کیا کمشنری نظام ناکام ہوچکا ہے
اب وقت آگیا ہے کہ کمشنری نظام کے قائم رہنے اور نہ رہنے کے بارے میں سنجیدگی سے غور و فکر کیا جائے
اف یہ مہنگائی ، کمر توڑ مہنگائی ، مہنگائی کی وجہ سے غریب آدمی جیتے جی مرگیا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ، انتظامیہ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں ، دوسری طرف ناجائز منافع خور اور ذخیرہ اندوز آزادانہ طور پر غریبوں کو مہنگائی کی چکی میں پیس رہے ہیں۔
یہ وہ عوامی داد و فریادیں ہیں جو ہر گھر سے کی جارہی ہیں مگر حکمرانوں کی کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ہر طرف جنگل کا راج ہے جس تاجر و دکان دار کا دل جب چاہتا ہے چیزوں کی قیمت بڑھا دیتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ صوبہ سندھ میں حکومت کا کوئی وجود نہیں ہے۔ وزیر اور ان کے مشیران حکومتی مزے اڑا رہے ہیں غریبوں کا کسی کوکوئی خیال نہیں ہے ، ناجائز منافع خور غریب عوام کو سرعام ہر روز صبح و شام خریداری کے نام پر لوٹ رہے ہیں ، عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں مگر حکمرانوں کو سنائی نہیں دیتیں۔
کوئی ہے جو بے لگام مہنگائی ، ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کے جن کو بوتل میں بند کردے ؟ جو سب کچھ ہڑپ کررہا ہے ۔ لوگوں کے گھریلو بجٹ کا تصور ختم ہوچکا ہے ، محدود آمدنی میں گھر کا خرچہ چلانا مشکل ہوچکا ہے ، لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔ حکمران اور اپوزیشن الیکشن الیکشن کھیل رہے ہیں۔ کوئی بھی غریب عوام کے مسائل پرگفتگو کرنے کو تیار دکھائی نہیں دیتا۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ غریبوں کی دم سے اونچے محلوں میں روشنی ہے اگر غریب نہیں رہیں گے تو پھر تم کس پر حکمرانی کروگے؟
دس سال قبل صوبہ سندھ میں کمشنری نظام اس بنیاد پر بحال کیا گیا تھا کہ اس نظام کے تحت اشیائے خورونوش کی قیمتوں، ٹرانسپورٹ کے کرایوں، تجاوزات، ذخیرہ اندوزی اور غیر قانونی معاملات کو کنٹرول کیا جاسکے گا تاہم اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود ان معاملات میں بہتری کے بجائے مزید تنزلی آگئی ہے، بالخصوص روزمرہ استعمال کی ضروری اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں لیکن کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
کمشنر اور ڈپٹی کمشنرز کی ہدایت پر قیمتیں کنٹرول کرنے کے لیے رسماً چند کارروائیاں ضرور کردی جاتی ہیں جس کا نتیجہ صفر ہوتا ہے، شہر کراچی میں ایک سال کے دوران بتدریج کھلے آٹا دال، تیل، مرغی، سبزی، گوشت دالیں اور دودھ اور دیگر اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے، تاہم شہری انتظامیہ نہ صرف اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو مقررکرنے اور کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام ہے، بلکہ بیکری اشیا اور کمپنی سے بنے تیل گھی، ڈبل روٹی وغیرہ کی قیمتوں کی چیکنگ کا کوئی نظام ہی موجود نہیں ہے۔
کمپنی مالکان ایک ہی وقت میں باآسانی ایک آئٹم پر دس روپے سے تیس روپے اضافہ کردیتے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی، جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ عملاً کمشنری نظام مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے۔
اب چونکہ رمضان المبارک قریب ہے جس میں عوام کا دباؤ بڑھ جاتا ہے ، اس لیے مہنگائی کے خلاف اجلاس اور منافع خوروں کے خلاف کچھ اقدامات نظر آئیں گے لیکن مافیا اس قدر مضبوط ہوچکا ہے کہ اس نے اپنی منشا کے مطابق قیمتوں کا تعین کردیا ہے اور رمضان سے پہلے ہی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔
کمشنر کراچی کی جانب سے اشیائے خورونوش کے نرخ نامہ کی لسٹ جاری ہوتی ہے، 5 روپے اس کی سرکاری قیمت مقرر ہے لیکن بازار میں یہ 20 سے 30 روپے میں فروخت ہوتی ہے، یہ نرخ نامہ کون فروخت کرتا ہے یہ کسی کو پتہ نہیں، اس سے ہونے والی آمدنی سرکار کے کس کھاتے میں جاتی ہے، یہ بھی نہیں پتہ، یہ لسٹ کسی دکاندار کے پاس نظر نہیں آتی حالانکہ اسے سامنے لگانا لازمی ہے۔
اس وقت پرائس کنٹرول کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے، مصالحہ جات، بیکری اشیا، گھی، تیل وغیرہ کے پیکٹ کی قیمتیں کئی گنا بڑھ چکی ہیں، مل مالکان کے خلاف تو رسماً بھی کارروائی نہیں کی جاتی ہے۔ اسسٹنٹ کمشنرز دفاتر میں بیٹھے رہتے ہیں، بازاروں کے سروے ہوتے ہیں اور نہ ہی منافع خوروں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے، مہنگائی نے ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور غریبوں کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آچکی ہے۔
محکمہ زراعت کے تحت بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز نامی ایک محکمہ کام کرتا ہے لیکن وہ بے اختیار ہے۔ کمشنر کراچی کنٹرولر جنرل پرائس کنٹرول ہیں اور اشیائے خورونوش کی قیمتیں مقرر کرنا اور ان پر عملدرآمد کرانا ان کی ذمے داری ہے، ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کی ذمے داریوں میں اشیائے خورونوش کا نرخ نامہ جاری کرنا ہے۔
بازاروں کے دورے کرکے اشیا کی قیمت چیک کرنا اور خلاف ورزی کی صورت میں ان کے خلاف کارروائی کرنا ان کی ذمے داری ہے ان افسران کے پاس مجسٹریٹ کے اختیارات ہیں اس لیے ان کے لیے منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کرنا کوئی مسئلہ نہیں لیکن عرصہ دراز سے دیکھا گیا ہے اس ضمن میں کوئی سنجیدہ کارروائی نہیں کی گئی ہے اور جو بھی کارروائی کی گئی ہے وہ رسماً کی گئی ہے اور تھوک فروش (ریٹیلرز ) کے خلاف کی گئی ہے جب کہ بڑی مچھلیوں یعنی خوردہ فروشوں ہول سیلرز کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی جو کہ مہنگائی کے اصل ذمے دار ہیں۔
قانون کے تحت منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف 500 روپے سے 50 ہزار جرمانہ اور ایک دن سے 5 دن تک گرفتاری کی جاتی ہے، سندھ بھر میں جو رسماً کارروائی بھی ہوتی ہے اس کی مد میں جو جرمانہ اکٹھا کیا جاتا ہے، وہ کہاں جمع ہوتا ہے وہ کسی کو نہیں پتہ ہے۔
2002 سے قبل یہ محکمہ سندھ حکومت کے تحت کام کرتا تھا اس وقت یہ محکمہ ایس ڈی ایم حضرات کے تعاون سے پرائس کنٹرول کرتا تھا ایس ڈی ایم کے پاس مجسٹریٹ کے اختیارات ہوتے ہیں جو منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بروقت کارروائی کرتے تھے، بعدازاں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے متعارف کردہ شہری حکومت کے ماتحت یہ محکمہ کام کرتا رہا، 2012-13 میں پرائس کنٹرول کے اختیارات کمشنرز و ڈپٹی کمشنرز کو دیدیے گئے اب یہ محکمہ صرف بازاروں کے سروے کرتا ہے اور اس کی رپورٹ متعلقہ شہر اور ضلع کے کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو بھجوا دی جاتی ہے جس کی بنیاد پر منافع خوروں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ کمشنری نظام کے قائم رہنے اور نہ رہنے کے بارے میں سنجیدگی سے غور و فکر کیا جائے۔ عوام الناس کو یہ بھی پتا نہیں ہوتا کہ اس کے ضلع کا ڈپٹی کمشنر کون ہے اور اس کی ذمے داریاں کیا ہیں؟ اور نہ ہی کمشنر اور ڈپٹی کمشنرز کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ضلع کے عوام کن کن مصیبتوں میں گرفتار ہیں۔
سچ بات یہ ہے کہ کمشنری نظام خزانہ پر بوجھ ہے، اس نظام کی ذمے داریاں نچلی سطح پر منتقل کرتے ہوئے مئیر کراچی اور ٹاؤنز کے چیئرمینوں کے سپرد کی جائیں اور اس حوالے سے بدعنوانیوں کا تدارک کیا جائے اور ساتھ ہی بازاروں میں شکایتی لیٹر بکس لگائیں جائیں تو ممکن ہے کہ بے لگام مہنگائی ، ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کو قابو میں لایا جاسکے۔