کیا کرشمہ ہے مرے جذبۂ آزادی کا
قانون میں کوئی جھول، سقم یا ابہام ہے، تو پارلیمنٹیرینز کو ہی ایوان میں حل کرنا چاہیے
پاکستان کے حالات کے بارے میں کیا بات کی جائے، ایسا لگتا ہے کہ کہیں کوئی بھول ہو گئی ہے، سفر منزل پر پہنچنے کے لیے شروع ہوا تھا لیکن کہاں پہنچ گئے ہیں، اس کا بھی پتہ نہیں ہے، منزل کدھر گئی، وہ بھی یاد نہیں آ رہی، آمریت اور جمہوریت میں تمیز کرنا مشکل ہو گیا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ آمر بھی وہی ہے، جمہوری قائد بھی وہی ہے۔
ایک چہرے پہ کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ، پاکستان میں ایسے روپ اور بہروپ چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں، یہ پتہ نہیں چلتا کہ اصل کون ہے اور نقل کون ہے؟ اب ذرا توجہ فرمائیں، محترم عارف علوی پاکستان کے منتخب جمہوری صدر ہیں، وہ واقعی جمہوریت پسند خیالات رکھتے ہیں یا اس سے مختلف خیالات رکھتے ہیں، اس پر میں تو کوئی بات یا رائے نہیں دوں گا، ان کے ''کارہائے نمایاں'' سب کے سامنے ہیں۔
سیاست کی دھماچوکڑی میں انھوں نے اپنے آئینی فرائض منصبی کا پالن کرتے ہوئے 9 اپریل کو پنجاب اور خیبر پختون خوا میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا اعلان کر رکھا ہے، اس اعلان سے پہلے انھوں نے الیکشن کمشنر کو مشاورت کے لیے طلب فرمایا تھا لیکن وہ بھی چونکہ ایک آئینی عہدیدار ہیں، لہٰذا انھوں نے صدر محترم کو ٹکا سا جواب دیا کہ میں مشاورت نہیں کروں گا۔
صدر صاحب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، صوبائی الیکشن کرانے کا حکم صادر فرما دیا۔ اب وہ خود تو آرام سے بیٹھے ہیں لیکن ملک میں ہاہاکار مچی ہوئی ہے، وزیراعظم اور وزراء صاحبان کے نزدیک صدر صاحب نے انتخابی تاریخ کا اعلان کر کے آئین توڑ دیا ہے۔
صدر مملکت کا یہ اقدام کتنا آئینی ہے اور کتنا غیرآئینی ہے، اس کا فیصلہ کرنے کا بیڑا عدالت عظمیٰ نے اٹھایا ہے، اختیارات کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اس کا پتہ آیندہ دنوں میں چل جائے گا۔ ویسے مزے کی بات ہے کہ پاکستان میںآئین اور جمہوریت پر کاربند رہنے کی گردان تمام ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈرز کرتے ہیں لیکن عملاً ایک دوسرے کو غیرآئینی تھپڑ رسید کرنے سے باز بھی نہیں آتے، یہاں ایک چٹکلا حقیقت حال بیان کرنے کے لیے اوتاولا ہوا جا رہا ہے۔
ذرا سنئے: پنجابی زبان کے ماہرین ڈکشنری تیار کر رہے تھے، پنگا لفظ آیا تو اس کے معنی تلاش کرنے لگے لیکن کسی کو ٹو دی پوائنٹ لفظ یا جملہ ذہن میں نہیں آ رہا تھا۔ تھک ہار کر وہ فوک وزڈم کا سہارا لے کر ایک دیہاتی بزرگ کے پاس پہنچے اور اسے اپنی لفظ پنگا کے بارے میں مشکل سے آگاہ کیا اور پوچھا کہ آپ اس کا کوئی حسب حال مطلب بتا دیں۔ اس پر دیہاتی بزرگ نے فرمایا، بیٹا! پنگے کا کئی مطلب نہیں ہے لیکن اسے لیتا ہر کوئی ہے، بس یہی لکھ لو۔ پاکستان کے اسٹیک ہولڈر بھی پنگا لینے سے باز نہیں آتے اور ساتھ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ ''بابا جی! ہم معصوم ہیں۔''
پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت رائج ہے۔ یہ نظام پارلیمنٹ، ایگزیکٹو اورجیوڈیشری کے ستونون پر کھڑا ہے۔ یوں تو صحافت کو چوتھا ستون قرار دیا جاتا ہے لیکن یہ اس لیے ستون کہلاتا ہے کہ جمہوری نظام آزادی اظہار رائے کا احترام کرتا ہے اور اسے قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ہماری پارلیمانی جمہوریت کے ستونوں میں اگر کوئی ستون کمزور ترین ثابت ہوا ہے تو وہ پارلیمنٹ ہے۔
ہمارے جمہوری پارلیمنٹیرینز نے پارلیمنٹ کے وقار اور اختیار پر ہمیشہ سمجھوتہ کیا، اپنی طاقت کسی اور کے سپرد کرنے پر کبھی ناراضی کا بھی اظہار نہیں کیا۔ تین بار مارشل لا ء لگایا گیا، جمہوریت اور آئین کا قتل کیا گیا، لیکن سیاستدان ہی غیرجمہوری حکومتوں کا حصہ بنتے رہے ہیں، جیسے ہی جمہریت کی گاڑی خراب ہوتی ہے، سیاسی قیادت اس سے اتر کر آمریت کی بکتربند گاڑی پر سوار ہوجاتے ہیں۔
پارلمنٹیرینز جب گھگو گھوڑے بن جائیں گے تو پارلیمنٹ کی بالادستی کی جنگ کوئی اور کیوں لڑے گا؟پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے پارلیمنٹیرینز کی جمہوریت کے ساتھ وابستگی ذاتی مفادات سے بالاتر ہونی چاہیے کیونکہ انھیں عوام نے اپنے اجتماعی مفادات کے تحفظ کے لیے ووٹ دے کر پارلیمنٹ کا رکن بنایا ہوتاہے،پارلیمنٹ جو قانون سازی کرتی ہے، ان کا تحفظ کرنا پارلیمنٹیرینز کا فرض اولین ہے اور ایسا کرنے سے ہی پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہوتی ہے۔ حالیہ سیاسی انارکی ، معاشی بدحالی اور مایوسی کی وجہ صرف پارلیمنٹیرینز کی بزدلی اور خوف ہے ۔
ذاتی اور گروہی مفادات کے بوجھ تلے دبی جمہوریت سڑکوں پہ بھٹکتی پھر رہی ہے یا عدلیہ کے سامنے سائل بن کر کھڑی ہے۔ ریاست کا کوئی اور ستون ایسی بے چارگی اور بے بسی برداشت نہیں کر سکتا۔ عدلیہ اپنے اختیارات اور دائرہ کار پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتی، ایگزیکٹو بھی اپنا حساب برابر کرنا جانتی ہے جب کہ فوج کا ہاتھ تو اتنا بھاری ہے، سب کو پتہ ہے، بس آ جا کے جمہوری قیادت اور پارلیمنٹ ہی غریب کی ''جورو'' بنتی ہے۔
کہتے ہیں کہ جب گھر کے مرد مر جاتے ہیں تو اس گھر کی خواتین کی کوئی عزت نہیں کرتا، انھیں ہر کوئی حوس کی نظروں سے دیکھتا ہے کیونکہ انھیں کوئی ڈر خوف نہیں ہوتا۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ پارلیمنٹیرینز ہی پارلیمنٹ کی بے توقیری کر رہے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ ہم مستعفی ہوچکے ہیں اور کبھی کہتے ہیں کہ ہم نے استعفے نہیں دیے، قومی اسمبلی کے اسپیکر ان کے استعفے منظور کرکے الیکشن کمیشن کو بھیج دیتا ہے، الیکشن انھیں قانون کے مطابق ڈی نوٹیفائی کردیتا تو یہ پارلیمنٹیرینز سائل بن کر عدلیہ کے روبرو ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور دہائی دیتے ہیں کہ ہماری رکنیت بحال کریں۔کیا دنیا کی کسی اور پارلیمنٹ کے ارکان ایسی غیرجمہوری اور غیرپارلیمانی حرکت کر سکتے ہیں۔
ایگزیکٹیو اور عدلیہ کے دائرہ اختیار میں کوئی مداخلت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا لیکن پارلیمنٹیرینز ایسی مخلوق ہے جو اپنے دائرہ اختیار کے بارے میں بھی عدلیہ کے سامنے سوال بن کر کھڑے ہیں، آئینی طور پر پارلیمنٹ کو کوئی ادارہ ہدایات نہیں دے سکتا اور نہ انھیں جمہوریت اور قانون کا سبق پڑھا سکتا ہے، یہ پارلیمنٹیرینز کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنا سبق خود یاد کریں، اپنے دائرہ اختیار کا علم اور فہم رکھیں اور اپنے آئینی اختیار کا تحفظ کریں۔
اگر پارلیمنٹ اپنا تحفظ خود نہیں کر سکتی تو پھر اسے قانون سازی کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کو اپنے حق اور اختیار پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے'ملک کی سیاسی قیادت پارلیمنٹ سے جڑی ہوئی ہوتی ہے کیونکہ سیاستدان ہی منتخب ہو کرقومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی اور سینیٹ میں جاتے ہیں۔
پارلیمنٹ اگرکوئی ایسا قانون بناتی ہے اور اس قانون میں کوئی جھول، سقم یا ابہام ہے، تو پارلیمنٹیرینز کو ہی ایوان میں حل کرنا چاہیے۔ پارلیمنٹ کی کمزوری اور بے توقیری کی ذمے داری صرف اور صرف سیاست دانوں اور پارلیمنٹیرینز پر عائد ہوتی ہے۔ اس منظر نامے میں عوام بے چارگی اور مایوسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
کیا کرشمہ ہے مرے جذبۂ آزادی کا
تھی جو دیوار کبھی، اب ہے وہ دَر کی صورت