ٹیکس سادگی اور ابنِ انشاء
اب کی بارجب آئی ایم ایف پروگرام کی نوبت آئی تو ٹوٹکے تو وہی تھے مثلاٌ بجلی، گیس، تیل اورشرح سود میں اندھادھند اضافہ
وطنِ عزیز حسب معمول ایک بار پھر نازک موڑ پر ہے۔ حالاتِ حاضرہ ایک بار پھر وہی ہیں، جانے پہچانے۔
آئی ایم ایف پروگرام کو ہی لے لیجیے، آئی ایم ایف کا نام بجائے خود ہمارے ہاں ایک گھریلو ٹوٹکے کی طرح پاپولر اور ہر دور میں مستعمل ہے، ایک حکومت جاتی ہے تو نئی حکومت کو سب سے پہلے آئی ایم ایف اور اس کے ٹوٹکوں کی ضرورت پڑتی ہے۔
عوام کو بھی اب یہ ٹوٹکے ازبر ہو گئے ہیں جیسے چائے کے داغ صاف کرنے، تبخیر معدہ وغیرہ کے لیے عوام اپنی یادداشت میں محفوظ ٹوٹکوں سے کام چلا لیتے ہیں۔
آئی ایم ایف پروگرام کے ٹوٹکے بھی ان ازبر ٹوٹکوں میں سے ہیں جو عوام کو یاد ہیں، بس حکومتوں کو اتنا فرق روا رکھنا پڑتا ہے جو گھریلو ٹوٹکوں میں حسبِ ضرورت اور ترکیب استعمال میں روا رکھنا پڑتا ہے مثلاً نمک چٹکی برابر چاہیے یا ایک کھانے کے چمچ کے برابر، پانی ایک پیالی یا دو، نیم گرم یا خوب گرم، اجوائن یا ہلدی ایک چھوٹا چمچ یا بڑا چمچ، دودھ کے ساتھ یا...
اب کی بار جب آئی ایم ایف پروگرام کی نوبت آئی تو ٹوٹکے تو وہی تھے مثلاٌ بجلی، گیس، تیل اور شرح سود میں اندھا دھند اضافہ ، تاہم اس بار اجزاء کی مقدار بہت بڑھانی پڑی اور ترکیب استعمال میں یہ شرط لازم کہ نو من تیل اور رادھا پہلے حاضر ہو ، تاکہ معلوم ہو سکے کہ ناچ بھی جانے ہے یا آنگن ٹیڑھا ہے ۔
حکومت کو بھی سردار صاحب کی طرح کیلے کے چھلکے کا سامنا تھا اور پریشانی یہ کہ ایک بار پھر اس پر سے پھسلانا ہے ۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پارلیمنٹ میں پونے دو سو ارب ڈالرز کے نئے ٹیکسوں کی تجاویزکچھ اس دلسوزی کے ساتھ دیں کہ پارلیمنٹ نے دوسری نشست ہی میں آمنا و صدقنا کر دی۔
آئی ایم ایف کی صدر نے کہیں یہ گلہ کردیا کہ پاکستان کے امراء کو بھی اب کچھ حصہ ڈالنا چاہیے۔ جس تیزی اور برخورداری کے ساتھ پارلیمنٹ نے اسحاق ڈار کے تجویز کردہ ٹوٹکے منظور کیے، کابینہ نے یہ گلہ دور کرنے کے لیے ڈھیروں سادگی اقدامات اٹھانے کا فیصلہ ایک ہی نشست میں کر ڈالا جس سے بقول وزیر اعظم دو سو ارب ڈالرز کی بچت ہوگی۔
ان اقدامات میں کابینہ نے تنخواہ اور مراعات نہ لینے، لگژری گاڑیاں واپس کرنے اور سرکاری کھانوں میں ون ڈش پر اکتفا کرنے کی حامی بھری۔
لگائے گئے ٹیکسوں اور 38% مہنگائی کا غم غلط کرنے کے لیے کتابوں سے دل بہلانے کی کوشش میں ابنِ انشاء کی کتاب خمارِ گندم ہاتھ لگ گئی۔ پڑھا تو حیرت ہوئی کہ پچاس پچپن سال بعد بھی حالات حاضرہ میں تبدیلی ہوئی نہ حکومتی ٹوٹکوں میں۔ نام و مقام اور سال کی تبدیلی کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کے دو خاکوں سے چند اقتباسات پیش ہیں۔
ابن ِ انشاء اردو ادب اور مزاح کا ایک عظیم نام ہے، زندگی نے مہلت کم دی اور وہ 51 برس کی عمر میں 1978 میں وفات پاگئے۔ یہ خاکے ساٹھ کے عشرے کے آخری سالوں میں لکھے گئے مگر ان کی شگفتگی اور تازگی آج بھی برقرار ہے۔
ٹیکس کے عنوان سے خاکہ: سونے پر ٹیکس لگنے سے ایک دنیا کا کاروبار کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔اخبار میں شکایت آئی ہے کہ باجے والے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ دیکھا جائے تو مسئلہ دولہا دلہن یا ان کے والدین کا نہیں، سونے پر ٹیکس لگنے کا، خیمے ، دریاں، دیگیں، پرچیں اور پیالے کرائے پر دینے والوں پر بھی بہت اثر پڑا ہے، جس دن سے ٹیکس لگا ہے اور شادیوں کا مندا ہوا ہے ، یہ لوگ اپنی دریوں پر چاندنیاں بچھا کر صف ماتم کا کام لے رہے ہیں۔
ہمارے ہاں شادیوں میں اصل اہمیت زیورات کی ہوتی ہے یا جہیز کی۔ یہ کافی ہو تو دولہا کا گنجا ہونا اور دولہن کا لنجی ہونا بھی چل جاتا ہے، ان کی صورتوں پر' آدمی کا بچہ ہے' کہہ کر درگزر کا پچارا پھیرا جا سکتا ہے۔
اس بجٹ نے صرف سنار کا سونا، لیلیٰ مجنوں کا عشق اور ہماری کتاب ہی کھٹائی میں نہیں ڈالے، اس کے نتائج اس سے زیادہ دور رس ہیں۔ گھی کے دام بھی چڑھے۔ جوتوں پر ٹیکس لگنے سے بہت سے لوگ پریشان ہیں ۔
جن لوگوں نے بی اے یا ایم اے پاس کیا ہے وہ پوچھتے ہیں کہ ہم نوکری کی تلاش میں سڑکوں پرکیا چٹخاتے پھریں گے۔
سیاسی پارٹیوں کے ہاں بھی بے رونقی کا عمل ہو گا۔ اوّل تو دال مہنگی ہے، سونے کے بھاؤ بکتی ہے، خیر فراہم کر لیں گے تو بانٹیں گے کس میں؟ اس ڈر سے بعض سیاسی گروہ اپنی صفوں میں اتحاد رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
دعوتوں پر پابندی سے ایک انتخاب؛ مغربی پاکستان کی حکومت نے دعوتوں میں بلانے کے لیے دو سو مہمانوں کی پابندی لگا دی ہے۔ اس پر بعض لوگ بہت پریشان ہیں، ایک صاحب نے کہا؛ غریب آدمی ہوں، لڑکی کی شادی کر رہا ہوں اور پچیس تیس آدمیوں کو بلانے کا ارادہ تھا لیکن اب حکومت دو سو پر اصرار کر رہی ہے۔دوسری طرف وہ لوگ پریشان ہیں جنھوں نے پانچ پانچ سوآدمیوں کو بلا رکھا تھا، اب جو تخفیف کا کلہاڑا کھٹ سے آن گرا ہے تو حیران ہیں کہ کس کو بلائیں اور کس کو منع کریں۔
ایک چھوٹے موٹے قومی لیڈر انتقال کر گئے ، لوگ صفیں بچھائے غم کھا رہے تھے۔ ایک سرکاری کارندے کا گزر اُدھر سے ہوا ؛ پوچھا کیا بات ہے ؟ ایک صاحب نے کیفیت بیانی۔ کارندہ فرض شناس قسم کا تھا۔ اس نے گِنا تو دو سو بیس آدمی تھے ۔
بولا؛ تم لوگوں کو قانون کی خلاف ورزی کرتے شرم نہیں آتی۔ دو سو سے زائد آدمیوں کو ایک ساتھ کچھ بھی کھانے کی اجازت نہیں، خواہ غم ہی کیوں نہ ہو، چلو تھانے !
55/60 سال قبل چھپے ان خاکوں میں آپ کو نام مقام اور کرداروں میں اصلاً یا سہواً مشابہت دکھائی دے تو ہمارا ذمے توش پوش؛ ابنِ انشاء جانیں، آپ جانیں یا ہمارے حاکم !