جیل بھرو تحریک ملک کے لیے مہنگا سودا

یقیناً اس مہم کے اثرات انتخابات کی تاریخ کے مقدمہ میں سپریم کورٹ پر بھی پڑ سکتے ہیں


Dr Tauseef Ahmed Khan March 01, 2023
[email protected]

عمران خان نے جیل بھرو تحریک کا شوق پورا کر لیا۔ سب سے پہلے لاہور میں شاہ محمود قریشی، اسد عمر، اعظم سواتی و دیگر چند رہنما جیل وین میں سوار ہوئے۔

ان رہنماؤں کو پنجاب کی مختلف جیلوں میں منتقل کیا گیا۔ اب شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے زین قریشی نے اپنے والد کو عدالت میں پیش کرنے کی استدعا کردی ہے۔ تحریک انصاف کے وکلاء نے باقی رہنماؤں کی رہائی کے لیے قانونی چارہ جوئی شروع کردی۔ ملتان اور پشاور میں کوئی گرفتاری دینے نہیں آیا۔ اعظم سواتی نے یوٹرن لیا۔

ان کا نیا مؤقف ہے کہ وہ گرفتاری دینے نہیں آئے تھے۔ انھوں نے بے بسی سے کہا کہ اس دفعہ تو انھوں نے کوئی ٹویٹ بھی نہیں کیا تھا۔

پنجاب حکومت ان رہنماؤں کو حراست میں نہ لیتی تو یہ تماشا فوراً منطقی انجام کو پہنچتا۔ تحریک انصاف کے کارکنوں نے اس موقع پر خوب سماں باندھا۔ یہ لوگ ایک ٹرک پر علامتی جیل بھی لے آئے تھے۔

ایک رہنما نے اپنا غصہ پولیس وین پر لاتیں مار کر اتارا۔ دوسرے دن خیبر پختون خوا سے گرفتاریاں دی جانی تھیں مگر پولیس والے ان شہروں میں لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کرتے رہے کہ گرفتاریاں دینے والے رہنما جیل وین میں سوار ہوجائیں مگر پرویز خٹک، محمود خان اور شاہ فرمان سمیت کوئی رہنما اپنے قائد کے فرمان کی تعمیل کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھا۔

مہاتما گاندھی نے ہندوستان کی آزادی کے لیے احتجاج کے مختلف طریقے استعمال کیے تھے، ان میں بھوک ہڑتال، انگریزی مال کا بائیکاٹ اور رضاکارانہ گرفتاریاں بھی شامل تھیں۔

کانگریس نے جب ہندوستان چھوڑدو تحریک شروع کی تو ہزاروں افراد گرفتار ہوئے۔ گرفتار ہونے والوں میں نہرو خاندان کی خواتین بھی شامل تھیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے بھی پنجاب کے پریمیئر ملک خضر حیات ٹوانہ کے خلاف اسی طرح کی تحریک شروع کی تھی مگر تحریک کے دوران ہی ٹوانہ بیرسٹر جناح سے مل کر مسلم لیگ میں شامل ہوگئے تھے۔

انگریز انتظامیہ نے رضاکارانہ گرفتاریاں دینے والے کارکنوں اور شہریوں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا تھا۔

اس وقت ہندوستان میں جیلوں کی تعداد کم تھی ، قیدیوں سے جبری مشقت لی جاتی تھی۔ حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ جو لوگ رضاکارانہ گرفتاریاں دیں گے، ان کے قریبی رشتہ دار سرکاری ملازمتوں سے محروم ہو جائیں گے، ان سختیوں کے باوجود یہ تحریکیں زور و شور سے چلیں اور ہندوستان کی آزادی کا نعرہ مقبول ہوا۔

پاکستان بننے کے بعد بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں، ٹریڈ یونینز اور کسان تنظیموں نے ایسی ہی تحریکیں چلائی تھیں۔ 1977 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف حزب اختلاف کی نو سیاسی جماعتوں کے پاکستان قومی اتحاد نے گرفتاریوں کی مہم شروع کی تھی۔

پی این اے کے رہنماؤں نے کراچی، لاہور اور ملتان میں گرفتاریاں دیں تو پولیس اور ہجوم میں تصادم ہوا۔ تین شہروں میں کرفیو لگایا گیا، 5 جولائی 1977کو جنرل ضیاء الحق نے پیپلزپارٹی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور مارشل لگا دیا تھا۔

بلوچستان کے علاقہ پٹ فیڈر میں بلوچ سرداروں نے کسانوں کو ان کی آبائی زمینوں سے بے دخل کیا، کمیونسٹ پارٹی کی ذیلی تنظیم طلبا مزدور کسان رابطہ کمیٹی نے پٹ فیڈر میں احتجاجی تحریک شروع کی۔ طلبا مزدور رابطہ کمیٹی کے کارکنوں رمضان میمن ، غلام اکبر، آصفہ رضوی، حمید ہ نذیر عباسی اور عمر دین کو احتجاجی تحریک میں حصہ لینے پر ایک سال جیل میں قید رکھا گیا۔

جنرل ضیاء الحق نے حکومت مخالف اخبارات پر پابندی لگادی اور کچھ رسائل پر پری سنسر شپ عائد کر دی۔

صحافیوں کی تنظیم پی ایف یو جے نے منہاج برنا اور نثار عثمانی کی قیادت میں تحریک منظم کی۔ یہ تحریک جو تین حصوں میں تھی، چھ ماہ تک جاری رہی۔ پہلے یہ تحریک روزنامہ مساوات پر بندش کے خاتمہ کے لیے کراچی میں تھی۔

منہاج برنا کی قیادت میں صحافیوں نے کراچی پریس کلب پر بھوک ہڑتال کی۔پولیس پریس کلب میں داخل ہوئی اور وہاں موجود تمام افراد کو گرفتار کر لیا ، روزنامہ مساوات لاہور پر پابندی کے خلاف یہ تحریک لاہور منتقل ہوئی۔صحافیوں کا دستہ اخبارکے دفتر کے سامنے بھوک ہڑتال کے لیے جمع ہوتا اور گرفتار یاں دیتا تھا۔

گرفتار صحافیوں ناصر زیدی ، اقبال جعفری، مسعود اﷲ خان اور نعیم خاور ہاشمی کو فوجی عدالت کے حکم پر لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں کوڑے مارے گئے۔

حکومت کو مجبوراً روزنامہ مساوات پر سے پابندی ختم کرنا پڑی ، مگر جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے اس تحریک میں شامل ان صحافیوں کو جن کا تعلق نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات سے تھا برطرف کیا۔

کراچی کے ہفت روزہ الفتح ، معیار اور روزنامہ مساوات پر پابندی لگادی گئی تو پھر یہ تحریک کراچی منتقل ہوئی۔ صحافیوں کے ساتھ بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں، ہاری کمیٹی، مزدور تنظیموں کے کارکنوں کے علاوہ خواتین نے بھی گرفتاریاں دی۔ منہاج برنا نے تا دمِ مرگ بھوک ہڑتال شروع کی جو سندھ کی جیلوں تک پھیل گئی۔

حکومت کو پی ایف یو جے سے مذاکرات کرنے پڑے۔ ایم آر ڈی نے 1973کے آئین کی بحالی کے لیے تحریک چلائی۔ پولیس نے اندرون سندھ مظاہرین پر اندھا دھند گولیاں چلائیں۔ یہ تحریک تقریباً چھ ماہ سے زائد عرصہ ملک کے مختلف حصوں میں جاری رہی۔ پورے ملک اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہزاروں سیاسی کارکن جیل گئے۔

ان میں سے بہت سے کارکنوں کو فوجی عدالتوں کے حکم پر کوڑے بھی مارے گئے۔ جنرل ضیاء الحق اس تحریک کے نتیجہ میں دباؤ کا شکار ہوئے اور 1985میں غیر جماعتی انتخابات کرانے پر مجبور ہوئے۔

90 کی دہائی میں پیپلز پارٹی کی تیسری حکومت نے اقتدار سنبھالا تو ایم کیو ایم نے اپنے کنوینر آفتاب شیخ کی قیادت میں گرفتاریوں کی تحریک شروع کی۔

اس تحریک کے رہنما جب جلوس کی شکل میں گرفتاریاں دینے آئے تو پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے پھینکے اور متحارب گروہوں نے ایک دوسرے پر خوفناک فائرنگ کی مگر تحریک انصاف کی خوش قسمتی ہے کہ انھوں نے ایسے وقت جیل بھرو تحریک شروع کی ہے جب پولیس کا روایتی جبر ماند پڑگیا ہے۔

گزشتہ پچھتر برسوں کی تاریخ شاہد ہے کہ پولیس نے ہمیشہ پرامن احتجاج کرنے والوں کے ساتھ بیہمانہ سلوک کیا۔ جب بھی اس طرح کا ہجوم جمع ہوتاتو پولیس تشدد کے بدترین طریقے استعمال کرتی تھی ، جو سڑک پر نظر آتا تھا، اسے گرفتار کرلیا جاتا تھا ، پھر پولیس مظاہروں کی قیادت کرنے والوں کے گھروں پر چھاپے مارتی تھی ۔

پولیس والے ان گاڑیوں کو ضبط کرتے تھے جن میں بیٹھ کر مظاہرین آتے تھے۔ حکومت اس احتجاجی مہم کے لیے سرمایہ فراہم کرنے والوں کا ناطقہ بند کردیتی تھی۔

جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں گرفتاری دینے والے کارکنوں کی تصویر بنانے پر کئی دفعہ فوٹوگرافرز بھی گرفتار کیے گئے ، مگر اب دور تبدیل ہوچکا ہے۔

اس موقع پر جمع ہونے والے ہجوم پر لاٹھی چارج کرنے کی اجازت نہیں ہے نہ ان افراد کو لانے والی گاڑیوں کے مالکان کے خلاف کوئی کارروائی ہورہی ہے اور نہ ہی پولیس اس تحریک کے اخراجات برداشت کرنے والوں کو تلاش کررہی ہے۔ تحریک انصاف کی اس مہم کے لیے سرمایہ فراہم کرنے والے بڑے بزنس ٹائیکون چین کی زندگی گزار رہے ہیں۔

عمران خان کا بظاہر مقصد تو الیکشن کمیشن کو فوری طور پر صوبہ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے پر مجبور کرنا ہے مگر اصل مقصد رائے عامہ کو ہموار رکھنے کے لیے مسلسل ٹی وی اسکرینز پر جگہ بنائے رکھنا ہے جس سے پورے ملک میں تحریک انصاف سے ہمدردی کا بیانیہ تقویت پاتا ہے۔

یقیناً اس مہم کے اثرات انتخابات کی تاریخ کے مقدمہ میں سپریم کورٹ پر بھی پڑ سکتے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر عمران خان کا تشخص ایک جمہوری فرد کے طور پر مستحکم ہوگا مگر ملک کے اقتصادی بحران اور امن و امان کی صورتحال کی بناء پر یہ تحریک ملک کے لیے بڑا مہنگا سودا ثابت ہورہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں