تمہیں تولا گیا ہے
خوامخوا، چند چرنے والوں کو مزید چرانے کے لیے کھیت برباد کرنا کون سا انصاف بے تحریک ہے
بہت دن ہوئے پی ٹی وی کی سلور جوبلی کے حوالے سے اسلام آباد میں ایک بہت بڑا پروگرام ہو رہا تھا جس میں تمام سینٹروں سے معززین شوبزکے سارے برین، بھانڈے اور سیاست کی ''کٹلری '' جمع کی گئی تھی، وی آئی پیز، وی وی آئی پیز اور وی وی آئی پیز جمع کیے گئے ۔لیکن اصل بات کرنے سے پہلے کچھ اورہلتی ہوئی''دموں'' کاذکر بھی ضروری ہوگیا ہے کیوں کہ
لیجیے سنئے اب افسانہ فرقت مجھ سے
آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا
بلکہ
جب اس زلف کی بات چلی
ڈھلتے ڈھلتے رات ڈھلی
ان دنوں پی ٹی وی ملک کا ''کماؤ پتر'' تھا، اس لیے دل کھول کر خرچ کیاجارہاتھا یعنی ابھی منتخب نمایندوں کو یہ پتہ نہیں چلاتھا کہ اپنے نکمے، نکھٹوئوں کو بٹھانے کے لیے اس سے بہتر کوئی اور دسترخوان نہیں ہے ،فیورٹ دسترخوان اس وجہ سے بھی تھا کہ تنخواہیں اور مراعات بھی بے حساب تھیں اورساتھ ہی کام نہ کرنے بلکہ کچھ بھی نہ کرنے کی سہولت بھی موجود تھی جس کے لیے منتخب نمایندوں کے سارے بندے کوالی فائی کرتے ہیں۔
لیکن جس زمانے کی ہم بات کررہے ہیں، اس زمانے میں کام تھا اورکرنا بھی پڑتا تھا ، اس لیے تو پی ٹی وی کماؤ پتر بنا ہواتھا ۔پھر آیا وہ زمانہ جب جہاں میں جام جم نکلے ۔بعد کے دنوں کا ایک واقعہ بھی یاد آیا ۔ہم پشاورسینٹر کے جی ایم آفس میں بیٹھے تھے ، جی ایم سے اس کا سیکریٹری کچھ کاغذات دستخط کروارہا تھا ،دست خطی ختم ہوئی تو جی ایم بولا ،یہ جو میں نے ابھی ابھی دستخط کیے ''اوورٹائم'' کے کاغذ تھے، پھر اس نے اپنی دانش بکھیرتے ہوئے کہا کہ تیس لاکھ اوورٹائم کے بنتے ہیں۔
اگر اس کی جگہ ہم تیس نہیں پندرہ بیس آدمی بھی بھرتی کریں تو کچھ لوگوں کا بھی بھلا ہوجائے گا اور اوورٹائم کی یہ رقم بھی نہیں دینا پڑے گی۔ اس کی دانش پر ہم نے عرض کیا کہ اگر تیس آدمی اور بھرتی کیے گئے تو یقیناً اوورٹائم کی یہ رقم بتیس سے بڑھ کر ساٹھ لاکھ ہوجائے گی کہ آخر وہ آدمی بھی تو منتخب نمایندوں اوروزیروں کے ہوں گے اور وہ بھی اپنی قمیض کے نیچے پیٹ اور قمیض کے اوپر ''جیب '' لائیں گے۔
خیر تو اب اصل بات کی طرف آتے ہیں، پروگرام یوں تھا کہ چند لوگوں کو وی آئی پیز کے ہاتھوں سلورجوبلی تمغے دیے جاتے، پھر درمیان میں کوئی تفریحی پروگرام ہوتا، ہمیں بھی جب تمغہ ملا اور وہ واحد تمغہ ہے جو ہم نے ابھی تک سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔کیوں کہ وہ تمغہ ہمیں عبدالستار ایدھی اور محترمہ بلقیس ایدھی کے ہاتھوں نے دیاتھا۔ سامنے اسٹیج تھا، اچانک وہاں ایک دھماکا ہوا اورایک پری، پرستان سے اڑنے کے اندازمیں نمودار ہوئی اورچھم چھم ناچنے لگی۔
وہ رونا لیلیٰ تھی اوراس پر جو گانا اوورلیپ ہو رہاتھا، میں تو ناچوں گی۔۔۔ اور وہ ایسا ناچی کہ گھنگھرو تو نہیں ٹوٹے لیکن دیکھنے والوں کے دل، جگرے اورکلیجہ گردے چکنا چورہوئے ، ہمیں یہ حیرت ہورہی تھی کہ پی ٹی وی پر تو ''ناچ''بین ہے اور یہ پروگرام براہ راست ٹیلی کاسٹ ہورہا تھا ، یہ پتہ تو بعد میں چلا کہ رقص صرف ہال میں موجود حاضرین کے لیے تھا، اسکرین پرشہری کچھ اور دیکھ رہے تھے، شاید قومی اور ملی نغمہ یا کوئی فکری پروگرام۔ رونالیلیٰ کے ناچنے اورلپ سنگنیگ ہمیں آج پھریاد آرہی ہے کیوں کہ کچھ ایسا ہی ناچ ہم سامنے سیاسی اسکرین پر دیکھ رہے ہیں ، میں تو ہیلی کاپٹر میں بیٹھوں گا ، میں تو ناچوں گا، بندیاچمکے گی۔
نیا کی تمنا ہے کہ ہیرا اسے مل جائے
چاہے میری جان جائے، چاہے میرا دل جائے
میں تو ناچوںگی، چاہے سیلاب آئے ،عذاب آئے ،عوام مرمٹ جائیں، مہنگائی میں کسی کاککھ نہ رہے، میں تو ناچوںگی، بندیا چمکے گی، چوڑی کھنکے گی،کسی کادل ٹٹا ہے تو ٹٹ جائے۔ ایک باردیکھا، دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے اور پھر تیسری چوتھی بار کی ہوس تو آہی جاتی ہے کہ ہوس سے ہوس ہی پیداہوجاتی ہے، دل مانگے مور۔۔۔اور چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی اور پھر اچانک ایک دم کسی بچے سے بھی دودھ کی بوتل کھینچ لی جائے تو ۔
حیف درچشم زدن صحبت یار آخر شد
روئے گل سیرنہ دیدم وکبار آخرشد
چنانچہ طوفان پر طوفان اٹھانا بھی جائزہے، کبھی اسلام آباد پر سونامی لانا،کبھی عوام کا سمندر چڑھانا، یہ کال دینا ، وہ کال دینا اور اب جیل بھروکی کال لیکن جیل بھرو اور جیب بھرو میں بہت زیادہ فرق ہوتاہے۔ہمارے خیال میں تو اب صبر ہی بہت ہے کہ
گزرگیا جو زمانہ اسے بھلا ہی دو
جو نقش بن نہیں سکتا اسے مٹا ہی دو
کیوں کہ ہمیں لگتاہے کہ ایک مرتبہ پھر دیوار پر یہ نوشتہ ابھرنے ہی والاہے کہ
''تمہیں تولا گیا لیکن تم وزن میں بہت کم نکلے''
خوامخوا، چند چرنے والوں کو مزید چرانے کے لیے کھیت برباد کرنا کون سا انصاف بے تحریک ہے۔
اب نہ آئے گی جوانی نہ جوانی کی امنگ
راہ کیا دیکھیے روٹھے ہوئے مہمانوں کی