لطیف لالا
لطیف لالا بھی اپنے ساتھ جو کچھ لے گئے ہیں، ان میں پشتون شاعروں اور ادیبوں کا ایک بہت بڑا سہارا اورآسرا بھی تھا
لطیف لالا بھی چلے گئے ،جانا تو ان کو تھا کہ سب کو ایک دن جاناہوتا ہے، بہت آگے گئے ،باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے ساتھ بہت کچھ لے جاتے ہیں ۔
سارا گھر لے گیا گھر چھوڑکے جانے والا
لطیف لالا بھی اپنے ساتھ جو کچھ لے گئے ہیں، ان میں پشتون شاعروں اور ادیبوں کا ایک بہت بڑا سہارا اورآسرا بھی تھا ،ایسا لگتاہے جیسے ان بے آسرا، بے سہارا لوگوں کے سر پر سے ایک گھنا سایہ ہٹ گیا ہو۔
وہ بہت بڑے وکیل تھے، لیڈرتھے، قانون دان تھے لیکن یہ بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ شعرو ادب کے بھی وہ بہت بڑے سرپرست تھے ،خود شاعرو ادیب نہیں تھے لیکن جب بھی کسی کتاب کی رونمائی میں مدعو کیے جاتے تھے تو اپنی جیب سے سو پچاس کتابیں اسی قیمت پر خرید لیتے تھے جو ان پر لکھی ہوتی اور پھر اپنے یاروں،دوستوں اورموکلوں میں مفت بانٹتے تھے، جب بھی بازار میں نکلتے تھے تو کتابوں کی دکانوں کا بھی چکر لگا لیتے تھے اور یہت ساری کتابیں خرید کر لے جاتے اور اسی طرح بانٹ دیتے تھے ۔
ہمارا اور ان کا ساتھ ساتھ اٹھنا بیٹھنا بہت پرانا تھا وہ جب تازہ تازہ وکیل بنے تھے تو ہم روزنامہ بانگ حرم میں تھے، یہ انیس سو ستاسٹھ، اٹھاسٹھ اور انہتر کا زمانہ تھا یاشاید کچھ آگے پیچھے ۔ وکالت کے ساتھ انھوں نے ایک تنظیم بھی بنالی ''اتحاد قبائل'' اسی سلسلے میں ایک جلسہ جمرود کے مقام پر ہو رہا تھا، ہم چند صحافیوں کو بھی مدعو کیاگیا۔
اسی میں لطیف آفریدی نے جو ایک پرجوش نوجوان تھے،اتنی زبردست تقریرکی کہ ہر طرف چرچے ہوگئے اور ہمارے تعلق کی ابتداء بھی ہوئی، اس کے بعد وہ جس پارٹی میں بھی رہے اور ہم جس اخبار کے ساتھ منسلک رہے یہ تعلق جاری رہا ۔
جب بھی کوئی ان کو مشاعرے یا ادبی تقریب کی دعوت دیتا،دعوت قبول کرنے کے ساتھ اکثر یہ شرط لگاتے کہ چائے یا تقریب کاخرچہ میری طرف سے ہوگا، اکثر معذوراور غریب شاعروں اور ادیبوں کو نقد بھی دیا کرتے تھے اوردل کھول کر دیتے تھے۔
بہت سو کی کتابیں بھی اپنے خرچے سے چھپوائیں ، ہم سے بھی اکثر کہتے کہ کوئی کتاب مجھے چھپوانے دو لیکن ہم نے ان کی یہ پیش کش کبھی قبول نہیں کی، وجہ ہمارا اپنا ایک مخصوص نظریہ اور عقیدہ ہے لیکن کوئی بھی کتاب چھپتی تو وہی طریقہ اپناتے جو ان کا خاصہ تھا،اس مسئلے پر بات ایک دو بار بدمزگی تک بھی پہنچی تھی کہ ہم اپنی کتابوں کی رونمائیاں کیوں نہیں کرتے لیکن یہ بھی نہیں ہوا کہ یہاں بھی اپنے ذہن کی ''ٹیڑھ'' آڑے آجاتی تھی ۔
ہمیں نہ تو کسی کی عبادتوں سے کام ہے، نہ سیاستوں سے، ہمیں اگر کام ہے تو اس سے کہ کس نے ہمارے ساتھ کیاکیا، پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ ''یتیم کو دودھ چاہیے ، چاہے گائے کا ہو یا بھینس کا،بکری کا ہو یا بھیڑ کا۔
اس سلسلے میں کتنوں کو ہم نے آزمایا ہے اور سب کو وزن میں کم پایا ہے لیکن کچھ ایسے ہیں کہ پکارے بغیر مدد کو آجاتے ہیں، اگلے وقتوں میں والئی سوات کی شخصیت پشتون شاعروں اورادیبوں کے لیے ایک بہت بڑا سہارا تھی جو مانگے بغیر کسی شاعر و ادیب کی بیماری کا سن کر ہی مدد کردیاکرتے تھے۔
پیر آف مانکی بھی شاعروں اور ادیبوں کے بڑے محسن ہواکرتے تھے، جدید دور میں لطیف لالا کا ذکر تو ہوگیا لیکن ایک اور شخصیت کا ذکر نہیںکروں گا تواحسان فراموشی ہوگی، یہ ہیں ایک بزنس ٹائیکون۔ ان کو آخر پڑی کیا ہے جودوردرازکسی کونے کھدرے میں پڑے ہوئے شاعر وادیب کی مدد کریں ،کسی سے ان کا رشتہ کیاہے اور فائدہ کیاہے۔
ان کو نہ کسی مشہوری کی ضرورت ہے، نہ مدد کی لیکن پھر بھی کوئی بات ایسی ہے جس کاتعلق دل سے ہے دماغ سے نہیں ۔ہم نے ان کالموں میں ایک مرتبہ ایک کینسر کے مریض شاعر کی کس مپرسی کا حال بیاں کیا اورتخاطب پشتون سرمایہ داروں، خان خوانین اورسیٹھوں سرداروں سے تھا لیکن جس دن کالم چھپا، دس بجے ایک ٹیلی فون آیا کہ شام کو پشاور میں شام ہمدرد ہے وہاں سے دو لاکھ روپے کاچیک وصول کریں۔شام کو ہمیں وہ چیک دیا گیا۔
صبح کیش کیا اور ارنم اسپتال میں اس مریض کے حوالے کیا ، بیس گھنٹے سے بھی کم وقت میں اسے مدد پہنچ گئی،فضل سبحان عابد نام کاشاعر بہت مقبول ہے اس کی ایک نظم۔۔''پشاورتو پشاور'' بین الاقوامی شہرت رکھتی ہے لیکن اسے جب ایک جاں لیوا بیماری لاحق ہوگئی تو ؎
دور تک چھائے تھے بادل اورکوئی سایہ نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا
صرف خوشبو کی تھی موسم گل میں قتیل
ورنہ گلشن میں کوئی بھی پھول مرجھایا نہ تھا
لیکن اگر کسی نے فریاد سنی تو یہی وہ بزنس ٹائیکون تھے،اس کے علاج معالجے کا بندوبست کر دیا گیا گویا یہاں سے وہاں سے کچھ نہ ہوا اورجہاں توقع نہیں تھی وہاں سے ہوگیا ، ہمیں کسی سے کیا کہ وہ کون ہے ،کیاکرتاہے ،ولی اللہ ہے یا گناہ گار بندہ ،ہمیں تو اس سے کام ہے کہ اس نے ہمارے ساتھ کیاکیا۔
ہم جب کسی جنازے یا فاتحہ خوانی میں جاتے ہیں تو یہ نہیں دیکھتے کہ اس نے عبادتیں کتنی کی ہیں، حج وعمرے کتنے کیے بلکہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ اس نے حقوق العباد اداکیے یا نہیں ۔اللہ کے حقوق اللہ جانے۔ ہم بندے تو بندوں کے حقوق دیکھیں گے۔
کسی نے خواب میں ملکہ زبیدہ کو جنت میں دیکھا تو کہا کہ آپ کو تو جنت ملنا ہی تھی کہ آپ نے اتنی بڑی نہرکھدوائی تھی ،ملکہ زبیدہ نے کہا یہ جنت مجھے اس نہر کے عوض نہیں ملی ہے ،میں نے جب اس نہر کا ذکر کیا تو کہا گیا کہ اس کا صلہ تو تمہیں دنیا میں مل چکاہے ، شہرت اور نام کی شکل میں ۔۔جنت مجھے اس وجہ سے ملی ہے کہ میں نے ایک معذور بلی کے بچے کو دیکھا تو اسے اٹھا کر گھر لے گئی، اس کو دودھ پلایا ، مرہم پٹی کی اورآرام پہنچایا تھا۔
ہم تو یہی دعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ ان محسنوں کو اس کا بیش از بیش اجردے جو ہم پر مہربانی کرتے ہیں۔