کہانی آپا جان کی تیسرا اور آخری حصہ
اپریل کا مہینہ تھا کہ ان کی طبیعت پھر بگڑنے لگی اور تب ان کو یقین سا ہونے لگا کہ وہ اب نہیں بچیں گی
زمانہ کس طرح زَن زَن کرتا گزرگیا۔ انھوں نے یکم جنوری 1933 کے دن جامعہ ملیہ میں قدم رکھا تھا۔ اس دوران برلن، بون اور میونخ سے آنے والے دوستوں اور قریبی رشتہ داروں کے خطوط سے اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کا جرمنی چھوڑ دینے کا فیصلہ کس قدر درست تھا لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک تلخ حقیقت تھی کہ وہ ہندوستان میں تھیں اور دنیا کے نقشے پر دوسری عالمی جنگ کی جو بساط بچھی ہوئی تھی اس میں ہندوستان اور جرمنی ایک دوسرے سے بر سر پیکار تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ برطانوی حکومت نے انھیں ''دشمن '' قرار دے کر گرفتار کر لیا۔
اس وقت وہ ''خاکسار منزل '' جس کی وہ وارڈن تھیں۔ انھیں احمد نگر کے قلعے میں نظربند کردیا گیا۔ جامعہ میں کام کرنے والوں کے لیے یہ نہایت دکھ کی بات تھی ، وہ لوگ جو ہندوستان کی جدوجہد آزادی سے جڑے ہوئے تھے انھیں قلعہ احمد نگر کی سختیوں کا اچھی طرح اندازہ تھا کہ اس قلعے کے آلام و مصائب کیسے ہیں۔
اعلیٰ سطح کے کچھ لوگوں نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے وہاں جا کر ان سے ملاقاتیں کیں اور جامعہ کے اساتذہ اور آپا جان پر جان چھڑکنے والے شاگردوں کے بنائے ہوئے تحائف بھی انھیں پہنچائے۔ دیار غیر میں اور ہزاروں میل دور رشتہ داروں اور دوستوں کی زندگی اور موت کی کشمکش کے دوران وہ ان لوگوں کے درمیان تھیں جو نہ ان کے ہم زبان تھے اور نہ ہم مذہب لیکن کیا چھوٹے اور کیا بڑے سب ہی ان پر جان چھڑکتے تھے۔ انھیں جب قلعہ احمد نگر سے رہائی ملی تو جامعہ ملیہ میں ان کی آمد کا جشن بنایا گیا۔
آپا جان ''خاکسار منزل'' واپس آکر ایسے ہی خوش تھیں جیسے آ ملے ہوں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک۔ مجھے افسوس اس بات کا کہ یہ کتاب جب میرے ہاتھ لگی تو صغریٰ آپا کو رخصت ہوئے زمانے گزر گئے تھے۔ بہت سی باتیں ان سے پوچھی نہیں جاسکتیں۔
صغریٰ آپا نے آپا جان کے فلسفہ خدمت کے بارے میں لکھا ہے کہ '' ہم لوگ اگرکسی کی خدمت کرتے بھی ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ وہ ہمارے مذہب کا اور ہم قوم ہو۔ ہمارا ہم وطن ہو جب کہ خدمت خلق میں کسی قسم کی شرط نہیں ہونی چاہیے۔ چونکہ خدمت خلق کا راستہ ہی وہ راستہ ہے جو انسان کو خدا تک پہنچاتا ہے۔ ہم ابتداء سے یہ بات بچوں کو سمجھا دیں اور عملی طور پر اس کی مثال ان کے سامنے پیش کریں تو یہ بات ان کے ذہن نشین ہوجائے گی اور بڑے ہوکر وہ اس پر عمل کریں گے۔''
پروفیسر محمد مجیب نے ایک جگہ لکھا ہے '' جب وسائل کی کمی اور مالی پریشانیوں کی وجہ سے جامعہ کے لوگ پریشان ہوجاتے اور اپنی مایوسی کا اظہار کرتے تو آپا جان کہتی تھیں کہ '' مجھے تو جامعہ ہمیشہ پھولتی پھلتی، آسمان کی طرف بڑھتی ، زمین پر اپنا سایہ پھیلاتی نظر آتی ہے۔'' وہ ایسے لوگوں کو سمجھایا کرتی تھیں کہ ان کی مایوسی بے بنیاد ہے۔ انسان کو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے اور اس طرح وہ اپنے پرامید باتوں سے جامعہ کے لوگوں کے دل امید سے بھر دیتی تھیں۔''
امرتسر میں جلیانوالہ باغ کے سانحہ عظیم کی یاد میں جامعہ میں قومی ہفتہ منایا جاتا تھا۔ جلیانوالہ باغ کے واقعہ کے بارے میں تو ہم سب جانتے ہی ہیں کہ یہاں انگریز گورنر کے حکم پر نہتے ہندوستانیوں پر گولیاں چلائی گئی تھیں۔ وہ بھی اس طرح کہ ان کے بھاگنے کا راستہ بھی نہیں تھا۔ اس کے بعد تحریک آزادی نے زور پکڑا۔ اس دن کی یاد میں ہر سال 6 سے 13 اپریل تک جامعہ میں قومی ہفتہ منایا جاتا ہے۔
جامعہ والوں نے اس واقعہ کی یاد منانے کا ایک نیا طریقہ نکالا تھا کہ صرف جلسے اور تقریریں کر کے ان اہم واقعات کو یاد کرنا کافی نہیں، بلکہ 6 سے 13 اپریل تک اس کی یاد اس طرح منائی جاتی تھی کہ جامعہ کے طالب علم اور استاد جامعہ کی بستی کے آس پاس کے گائوں میں جا کر صفائی کا کام کرتے تھے۔ وہاں کی گلیاں صاف کرتے تھے ، 13 اپریل کو سارے خدمت گاروں کو جو باتھ روم صاف کرتے تھے، پانی بھرتے تھے، صفائی کرتے تھے، کھانا پکاتے، کھلاتے تھے، کپڑے دھوتے تھے، ان سب کی چھٹی کردی جاتی تھی اور یہ سب کام جامعہ کے طالب علم اور استاد کرتے تھے۔
خدمت گار چھٹی مناتے تھے اور پھر سب استاد اور طالب علم ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ اس طرح کہ بچوں کو یہ احساس ہوا کہ یہ کام کتنے اہم اور ان کے کرنے والے بھی کتنے اہم ہیں۔ آپا جان اس قومی ہفتے کو منانے میں آگے آگے رہتی تھیں اور دنوں پہلے بچوں کو اس ہفتے کے لیے تیار کرتی تھیں اور جان توڑ کر کوشش کرتی تھیں کہ یہ ہفتہ بہت کامیابی سے منایا جائے۔
یہ کہانی آپا جان کی اس دورکی کہانی ہے جب وہ تندرست تھیں۔ طاقتور تھیں۔ کام کرنے کے منصوبے تھے مگر ان کی شخصیت کا سب سے خوبصورت رخ تو ان کی اس بیماری میں سامنے آیا جو ان کی آخری بیماری ثابت ہوئی۔ آپا جان کی طبیعت گری گری رہنے لگی تھی۔ وہ یہ محسوس کرتی تھیں کہ وہ اب جلد تھک جاتی ہیں۔ پیٹ میں درد رہنے لگا تھا۔
وہ تھوڑا بہت علاج کرتی رہیں مگر اپنے کاموں میں مشغول رہیں ، مگر طبیعت خراب ہوتی گئی اور انھوں نے یہ محسوس کیا کہ اب تک تو وہ تیمارداری کے فرائض انجام دیتی رہی ہیں مگر اب قدرت نے ان کو خود بیمار کردیا ہے اور اب ان کو یہ دکھانا ہے کہ بیماری میں بھی انسان صبر اور برداشت سے کام لے سکتا ہے اور کس طرح خوش دلی سے اس کو جھیل سکتا ہے۔ بیماری اور تکلیف میں بھی وہ دوسروں کی تکلیفوں کو کس طرح دور کرسکتا ہے۔
آپا جان کی بیماری جامعہ والوں کے لیے کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ جامعہ کے لوگ سخت پریشان تھے اور زیادہ سے زیادہ ان کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ اس شکر گزاری کے لیے ہی نہیں کہ وہ اپنا خاندان ، اپنا ملک ، سب کچھ چھوڑ کر جامعہ میں آبسی تھیں اور اس کی خدمت تن دھن من سے کی تھی بلکہ سب ہی کو آپا جان سے بہت محبت اور تعلق تھا ، مگر آپا جان بستر علالت پر بھی جامعہ کے خیال میں رہتی تھیں۔
اسپتال میں ان کا آپریشن ہوا جو کامیاب رہا تھا۔ ان کی طبیعت بھی سنبھلنے لگی تھی۔ جامعہ والوں کو امید ہوئی کہ آپا جان اب جلد تندرست ہو جائیں گی اور آپا جان بھی اپنے کام کے نئے منصوبے بنانے لگیں۔ اسپتال میں جس مریض کو ضرورت ہوتی، اپنی دوا اور غذا ضد کر کے اس کو دلوا دیتیں۔ اپنے آس پاس کے مریضوں کا حال دریافت کرتیں۔ ان کے دکھ درد میں اپنے دکھ درد کو بھولنے کی کوشش کرتیں۔
اپریل کا مہینہ تھا کہ ان کی طبیعت پھر بگڑنے لگی اور تب ان کو یقین سا ہونے لگا کہ وہ اب نہیں بچیں گی۔ وہ اکثر اپنے دوست ذاکر صاحب سے کہتیں کہ مجھے قرآن پڑھ کر سنائو اور انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی آخری رسوم اسلامی طریقے سے انجام دی جائیں ، ان کی حالت بگڑتی گئی۔ ڈاکٹروں نے ان کو کینسر کا مریض تشخیص کیا۔ اسی زمانے میں ذاکر صاحب کی کتاب '' تعلیمی خطبات '' شایع ہو رہی تھی ، جس میں انھوں نے یہ بتایا ہے کہ اچھی تعلیم کے کیا معنی ہیں اور کس طرح بچوں کو صحیح تعلیم دینی چاہیے۔ انھوں نے اس کتاب کو آپا جان کے نام معنون کیا۔
اپریل کے مہینے میں ان کی طبیعت پھر سے بگڑنے لگی۔ ڈاکٹروں نے کینسر تشخیص کیا جس کے بعد سب ہی کو یقین ہوگیا کہ وہ ہم سے رخصت ہو رہی ہیں۔ وہ نہایت صبر اور ہمت سے کینسر سے لڑتے ہوئے رخصت ہوئیں۔