کمزور فنانشل اور ٹیکس سسٹم
آئی ایم ایف کے پیشگی اقدامات میں سے زیادہ تر پورے کردیے گئے ہیں
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف ایگریمنٹ طے پا جانے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں کیونکہ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر مرحلہ وار عمل شروع کر رکھا ہے، میڈیا میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی ایک اور پیشگی شرط تسلیم کرلی ہے ، یہ شرط پالیسی ریٹ (شرح سود) بڑھانا ہے، اطلاعات کے مطابق اس پراتفاق ہوگیا ہے۔
ایک خبر میں وزارت خزانہ کے ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف جائزہ مشن کے درمیان ورچوئل مذاکرات میں تکنیکی سطح کی بات چیت ہوئی ہے جس میں پاکستان کی حکومت نے پالیسی ریٹ بڑھانے پر اتفاق کرلیا ہے، توقع ظاہر کی گئی ہے کہ شرح سود میں دو فیصد تک اضافہ کیا جائے گا۔
آئی ایم ایف کے پیشگی اقدامات میں سے زیادہ تر پورے کردیے گئے ہیں، پاور سیکٹرکے کچھ معاملات ہیں جو حتمی مرحلے میں ہیں اور توقع ہے کہ اس بارے میں بھی جلد پیشرفت ہوگی، یہ معاملات طے ہونے کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف سطح کا معاہدہ ہوجائے گا۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ آٹھ دس دن میں طے پا جائے گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ بات چیت کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہے اور معاہدے کی راہ میں کوئی بڑی رکاوٹ نظر نہیں آرہی ہے۔
اخباری خبر میں ذرایع کے حوالے سے مزید بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف حکام کو جون تک وصول ہونے والے غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذرایع پر بھی تفصیلی بریفنگ دی ہے،جس پر خاصا اطمینان ظاہر کیا گیا ہے، آئی ایم ایف سے اسٹاف سطح کا معاہدہ طے پانے کے بعد آئی ایم ایف جائزہ مشن نویں اقتصادی جائزے اور اگلی قسط کی منظوری کے لیے معاملہ آئی ایم ایف بورڈ کو بھجوائے گا۔
ادھر ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران عوام پر735 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالنے کے باوجود بجٹ خسارہ 62کھرب 20ارب روپے تک پہنچ گیا ہے، یہ نظرثانی شدہ تخمینہ لگایا گیا ہے۔ بجٹ خسارے پر نظرثانی آئی ایم ایف سے مذاکرات کی روشنی میں کی گئی ہے ۔
نئے اعدادوشمار کے مطابق جون میں 96 کھرب روپے کا منظور ہونے والے بجٹ کا حجم 112کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے ۔
بجٹ خسارے میں اضافے کی بنیادی وجہ قرضوں کی ادائیگی پر52کھرب روپے کے غیرمعمولی اخراجات ہیں ۔ اس کے علاہ جون میں سبسڈیز کا تخمینہ 699 ارب روپے لگایا گیا تھا وہ اب 68 فیصد بڑھ کر12 کھرب روپے تک پہنچنے کی توقع ہے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ بجٹ خسارہ ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھ گیا ہے،اس وقت حکومت کے لیے اصل مسئلہ یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح آئی ایم ایف کا اعتماد حاصل کیا جائے تاکہ دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ لین دین کا دروازہ کھل سکے۔
اس معاملے سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ اگر آئی ایم ایف سے معاہدہ ناکام ہو جائے تو دیگر عالمی مالیاتی ادارے بھی لین دین نہیں کرتے جس سے کسی بھی حکومت کے لیے ملکی مالی معاملات حل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔لہٰذا یہ تمام امور حکومت کے مدنظر تھے ۔
جہاں تک آئی ایم ایف کا اعتماد حاصل کرنے کی بات ہے تو حکومت نے اس سلسلے میں اچھی پیش رفت کی ہے، اور اس نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے آئی ایم ایف سے معاہدہ بلا کسی رکاوٹ کے پایہ تکمیل تک پہنچ جائے۔
عام آدمی معاشی گورکھ دھندوں کا ادراک نہیں رکھتا لہٰذا اگر عوامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو افراط زر اور مہنگائی میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ملک کا درمیانہ طبقہ مالی دباؤ کا شکار ہوا ہے جب کہ غریب طبقے کے لیے روزمرہ استعمال کی چیزیں خریدنا بھی مشکل ہوگیا ہے ،اور یہ مشکلاتکم نہیں ہو رہیں بلکہ ان میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے کیونکہ مہنگائی رکنے کا نام نہیں لے رہی اور اشیائے ضرورت کی قیمتیں بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔
ایسی گو مگو کی کیفیت نے کاروباری سرگرمیوں کی رفتار بھی سست کی ہے۔ یوں پاکستان کی معیشت کو بحال کرنے کے لیے ایسی اکنامک اسٹرٹیجی بنانا ، جس میں مہنگائی بھی نہ ہو اور آئی ایم ایف بھی راضی ہوجائے، بہت مشکل نظر آرہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت جدیدیت اور پسماندگی کا ملغوبہ ہے۔
کراچی،لاہور،راولپنڈی اسلام آباد،فیصل آباد، گوجرانوالہ ، سیالکوٹ اور ملتان میں بہت سے کاروبار میں جدید ٹیکنالوجی استعمال ہورہی ہے۔کاروبار کے حسابات کمپیوٹرائزڈ ہیں لیکن خیبر پختونخوا میں پشاور کے سوائے کہیں کاروبار کمپیوٹرائزڈ نہیں ہے، پورے بلوچستان میںکاروبارقدیم اصولوں پر چل رہا جب کہ اندرون سندھ میں بھی یہی حال ہے، جنوبی پنجاب میں بھی وہی حال ہے، جو کے پی، اندرون سندھ اور بلوچستان میں ہے۔
اس وجہ سے ٹیکس محصولات کا دائرہ محدود ہے، حکومت اگر ٹیکس نیٹ بڑھانے کی بات کرتی ہے تو اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ جو پہلے سے ٹیکس دے رہے ہیں،ان کی ٹیکس سلیب بڑھائی جائے اور ان ڈائریکٹ ٹیکس کی شرح زیادہ کی جائے ، اس طریقے سے ٹیکس دینے والے ایریاز میں کاروباری طبقہ، ملازم طبقہ، یومیہ اجرت پر کام کرنے والا طبقہ اور پروفیشنل طبقہ متاثر ہوتے ہیں لیکن خیبر پختون اور بلوچستان کے صوبوں اور علاقوں میں قانون کی گرفت کمزور ہے۔
قبائلی وڈیروں کا کنٹرول ہے، وہاں اول تو کاروباری سیکٹراور سروسز سیکٹر محدود ہوگا اور جتنا موجود ہے ، وہ بھی غیرفعال ہے۔یوں پاکستان کے وفاقی محصولات کا بوجھ نو دس شہروں کے کاروباری، ملازم اور مزدور طبقے پر لاد دیا جاتا ہے۔خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے قبائلی علاقے کے سرداروں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایا جائے تو اس سے حکومت کو اچھا خاصا ریونیو حاصل ہو گا۔
ادھرنیپراکے چیئرمین توصیف ایچ فاروقی نے کہا ہے کہ ایم ڈی آئی فکسڈ چارجز ختم نہیں کرسکتے کیونکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پانے کے لیے ان کی وصولی ضروری ہے، انھوں نے دلیل دی ہے کہ زیادہ تر بجلی درآمدی فیول سے پیدا کی جارہی ہے،صارفین کو اس کا بوجھ اٹھانا ہوگا،سیزنل بزنسز کنکشن منقطع اور دوبارہ لگواسکتے ہیں۔
کولڈ اسٹوریج سیزنل بزنس نہیں ہے۔ وہ ہفتے کو لاہور چیمبر میں خطاب کر رہے تھے، چیمبر عہدیداروں نے مؤقف پیش کیا کہ ڈیمانڈ انڈیکیٹر چارجز کے تحت ان سے ان کے منظور شدہ لوڈ کا 50 فیصد وصول کیا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ بجلی کا بل یونٹ استعمال کیے بغیر ادا کرنا پڑتا ہے، اگر وہ اپنے الاٹ کردہ لوڈ کے 50فیصد سے زیادہ بجلی استعمال کرتے ہیں تو وہ ایم ڈی آئی چارجز کے بجائے استعمال شدہ یونٹس کے مطابق بل ادا کریں گے۔ اس فیصلے سے وہ تاجر بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔
بجلی کی ترسیل اور صارفین سے بل وصولی ایک متنازعہ مسئلہ رہا ہے۔بجلی اور گیس وغیرہ کے بلز میں ایسے بے جا ٹیکس شامل کردیے گئے ہیں، جن کا کوئی جواز نہیں ہے۔اگر بجلی کوئلہ ، گیس اور تیل سے بنائی جارہی ہے تو اس میں صارفین کا نہیں ، ان کا قصور ہے جنھوں نے یہ آپشنز استعمال کرنے کی اجازت دی اور توانائی کے سستے ذرایع اختیار نہیں کیے۔
آج بھی واپڈا، تمام ڈسکوزکے اعلیٰ افسروں سے لے کر لائن مینز اورچپراسی تک کو اپنے اپنے اسکیل اور عہدے کے لحاظ فری بجلی دی جارہی ہے۔دیگر ریاستی اداروں کے افسروں کو بھی یہ سہولت دی جاتی ہے۔
خیبر پختونخوا،بلوچستان، کراچی کے بعض علاقے، لاہور کے بعض علاقے،جنوبی پنجاب اور اندورن سندھ میں بجلی چوری کی جاتی ہے، اس چوری شدہ بجلی کا بوجھ قانون پسند شہریوں پر لاد دیا جاتا ہے۔ناقص تاروں کی وجہ سے جو بجلی ضایع ہوتی ہے۔
اس کی قیمت بھی صارفین پر ڈال کر وصول کرلی جاتی ہے۔لہٰذا سرکاری عمال کی مراعات و سہولیات پر نظرثانی کی ضرورت ہے، بجلی کے محکموں کی افسرشاہی اور ٹھیکیداروں کے درمیان بھی بہت کچھ ہوتا ہے،اس تعلق کو بھی قانون کے دائرہ میں لانا چاہیے، تب جاکر محکمانہ ایفی شینسی میں اضافہ ہوگا۔
اگر ریاستی سطح پر شفافیت ہو تو اداروں کی کارکردگی میں اضافہ ہوگا۔پاکستان اگر غریب ہے تو اس کی نوکر شاہی کو حدود میں رہ کر زندگی گزارنا ہوگی۔
اگر کسی اعلیٰ افسر کا تنخواہ میں گزارا نہیں ہوتا تو اسے کرپشن کرنے،اپنی تنخواہیں اور مراعات میں اضافے کے لیے کاریگری دکھانے کے بجائے نوکری کو چھوڑ کر کوئی اور کام کرنا چاہیے، عوام کا مال کھانا لیکن انھیں محکوم سمجھنے والے نظام میں تبدیلیاں ناگزیر ہوچکی ہے ۔
ریاست کے نام پر مفت خوری کرنے والوں کا قومی خزانے پر بوجھ ناقابل برداشت ہوچکا ہے، عوام اپنے ٹیکسوں سے نوکرشاہی کی بے جا مراعات اور سہولت کا خرچہ نہیں اٹھا سکتے ۔