوال یہ ہے کہ ملک میں کرپشن کا انڈکس ہر سال بڑھ رہا ہے۔ کرپشن سے ترقیاتی عمل براہِ راست متاثر ہوتا ہے۔
بعض مارکسٹ دانش وروں کا کہنا ہے کہ کرپشن فری مارکیٹ اکنامی کی بنیاد ہے۔ اس نظام میں کرپشن ختم نہیں ہوسکتی، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کرپشن ترقیاتی عمل کو شدید نقصان پہنچاتی ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ کرپشن کے معیار کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مصنوعی معیشت کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
مسلم لیگ کے رہنما شاہد خاقان عباسی کا آفتاب سلطان سے یہ مطالبہ بالکل درست ہے کہ ان کے کام میں مداخلت کرنے والے افراد کی وہ نشاندہی کریں۔
آفتاب سلطان کو پارلیمنٹ بلایا جائے، آفتاب سلطان پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں کہ وہ کیوں ایک سال سے کم عرصہ میں یہ عہدہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ پارلیمنٹ آفتاب سلطان کے الزامات کی تحقیقات کرے اور ملزمان جتنے بھی بااثر کیوں نہ ہوں پارلیمنٹ ان کا احتساب کرے۔