بھارتی پراپیگنڈہ
بھارت میں بالخصوص مسلمانوں اور بالعموم اقلیتوں کے لیے حالات ہمیشہ سے غیرموافق رہے ہیں
سال 1960-61کے کرکٹ سیزن کی بات ہے جب پاکستان کرکٹ ٹیم فضل محمود کی قیادت میں بھارت کے دورے پر گئی تھی۔
اس دورے کا پہلا ٹیسٹ میچ 2 سے 6 دسمبر تک ممبئی (اس وقت کا بمبئی) میں کھیلا گیا۔ پاکستان کے اوپنر حنیف محمد اس زمانے میں ایک ایسے کھلاڑی کی حیثیت سے مشہور ہو چکے تھے جو وکٹ پر ٹھہر جائے تو اسے پویلین واپس بھیجنا جوئے شیر لانے کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔
دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان جذبہ خیرسگالی پیدا کرنے کی کوششیں دور حاضر کی طرح تب بھی جاری تھیں۔ میچ سے پہلے تماشائیوں کی محبت سے متاثر ہو کر حنیف محمد نے مصافحہ کے لیے آگے بڑھے ہاتھوں کی جانب ہاتھ بڑھا دیا۔
ہاتھ ملانے والے ان بھارتیوں میں سے ایک نے اپنی دو انگلیوں کے درمیان ایک بلیڈ درمیان سے توڑ کر پھنسا رکھا تھا۔ جیسے ہی حنیف محمد کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں آیا، اس دیش بھگت نے حنیف محمد کی ہتھیلی پر بلیڈ پھیر دیا۔ حنیف کی میچ میں شرکت خطرے میں پڑ گئی لیکن ان کا اصرار تھا کہ وہ اس حالت میں بھی کھیلیں گے۔
لہٰذا چھوٹے قد کی وجہ سے 'لٹل ماسٹر' کہلانے والا، دلیری اور ہنر میں دیوقامت یہ شخص بھارتی باؤلنگ کے سامنے زخمی ہاتھ کے ساتھ جم کے کھڑا ہو گیا اور 160 رنز کی شاندار اننگز کھیل کر ہندوتوا کی تنگ نظر ذہنیت کا جواب دیا۔
ابھی حال ہی میں ہر برس کی طرح اس سال بھی لاہور میں فیض میلے کا انعقاد کیا گیا۔ اردو ادب کے حوالے سے فیض صاحب کی حیثیت اور قد کاٹھ بجا طور پر بین الاقوامی ہے اور دنیا میں یہ حیثیت بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔ فیض کی زندگی میں جہاں اشتراکیت کے ساتھ ان کا لگاؤ سنسر کی زد میں رہتا تھا۔
ان کے انتقال کے بعد اپنے دین، قومی اساس کے ساتھ ان کی وابستگی کا پتہ دینے والے، تخلیقی اور غیرتخلیقی نقوش پس منظر میں دھکیل دیے گئے ہیں۔ خیر، بات ہو رہی تھی فیض میلہ کی، تو اس میلے کی رونق بڑھانے کے لیے منتظمین نے بھارتی شاعر جاوید اختر کو بھی مدعو کر رکھا تھا۔
فیض میلہ کے دوران جاوید اختر نے دو ایسے جھوٹ بولے جن کی بدولت انھیں اعلیٰ ترین ریاستی سطح پر ہندو بنیاد پرستی کو بطور طرز زندگی اختیار کر لینے والے بھارت میں تو یقیناً زیادہ بہتر انداز میں سانس لینے کی آزادی نصیب ہو جائے گی لیکن درحقیقت ان کے ارشادات کا حقیقت سے کوئی علاقہ نہیں۔
ان کا فرمانا تھا کہ بھارت میں پاکستانی فنکاروں کو بہت عزت واحترام دیا جاتا ہے لیکن پاکستان کو یہ توفیق نصیب نہیں ہوئی کہ لتا منگیشکر کو مدعو کرتے۔ دوسری بات انھوں نے یہ کہی کہ ''ہم ممبئی میں رہتے ہیں تو ممبئی میں جو حملے ہوئے تھے ان کے لیے لوگ مصر یا افریقہ سے نہیں آئے تھے، یہ حملہ آور پاکستان سے آئے تھے اور آج بھی پاکستان میں آزاد پھر رہے ہیں۔'' جاوید اختر کی یہ باتیں غیرمتوقع نہیں، لیکن شرمناک بات یہ ہے کہ ان فضولیات پر حاضرین کی جانب سے تالیاں پیٹی گئیں۔
کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ادب احترام کی پاسداری کرتے ہوئے اس بات کا جواب دیتا، شاید پاکستان پر لگنے والے الزامات کی صحت پر غور فکر کرنا ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں رہا۔ ویسے ممبئی حملوں کے حوالے سے بلاجھجک ایسی بات کرنا اس لیے بھی کوئی بڑی بات نہیں کہ ہمارے ایک سابق وزیراعظم نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ ''ہمیں ممبئی میں دہشت گردی کے لیے لوگ بھیجنے کی کیا ضرورت تھی۔''
خیر جاوید اختر ماضی قریب میں ہونے والے واقعات سے بھی یقیناً آگاہ نہیں ہیں۔ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی کتاب کی تقریب رونمائی بھارتیوں نے اُلٹ دی تھی۔ کئی مرتبہ پاکستان کے فنکاروں کو وہاں سے جان بچا کر بھاگنا پڑا ہے۔ آغاز میں بیان کیا جانے والا واقعہ آج مودی کے دور حکومت کا نہیں، کانگریس کے دور کا ہے۔
بھارت میں بالخصوص مسلمانوں اور بالعموم اقلیتوں کے لیے حالات ہمیشہ سے غیرموافق رہے ہیں۔ جو کام کانگریس جسم سُن کرنے والی دوا استعمال کر کے کیا کرتی تھی وہ کام بی جے پی ایک قصائی کی طرح کر رہی ہے۔ بھارت سے پاکستان آنے والے جن لوگوں کے جو نام مجھے ابھی یاد آ رہے ہیں۔
ان میں الکا یاگنگ، ممتاز بانسری نواز ہری پرساد چورسیا، اداکار راجندر کمار جن کی مہمانداری محمد علی اور زیبا نے کی تھی اور خود انھیں سیالکوٹ کے قریب ان کا گاؤں دکھانے لے کر گئے۔ شتروگن سہنا، سُنیل دت اور دیگر کئی اہم شخصیات شامل ہیں جن میں سے کسی ایک کو بھی ناگوار صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ یہاں پر نہ کسی کی ہتھیلی پر بلیڈ پھیرا گیا، نہ کسی کے منہ پر سیاہی پھینکی گئی۔
اب دو باتیں ممبئی حملوں کے بارے میں ہوجائیں ۔ جس کسی کو ممبئی حملوں کی حقیقت جاننے میں دلچسپی ہے وہ جرمن محقق ایلیاس ڈیوڈسن (Elias Davidson) کی کتاب The Betrayal of India: Revisiting the 26/11 Evidence پڑھ لے۔ ڈیوڈسن خود بتاتے ہیں ''میرا ممبئی حملوں پر لکھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں تو 9/11 کے حملوں پر تحقیقات کر رہا تھا۔
میں نے اس کام پر 10برس لگائے ہیں۔ اس مقصد کے لیے میں نے دنیا بھر میں ہونے والے بڑے دہشت گردی کے واقعات کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان حملوں کے نتیجے میں کیا حالات پیدا ہوئے اور حملہ آور اور حملہ کا نشانہ بننے والے کو کتنا فائدہ اور کتنا نقصان ہوا۔
ممبئی حملوں کو بھی میں نے 9/11 کے حملوں کی تہہ تک پہنچنے کی غرض سے جاننے کی کوشش کی تھی لیکن ان پر سوچ بچار اور تحقیق نے ایک الگ کتاب کی صورت اختیار کر لی۔'' ڈیوڈسن کا ماننا ہے کہ جیسے 9/11 کے حملوں سے اُسامہ اور مسلم انتہاپسندوں کا کوئی لینا دینا نہیں، اسی طرح ممبئی حملوں کے پیچھے پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں بلکہ یہ حملے خود بھارت، امریکا اور اسرائیل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
کتاب میں اس سارے ڈرامے کو بے نقاب کرنے والے حقائق کو ترتیب کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ میں یہاں صرف چند ایک باتیں عرض کروں گا۔ مثال کے طور پر ممبئی کے جنوب میں واقع 'کولابا' کے علاقے میں 'نریمان ہاؤس' نامی یہودی عبادت گاہ بھی حملے کا نشانہ بنی تھی۔
اس علاقے میں کاروبار کرنے والے دکانداروں کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں میں سے کچھ حملے سے قریب 15 دن پہلے سے اسی عمارت میں ٹھہرے ہوئے تھے، لیکن عدالت نے یہ گواہی قبول ہی نہیں کی۔ پولیس افسر ہمینت کرکرے اور دیگر ایسے کردار جو اس سارے ڈرامے کی حقیقت سے آگاہ نہیں تھے اور منصوبہ سازوں کو اندیشہ تھا کہ یہ کام بگاڑ سکتے ہیں، انھیں پہلے ہی مرحلے میں ٹھکانے لگا دیا گیا تھا۔
پاکستان پر اُنگلی اٹھانے والے بھارتی نغمہ نگار و شاعر جاوید اختر کو ٹھیک اپنی ناک کے نیچے نریندر مودی نظر نہیں آتا جو گجرات میں مسلمانوں کی قتل وغارت گری کا کریڈٹ لیتا ہے اور اسی بناء پر ہندو ووٹ کی طاقت سے بھارت پر حکومت کر رہا ہے۔ ہمارا اصل المیہ ہی یہ ہے کہ حقائق کی بنیاد پر اپنے مبنی برحق مؤقف کا دفاع کرنے کے بجائے دشمن کے جھوٹے بیانیے کے بہاؤ میں بہہ جانے میں عافیت سمجھتے ہیں۔