کتاب کا عشق اور لاہور کے ادب نواز میلے
اِسی طرح کتاب دوست بھارتی بھی پاکستانی تصنیفات کے دیدار سے دُور ہیں
فروری 2023 کے آغاز اور موسمِ بہار کے طلوع ہوتے ہی لاہور کے الحمرا آرٹ سینٹر میں سہ روزہ پاکستان لٹریچر فیسٹیول (PLF) منعقد ہوا۔ اس میلے کی باز گشت ابھی تک لاہور اور پاکستان کی ادبی و سیاسی فضاؤں میں سنائی دے رہی ہے۔
جناب فواد حسن فواد (سابق وزیر اعظم جناب نواز شریف کے مشہور پرنسپل سیکریٹری جنھیں سابق وزیر اعظم جناب عمران خان نے محض بے بنیاد الزامات پر کئی ماہ تک نیب کی جیل میں قید کیے رکھا) کا PLF میں پڑھا گیا انقلابی کلام ابھی تک دلوں کی دھڑکن تیز کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
پاکستان لٹریچر فیسٹیول کی تازہ سہ روزہ مجالس میں ہر جانب فواد حسن فواد کی شاعری کی کتاب (کنجِ قفس) کی دھوم سنائی دیتی رہی۔ واقعہ یہ ہے کہ تازہ PLF کے انعقاد اور اِسے کامیاب بنانے میں نگران وزیر اعلیٰ پنجاب جناب محسن نقوی اور نگران صوبائی وزیر اطلاعات و ثقافت جناب عامر میر نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
لاہور ہی میں ساتواں فیض فیسٹیول (17تا19فروری) بھی منایا گیا ہے۔ ''چلو پھر سے مسکرائیں'' کے زیرعنوان منعقد ہونے والے فیض فیسٹیول نے قلب و ذہن میں اُمیدوں اور خوشیوں کی نئی شمعیں فروزاں کی ہیں۔
بھارتی نغمہ نگار، شاعر اور فلمساز جاوید اختر کو لاہور کے ادبی فیض میلے میں احترام واکرام سے مدعو کرنا ایک اچھا اور مستحسن اقدام تھا لیکن جاوید اختر صاحب کو پاکستان اور پاکستانیوں کی دی گئی عزت راس نہیں آئی۔ موصوف نے لاہور میں الحمرا آرٹ کونسل کی ایک ادبی مجلس میں پاکستان کے خلاف بیان دے کر ہم سب کے دل دکھائے ہیں۔
موصوف نے بھارتی وزیر اعظم، نریندر مودی، کے نقش ِقدم پر چلتے ہوئے جس محفل میں پاکستان کی مخالفت میں ہرزہ سرائی کی، اس محفل ہی میں جاوید اختر کی خوشی اور خوشنودی کی خاطر پاکستان کے ممتاز گلوکار، علی ظفر، نے جاوید اختر ہی کے لکھے گئے گیت گائے۔
یہ افسوس کی بات ہے ۔ جاوید اختر کی اس مذموم حرکت پر بجا طور پر اکثریتی پاکستانیوں نے ترنت ردِ عمل دے کر زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیاہے۔ جاوید اختر کے پاکستان مخالف بیان نے پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ کیا ہے ۔
گزشتہ برسوں کی پاک، بھارت کشیدگی کا ایک منفی نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ دونوں ممالک میں کتابوں کا لین دین بھی نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ کتاب دوست کمیونٹی کے لیے یہ بڑا خسارہ ہے۔
ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ پاکستانی پبلشرز بھارتی کتاب میلوں میں اپنی کتابیں نمائش کرنے جایا کرتے تھے۔ نئے پابند حالات میں ہم بھارت میں شایع ہونے والی بہت سی اچھی کتابیں پڑھنے سے محروم ہو رہے ہیں۔
اِسی طرح کتاب دوست بھارتی بھی پاکستانی تصنیفات کے دیدار سے دُور ہیں۔ پاکستان میں ڈالر کی کمیابی کے کارن امریکا اور مغربی ممالک میں چھپنے والی شاندار کتابیں بھی امپورٹ ہو کر پاکستان نہیں آرہیں۔ مہنگے اور نایاب ڈالروں نے ہر پاکستانی کو اپنی اپنی سطح پر متاثر کر رکھا ہے۔
ایسے ماحول میں اب ایکسپو سینٹر میں منعقد ہونے والا لاہور انٹر نیشنل بک فیئر (LIBF) ہم سب کے لیے بیش بہا نعمت ہے۔ یہ کتاب میلہ یکم تا پانچ مارچ 2023جاری رہے گا۔
پاکستان میں جاری معاشی و سیاسی بدحالی میں کتاب اور صاحبِ کتاب کی نشو و نما اور بڑھوتری بڑی حد تک رک سی گئی ہے لیکن اِن حوصلہ شکن حالات کے باوجود کتاب دوست کمیونٹی کتاب و ادبی میلے سجا کر کتاب و ادب سے عشق کا ثبوت فراہم کر رہی ہیں۔ کتابوں کی نمائش کرنے والے یہ لوگ ستائش اور شاباش کے مستحق ہیں۔
مجھے فرینکفرٹ ( جرمنی) میں منعقد ہونے والے سالانہ کتاب میلہ بھی دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ ہم اپنے معاشی و سماجی حالات کے موجب فرینکفرٹ ایسا بے نظیر اور عالمی شہرت یافتہ کتاب میلہ تو نہیں سجا سکتے لیکن اپنے مخصوص و محدود حالات میں ''لاہور انٹرنیشنل بک فئیر'' ہی ہمارے لیے کافی ہے۔
اِس شاندار اور پرشکوہ کتاب میلہ ( LIBF) میں ہمارے پرانے ادیب، صحافی اور شاعر دوست، جناب شیراز راج، بھی شریک ہو رہے ہیں۔ شیراز راج صاحب پاکستان کے کئی روزنامہ اخبارات اور انگریزی و اُردو جرائد سے وابستہ رہے۔ وہ خاموش طبع، امن وتنہائی پسند اور صلح جو لکھاری ہیں۔ بہت شاندار اور انقلابی نظم لکھتے ہیں۔
انگریزی، اُردو اور پنجابی زبانوں میں بے تکان لکھتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل وطن عزیز کے جملہ حالات سے مایوس ہو کر مغربی یورپ کے ایک ملک ہجرت کر گئے تھے۔
اب بھی وہیں رہتے ہیں۔ ترک وطن کے باوصف شیراز راج ادب اور ادیبوں سے کنارہ کش نہ رہ سکے۔ اِس بار پاکستان آئے ہیں تو اپنی نئی کتاب بھی ساتھ لائے ہیں۔ یہ کتاب شاعری کا ایک نیا اور انمول ارمغان ہے۔ 2023کا ایک خوبصورت ادبی تحفہ۔
جس مغربی ملک میں شیراز راج ہجرت کر گئے تھے، ہمارے دوسرے دوست جناب مجاہد حسین کے سینگ بھی وہیں سمائے تھے۔ مجاہد حسین نے صحافت اور تصنیف و تالیف میں نام پیدا کرنے کے لیے بڑے جتن کیے ہیں۔ سخت محنت و مشقت کے کئی جان لیوا مراحل سے گزرے ہیں۔
پاکستان کے کئی ماہنامہ اور ہفت روزہ جرائد سے بھی وابستہ رہے اور روزنامہ اخبارات سے بھی۔ پرنٹ میڈیا کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا کی دنیا سے بھی آشنائی حاصل کی۔ ریڈیو پاکستان (لاہور) میں بھی کئی ادبی و ثقافتی پروگراموں میں شریک ہوتے رہے۔
گویا میڈیا کے ہر دشت کی سیاحی کر چکے ہیں۔ اِن متنوع تجربات کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ درجن بھر کتابوں کے مصنف بن چکے ہیں۔
یہ کتابیں سیاست پر بھی مبنی ہیں اور تحقیقی صحافت پر بھی۔ لاہور کے ایکسپو سینٹر میں منعقد ہونے والے کتاب میلہ (LIBF) میں مجاہد حسین بھی اپنی نئی نویلی اور ضخیم کتاب (دیوالیہ پاکستان؟... ریاست، سیاست اور سماج کے دیوالیہ پن کی داستان، نگارشات پبلشرز) کے ساتھ شریک ہو رہے ہیں۔
اُن کی اِس تازہ ترین کتاب میں سیالکوٹ سے لاہور اور لاہور سے بیلجئم تک کی عذابناک ہجرتوں کی کتھا بھی ملتی ہے اور وطن عزیز کی تازہ ترین صحافت پر تازہ ترین تجزیہ وتبصرہ بھی۔ جناب عمران خان کی پونے چار سالہ حکومت پر کسی صحافی کی طرف سے لکھی گئی یہ تازہ ترین تصنیف ہے۔
اِس کتاب پر معروف صحافی، دانشور اور کئی انگریزی کتابوں کے مصنف جناب خالد احمد کے طرزِ تحریر و اسلوب کی چھاپ دکھائی دیتی ہے۔
نئے کتب میلوں، نئی کتابوں اور مصنفین کی باتیں کرتے ہُوئے مجھے روزنامہ ''ایکسپریس'' کی ایک خبر بھی شدت سے یاد آ رہی ہے۔
''ایکسپریس'' کے رپورٹر، جناب ذوالفقار بیگ، نے گزشتہ روز اسلام آباد کی ڈیٹ لائن سے خبریوں دی ہے: ''مجلسِ قائمہ برائے قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن نے شاعروں اور ادیبوں کے اعزازیئے میں اضافے کی سفارش کر دی ہے۔
مجلسِ قائمہ نے معاشی حالات کی سنگینی کو تسلیم کرتے ہوئے تجویز کیا کہ سرِ دست ماہانہ وظیفہ 13ہزار روپے سے بڑھا کر30ہزار روپے کر دیا جائے۔'' یہ خبر خوش کن بھی ہے اور ادب نواز بھی۔ مہنگائی اور گرانی کے اِس دَور میں تیرہ ہزار روپے ماہانہ تو کچھ بھی نہیں۔ تیس ہزار روپے تک اضافہ مناسب ہی ہے۔
ہمارے جو ادیب اور شعر امالی ومعاشی بدحالیوں اور تنگدستیوں کا شکار ہیں، حکومت کو اُن کے ماہانہ اعزازیئے میں فوری اضافہ کرنا چاہیے۔
ادیب اور شاعر خوشحال ہوں گے تو ملک اور قوم کی بہتر ادبی خدمت انجام دے سکیں گے۔ یاد رکھا جائے کہ جس ملک کاادب نحیف اور بے جان ہو کر دَم توڑ دیتا ہے، اُس ملک کی رُوح بھی مر جاتی ہے۔