تیری داستاں کوئی اور تھی میرا واقعہ کوئی
ہمارے ملک کے دوادارے فوج اورعدلیہ مضبوط ترین ہیں اگریہ اپنے ملک اور عوام سے مخلص نہ ہوتے تو آج ملک کی حفاظت مشکل تھی
سب سے ناداں اور کوتاہ عقل وہ شخص کہلاتا ہے جو عبرت ناک تجربات سے فائدہ نہیں اٹھاتا اس کی نگاہ آج پر ہوتی ہے آنیوالے کل سے لاپرواہ اور تعیشات زندگی کو اپنا کر عقل و خرد اور دور اندیشی سے ناتا توڑ لیتا ہے۔
اکبر الٰہ آبادی نے کیا خوب کہا ہے:
عبث اس زندگی پر غافلوں کا فخر کرنا ہے
یہ جینا کوئی جینا ہے کہ جس کے ساتھ مرنا ہے
حقیقت زیست کی پیری میں ہم سمجھے تو کیا سمجھے
بڑھا دھوکا دیا ظالم نے دنیا سے خدا سمجھے
چھوٹے بڑے تمام اداروں میں دولت اور شہرت کی طلب نے انسان کو پستی میں دھکیل دیا ہے ، اب اس پر نشہ طاری ہے ، ظاہر کی آنکھ جاگ رہی ہے اور باطن کی خوابیدہ ، غیرت اور شرم و حیا کا جنازہ اپنے کاندھوں پر اٹھائے بڑے فخر سے ملکوں، ملکوں کی سیر کر رہا ہے دونوں ہاتھوں سے دولت لوٹ کر اپنا مضبوط قلعہ بنا کر یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ اور اس کی نسلیں تا قیامت محفوظ اور خوشحال رہیں گی ان کا کوئی بال بیکا نہیں کر سکے گا لیکن وقت کروٹ بدلتا ہے کبھی بلند پرواز تو کبھی اللہ کے حکم سے تکبر زدہ انسان کا غرور پل بھر میں مٹی میں ملا دیتا ہے۔
کم ظرف اور اپنے آپ کو حاکم وقت سمجھنے والوں کا انجام شرم ناک ہوا ہے ، کل جو دوسروں کے سروں کو کچلتے ہوئے گزرتے تھے آج وہ عبرتِ نگاہ بنے ہوئے ہیں لیکن اپنے وطن سے مخلص اور اس کے استحکام کے لیے کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بس اپنے عیبوں اور الزامات کے دھبوں کو قانون کے ذریعے دھونے کی تگ و دو میں مصروف عمل نظر آتا ہے اور جو اپنے ملک کے وقار اور ترقی کے لیے کوشاں تھے اور ہیں ان پر تہمتیں لگائی جا رہی ہیں۔
سیاسی مخالفین کی بات کو رائی کا پہاڑ بنادیتے ہیں، ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے لیے کوششیں تیز کی جاتی ہیں، سیاسی کھیل میں ہمیشہ مخالفین کا بس نہیں چلتا کہ جلد سے جلد اپنی حفاظت کے لیے خطرات، اندیشوں اور اپنے جرائم پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دیں۔کچھ سیاستدان ضرور ایسے ہوتے ہیں جو دھن کے پکے اور اپنے ملک سے وفادار ہوتے ہیں ان کا جینا مرنا اپنے ملک میں ہوتا ہے۔ ساحر لدھیانوی کے اس شعر کے مطابق:
دل سے نکلے گی نہ مرکر بھی وطن کی الفت
مری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی
دانش وروں کے مطابق ملک ڈیفالٹ ہو چکا ہے اور کچھ کا کہنا ہے ابھی ڈیفالٹ نہیں ہوا ہے، حکمران کہتے ہیں ڈیفالٹ ہونے کے قریب ہے۔یہ سچ ہے کہ ملک عزیز خطرات میں گھرا ہوا ہے، عوام غربت کے ہاتھوں پریشان ہو کر خودکشیاں کر رہے ہیں، ان پر قرض کا بوجھ ہے، مالک مکان کو کرایہ دینے کے لیے رقم نہیں اور گھر کا دال دلیا خریدنے کے لیے ماہانہ تنخواہ یا مزدوری کی اجرت نہیں ہے، کاروبار ٹھنڈا ہے، مہنگائی کرتے وقت اس بات کو ضرور مد نظر رکھا کریں کہ عوام کے پاس اضافی رقم کہاں سے آئے گی، خوددار اور باعزت لوگ ہیں، چوری اور لوٹ مار کرنے سے رہے، یہ وہی لوگ ہیں جن کے پرکھوں نے ملک کی بنیادوں میں اپنا لہو بہایا تھا اور مال و زر جائیدادوں کو قربان کرکے ملک حاصل کیا تھا۔بھارت ہر روز پاکستان کے حکمرانوں پر تنقید کر رہا ہے، وہ طعنے مار رہا ہے کہ جن سے اپنا ملک نہیں سنبھالا جا رہا ہے اور مقتدر حضرات نے پاکستان کے علاوہ باہر بھی جائیدادیں بنائی ہیں، وہ کشمیر کیسے آزاد کرا سکتے ہیں؟
یہ بھی سچ ہے کہ ''کشمیر ڈے'' منانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ سالہا سال سے دن تو منایا جاتا ہے لیکن اس کی آزادی کے لیے ''جہاد'' جیسی عظیم قوت کو فراموش کردیا گیا ہے بلکہ پرائمری کی جماعتوں سے وہ اسباق بھی نکال دیے گئے ہیں جن سے پاکستان کے نونہالوں کے دل و دماغ ایمان سے تازہ شہیدوں اور غازیوں کے عظیم مراتب سے واقف ہو سکیں اور وہ بھی جرأت و بہادری، حب الوطنی اور اسلامی تعلیمات سے آشنائی حاصل کریں، اور یہ سارے کام اور نصاب میں رد و بدل حکومت کی ہی ایما پر محض دولت کی خاطر کیا جاتا ہے اپنے وقتی فائدے کے لیے، یہود و نصاریٰ کی طرح آیات کا مول بھاؤ بڑی آسانی سے کر لیتے ہیں۔ علامہ اقبال نے انھی لوگوں کے لیے کہا ہے:
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
ہمارے ملک کے دو ادارے فوج اور عدلیہ مضبوط ترین ہیں اگر یہ اپنے ملک اور عوام سے مخلص نہ ہوتے تو آج ملک کی حفاظت مشکل تھی، لیکن اب بھی اگر ٹھنڈے دل سے سوچا جائے تو مزید اصلاح کا پہلو نکل سکتا ہے۔ انسان خطا کا پتلا ہے، بار بار غلطیاں ہوتی ہیں اور وہ اپنے رب سے معافی مانگ لیتا ہے، ہمارا رب رحیم و کریم ہے، اس نے توبہ کا دروازہ اس وقت تک کھلا رکھا ہے جب تک کہ نزع کے عالم میں نہ پہنچ جائے، لہٰذا عدلیہ کا فرض اولین ہے کہ وہ کذب و صدق کو مدنظر رکھتے اور موازنہ کرتے ہوئے اس بات پر ضرور غور و خوض کرے کہ ملک کو کس نے نقصان پہنچایا ہے؟ جس کے حق میں مثبت اور منفی جواب آئے فیصلہ ببانگ دہل نہ صرف یہ کہ سنایا جائے بلکہ سزا و جزا کی تقسیم بھی لازم ہو۔
آج عمران خان کے ساتھ لوگوں کی ایک بڑی اکثریت ہے اس کی وجہ عمران خان نے اپنی حکومت میں وہ کام کیے جس کی نظیر مشکل سے ہی ملتی ہے۔ ہیلتھ کارڈ کا اجرا، احساس کفالت پروگرام، شیلٹر ہوم، کسان کارڈ، لنگر خانے، غربا و مساکین کی تو لاٹری نکل آئی اس کے ساتھ سری لنکا کے مرحوم مسلمانوں کو جلانے سے بچایا اور ان کی تدفین پر زور دیا، اس کی اہمیت کو مذہب کی روشنی میں اجاگر کیا اور کامیابی حاصل کی۔ اور بھی بے شمار امور ہیں۔ ایسے شخص کو عدالتوں میں پیش ہونے کے احکامات ہر روز جاری کیے جاتے ہیں، ان حالات کے تناظر میں ایک اور شعر قارئین کی نذر:
تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی، مجھے دوستوں کا پتا نہیں
تیری داستاں کوئی اور تھی، میرا واقعہ کوئی اور تھا