جیل بھرو تحریک ایک جائزہ
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جیل بھرو تحریک سیاسی میدان میں ایک مذاق بن گئی ہے
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جیل بھرو تحریک سیاسی میدان میں ایک مذاق بن گئی ہے۔
تحریک انصاف کے اکثر رہنما گرفتاریاں دینے کے لیے تیار نظر نہیں آرہے۔ جنھوں نے پہلے دن جوش میں گرفتاری دے دی ہے وہ بھی رہائی کے چکر میں ہیں۔
ان کے لواحقین بھی رہائی کے لیے عدالتوں میں پہنچ گئے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جیل بھرو تحریک نہ تو اپنے سیاسی مقاصد حاصل کر سکی ہے اور نہ ہی اس سے کوئی سیاسی اہداف حاصل ہو سکے۔
عمران خان نے جیل بھرو تحریک اس اعلان کے ساتھ شروع کی تھی کہ ان کے حامی اتنی بڑی تعداد میں گرفتاریاں دیں گے کہ ملک کی جیلیں بھر جائیں گی۔
انھوں نے اعلان کیا تھا اتنی زیادہ گرفتاریاں ہونگی کہ حکومت بوکھلا جائے گی۔ ان کے اعلان کے بعد یہ امید تھی کہ ہزاروں نہیں تو ہر شہر سے سیکڑوں لوگ گرفتاریاں دینے کے لیے ضرور سامنے آجائیں گے۔
عمران خان نے ملک بھر میں جیل بھرو تحریک کے لیے رجسٹریشن شروع کی۔ شروع میں تو تحریک انصاف کی جانب سے یہی تاثر دیا گیا کہ ہزاروں لوگ گرفتاریاں دینے کے لیے رجسٹریشن کروا رہے ہیں۔
ایسے اعداد و شمار بھی جاری کیے گئے کہ لوگ جوق در جوق گرفتاری دینے کے لیے نام لکھوا رہے ہیں۔ اس لیے جیلیں بھر جائیں گی بلکہ حکومت کے لیے یہ مسئلہ بھی پیدا ہو جائے گا کہ اتنے قیدیوں کو کہاں رکھا جائے۔
تحریک انصاف نے میڈیا میں ایک ماحول بنا دیا کہ جیلیںبھر جائیں گی۔ دوسری طرف یہ سوال پیدا ہونے لگ گیا کہ جب لوگ گرفتاری دیں گے تو انھیں کس جرم کے تحت گرفتار کیا جائے گا۔ گرفتاری کے لیے قانون توڑنا لازمی ہے۔
کوئی جرم تو لازمی ہے۔ اس لیے یہ تاثر بننے لگا کہ لوگ گرفتاری دیں گے اور حکومت انھیں گرفتار نہیں کرے گی۔ ایسالگنے لگا کہ جیل بھرو تحریک ایک ڈراما بن جائے گی کہ لوگ گرفتاری دیں گے اور انھیں گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ اس طرح عمران خان کی جیل بھرو تحریک کامیاب ہو جائے گی۔
لیکن پھر حکومت نے حکمت عملی تبدیل کر لی۔ کہیں نہ کہیں حکومت کو اندازہ ہوگیا کہ زیادہ لوگ گرفتاری دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس لیے حکومت نے جیل بھرو تحریک کے شروع ہونے سے ایک دن قبل دفعہ 144لاگو کر دی ۔
جس سے یہ ظاہر ہو گیا کہ جب لوگ اکٹھے ہونگے تو انھیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس تحریک کا یہی ٹرننگ پوائنٹ تھا۔
اگر یہی ماحول رہتا کہ گرفتاریاں نہیں ہونگی تو میری رائے میں لوگ پکنک کے لیے آجاتے۔ لیکن جب یہ واضح ہو گیا کہ گرفتاری تو ہوگی لوگ ڈر گئے وہی لوگ آئے جنھوں نے گرفتاری دینا ہوگی۔ اسی لیے کھیل بدل گیا۔
پہلے دن تو لاہور سے صرف 81لوگوں نے گرفتاری دی۔ ان میں شاہ محمود قریشی، اسد عمر، عمر سرفراز چیمہ شامل تھے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے اکثر ارکان اسمبلی نے گرفتاری نہیں دی۔
میاں محمود الرشید، میاں اسلم اقبال، حماد اظہر سمیت کئی سابق وزرا اور دیگر اہم رہنماؤں نے گرفتاری نہیں دی۔ اس لیے پہلے دن ہی اس تحریک کے غبارے میں سے ہوا نکل گئی۔ بعد ازاں حکومت نے جن رہنماؤں کو گرفتار کیا انھیں پنجاب بھر کی مختلف جیلوں میں منتقل کر دیا۔ وی آئی پی سہولیات دینے سے انکار کر دیا گیا۔ گھر سے کھانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔ جس سے بعد میں گرفتاری دینے والوں کو پتہ لگ گیا کہ سچی مچی کی اصلی جیل ہوگی۔
کوئی رعایت نہیں ہوگی۔ جس نے بعد میں گرفتاری دینے والوں کو مزید بریک لگا دی۔ اسی لیے ہم نے دیکھا کہ لاہور کے بعد باقی شہروں میں گرفتاریوں کی تعداد کم ہو گئی اور مرکزی رہنماؤں نے گرفتاریاں دینے سے اجتناب کرنا شروع کر دیا۔
پنڈی میں شیخ رشید نے گرفتاری نہیں دی۔ ملتان میں عامر ڈوگر اور دیگر نے گرفتاری نہیں دی۔ عمران خان نے بھی صورتحال کا اندازہ لگا لیا۔ اس لیے انھوں نے اعلان کر دیا کہ وہ ٹکٹوں کا اعلان کرنے لگے ہیں۔
ساتھ ہی یہ پیغام بھی دیا کہ جس نے گرفتاری نہیں دی وہ ٹکٹ نہ مانگے۔ اگر تحریک انصاف کا ٹکٹ لینا ہے تو ساتھیوں سمیت جیل بھرو تحریک میں گرفتاری دینا ہوگی۔
ایم پی اے کے ٹکٹ کے امیدوار کے لیے لازمی کیا گیا ہے کہ و ہ خود اور پچیس لوگوں کے ساتھ گرفتاری دے۔
عمران خان کا موقف ہے کہ جس کے پاس ساتھ گرفتاری دینے کے لیے پچیس لوگ نہیںہیں وہ ٹکٹ کا کیسے حقدار ہو سکتا ہے، لیکن یہ ہتھکنڈا بھی کوئی خاص کامیاب نہیں ہوا۔ دیکھا جائے تو ٹکٹ لینے کے جتنے خواہش مند ہیں اتنے لوگوں نے گرفتاری نہیں دی۔
پنجاب کی صورتحال تو سامنے ہے لیکن کے پی کی صورتحال پنجاب سے بری نکلی ہے۔ وزیر اعلیٰ کے پی کے گھر کے باہر اعلان کروائے جاتے رہے کہ گرفتاری دیں گے۔ لیکن انھوں نے گرفتاری نہیں دی۔
حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ انھیں خود ہی گرفتاری دے دینی چاہیے تھی، وہ کے پی میں کپتان تھے۔ اسی طرح باقی وزرا بھی گرفتاری دینے کے لیے تیار نظر نہیں آئے۔
سندھ میں بھی یہی صورتحال سامنے آئی ہے۔ وہاں بھی کوئی خاص گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے دیکھا جائے تو ملک بھر میں کہیں بھی اس جیل بھرو تحریک نے کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ کسی بھی شہر میں گرفتاریوں میں کوئی جوش و خروش نظر نہیں آیا۔ ایسے میں یہ سوال تو ہو گا کہ اگر لیڈر شپ تیار نہیں تھی تو عام ورکر کیوں گرفتاریاں دیتا پھرے؟ اسی لیے 42 گھنٹوں میں ہی یہ تحریک بری طرح فیل ہوگئی۔
اب صورتحال یہ بن گئی ہے کہ عمران خان کی جیل بھرو تحریک'' جیل سے نکلو'' تحریک میں تبدیل ہو گئی ہے۔ جنھوں نے گرفتاری دے بھی دی تھی وہ بھی عدالت سے رہائی مانگ رہے ہیں۔ حالانکہ حکومت انھیں جیل میں رکھنا چاہتی ہے۔
ایسے میں یہ سوال بھی سامنے آیا ہے کہ اگرعمران خان خود گرفتاری نہیں دے رہے تو باقی لوگ کیوں گرفتاری دیں۔آپ خود ضمانت لیں اور باقی سب کو جیل جانے کا کہیں یہ کیسے ممکن ہے۔
اگر عمران خان خود گرفتاری دینے کے لیے تیار ہو جاتے تو شاید نتائج اس سے بہتر ہوتے۔ جیل بھرو تحریک نے ثابت کیا ہے کہ لوگوں میں شعور آگیا ہے کہ اگر لیڈر گرفتاری دینے کے لیے تیار نہیں تو عام کارکن یا بی کلا س لیڈر شپ کیوں دے۔
عمران خان آہستہ آہستہ سارے کارڈ کھیل چکے ہیں۔ مارچ کر چکے ہیں۔ اسلام آباد پر چڑھائی کر چکے ہیں۔ استعفٰی دے کر دیکھ چکے ہیں۔
اسمبلیاں توڑ چکے ہیں۔ جیل بھرو تحریک بھی دیکھ لی۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ اب کیا کریں گے۔ ان کے پاس سیاسی کارڈ ختم ہو گئے ہیں۔ وہ آہستہ آہستہ بند گلی میں پہنچ گئے ہیں۔
اب کیا کریں۔ کیونکہ اگر یہ سب کچھ عام انتخابات کے حصول کے لیے کیا گیا تھا تو ان کا ابھی کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ اس لیے وزارت عظمیٰ سے اترنے کے بعد سے عمران خان نے اب تک جتنے بھی سیاسی کارڈ کھیلے ہیں سب ناکام ہو گئے ہیں۔
جیل بھرو تحریک نے ناکامی کے سب ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ اس لیے کہیں نہ کہیں عمران خان کو اب سوچنا ہوگا کہ انھیں اپنا انداز سیاست بدلنا چاہیے۔ یہ انداز اب نہیں چلے گا۔ کیونکہ اس انداز کے لیے ایک آشیر باد کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو نہیں ہے، یہی ناکامی کی بڑی وجہ ہے۔