آئی ایم ایف کی مزید کڑی شرائط

تلخ معاشی حقائق کو شیریں معاشی صورتحال سے تبدیل کرنے کے لیے جاری کوششیں کامیابی کے آس پاس منڈلا رہی ہیں


Editorial March 02, 2023
تلخ معاشی حقائق کو شیریں معاشی صورتحال سے تبدیل کرنے کے لیے جاری کوششیں کامیابی کے آس پاس منڈلا رہی ہیں۔ فوٹو: فائل

رواں ہفتے بھی آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے کا امکان کم ہے ، کیونکہ حکومت پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ایکسچینج ریٹ ، شرح سود ، بیرونی فنانسنگ کے اہداف اور بجلی بلوں پر 3.82 روپے فی یونٹ ڈیبٹ سروسنگ سرچارج عائد کرنے کے معاملات پر اختلافات برقرار ہیں ۔

تلخ معاشی حقائق کو شیریں معاشی صورتحال سے تبدیل کرنے کے لیے جاری کوششیں کامیابی کے آس پاس منڈلا رہی ہیں۔ لامحالہ موجودہ تکلیف دہ صورتحال میں پاکستان معاشی استحکام کا خواہاں ہے اور آئی ایم ایف سے کیے گئے اپنے وعدوں پر قائم بھی ہے جسے سابقہ حکومت عملی طور پر ایفا کرنے میں ناکام رہی تھی۔

پہلی بات تو سچائی تسلیم کرنی پڑے گی کہ دنیا میں ہر شے کی کوئی نہ کوئی قیمت ہوتی ہے، کوئی کام کرنے کے لیے اس کی ویلیو کے مطابق قیمت تو ادا کرنا پڑتی ہے۔

آئی ایم ایف جو شرائط عائد کررہا ہے، اس کا مقصد اپنے ڈونرز کے مالی مفادات کا تحفظ کرنا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اپنے رکن ممالک کی مالی مشکلات میں مدد بھی کرنا ہے۔پاکستان کے ساتھ آئی ایم ایف کا بھی یہی فارمولہ ہے،وہ پاکستان کی مدد کے لیے تیار ہے لیکن وصولی بھی یقینی بنانا چاہتا ہے۔

ماہرِ اقتصادیات تو خبردار کررہے ہیں کہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط ماننے کے بعد موجودہ افراطِ زر کی شرح جو اس وقت 25 فیصد پر ہے وہ 35 فیصد تک پہنچ سکتی ہے اور ڈالر 300 کی حد بھی پار کرلے گا۔

بجلی اور گیس اگر عوام کے لیے دستیاب ہوگی تو اس کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہوگا۔ پٹرول سمیت تمام اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا ۔

درآمدات بھی مزید مہنگی ہوجائیں گی جن کے بغیر ہماری اشرافیہ ادھوری ہے۔ گزشتہ 6 ماہ سے ڈالرز کی عدم دستیابی کے باعث ہم معاشی بحران کا سامنا کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود 2,200 لگژری گاڑیاں پاکستان میں درآمد کی گئی ہیں جب کہ مارکیٹوں میں ادویات، دیگر ضروریاتِ زندگی اور خام مال دستیاب نہیں ہے۔

اگر پاکستان کے کاروباری گروپس اورسیکڑوںہزاروں ایکڑ زرعی اراضی کے مالکان اس نازک موقع پر ایک بار کل ملا کر چھ سات ارب ڈالر بطور عطیہ دے دیں تو پاکستان موجودہ بحران سے نکل آئے گا، حکومت پر بھی دباؤ ہو گا کہ جب امیر طبقہ ملک کے لیے قربانی دے رہا ہے تواسے بھی گورننس کا معیار بلند کرنا ہوگا، نوکرشاہی بھی تحریک پا کر اپنی مراعات کم کرنے پر راضی ہوجائے گی جب کہ عوام کے مصائب میں کمی آئے گی۔

کورونا وائرس کی وباء کے دوران جرمنی کے کاروباری گروپس نے ایسا ہی کیا تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ وہ ملکی بہبود کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیں گے لیکن عملی طور سے اشرافیہ اور دولت مند طبقہ سے کوئی قربانی لینے کا فیصلہ نہیں کیا جاتا۔

عوام کی ہڈیوں میں سے گودا تک نکال کر آئی ایم ایف کے قدموں میں رکھا گیا ہے۔ ملک کی معیشت اور انفرا اسٹرکچر کا رہا سہا بھانڈا سیلاب نے پھوڑ دیا ہے جس میں کم از کم تین کروڑ تیس لاکھ افراد لاکھ متاثر ہو چکے ہیں اور لاکھوں بے گھر ہیں۔

ان متاثرین کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے دن بھوک اور پیاس میں کاٹ رہی ہے اور بہت سے ان حالات کا مقابلہ نہ کرسکنے کے باعث جان کی بازی ہار رہے ہیں، لیکن اس بد ترین آفت میں بھی کسی کا بجلی کا بِل معاف نہیں کیا گیا اور نہ ہی دیگر ٹیکسوں کو ختم کیا گیا ہے ، بلکہ پٹرول اور دیگر اجناس کی قیمتوں میں بڑا اضافہ ہو چکا ہے۔ بجلی کے بِلوں نے اس ملک کے کروڑوں صارفین کی چیخیں نکلوا دی ہیں جس میں حکمرانوں نے بے تحاشہ اضافہ کیا ہے۔

آئی ایم ایف کے احکامات پر ہر قسم کے ٹیکسوں اور مہنگائی کو بالواسطہ انداز میں ایک دفعہ پھر بجلی کے بلوں کے ذریعے عوام پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ لاکھوں افراد اب بجلی کے بغیر زندگی گزارنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں کیونکہ بجلی جیسی بنیادی ضرورت بھی اب ان کے لیے ایک عیاشی بن چکی ہے۔

مہنگائی کے اثرات اشیائے خورو نوش سمیت ہر شے پر مرتب ہو رہے ہیں۔ پٹرول، گیس اور دیگر بنیادی ضروریات پر بھی ٹیکسوں، ہوشربا منافع اور مصنوعی قلت پیدا کر کے دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے ۔ اشرافیہ کی بدعنوانیوں اور مراعات کا بوجھ ایک دفعہ پھر عوام پر لاد دیا گیا ہے۔ دو طبقات کے درمیان خلیج بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ اگر آج یہ ملک اس نہج تک پہنچا ہے۔

جہاں تعمیرات انتہائی ناقص اور جان لیوا ہیں اور معیشت دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور عوام برباد ہیں تو اس کی ذمے داری سے یہ سرکاری ادارے ہر گز مبرا نہیں ہیں۔ اس حوالے سے یہ بحث انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ ان طاقتوں سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے۔

معاشی بحران سے نپٹنے کے لیے بہت سے ایسے اقدامات بھی کیے جا سکتے تھے جن سے یہ بوجھ عوام کے کندھوں پر منتقل کرنے کے بجائے سرمایہ داروں پر ڈالا جاتا۔ اس ملک کے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے اربوں روپے سالانہ کی معاشی مراعات اور ٹیکسوں کی چھوٹ فوری طور پر ختم کی جا سکتی تھی۔

مختلف قسم کے فلاحی ادارے ، تعلیمی و صحت کے نام پر بنے ٹرسٹ وغیرہ بھی درحقیقت مناپلی کی ایک جدید قسم بن چکے ہیں، سرکاری زمینیں مفت یا معمولی لیز پر مل جاتی ہیں، عام لوگوں سے چندہ اکٹھا کرنے کی کھلی اجازت ہے،حتیٰ کہ اسکولوں کے بچوں سے دس دس روپے چندہ وصول کرنے میں بھی شرمندگی محسوس نہیں کی جاتی،قربانی کی کھالیں مفت لی جاتی ہیں، یہ سلسلہ بھی بند کرنے کا وقت آگیا ہے۔

وزیروں اور مشیروں کے لیے مراعات اور پر تعیش طرز زندگی کا خاتمہ کیا جا سکتا تھا۔ ججوں، جرنیلوں اور بیورو کریٹس کی تنخواہوں، سہولتوں اور مراعات پر نظرثانی کرکے نئے ضابطے اور قوانین بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے وسائل کے مطابق سرکاری عہدیدار مالی فوائد حاصل کریں۔

آئی ایم ایف کی فیصلہ سازی پر امریکا کا ناقابل تردید اثر و رسوخ ہے اور اِس صورتحال میں اتحادی حکومت کو چاہیے کہ وہ اُن تمام ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائے جو دنیا کی اقتصادیات کنٹرول کر رہے ہیں۔ پاکستان کو کہیں سے بھی قرض نہیں مل رہا اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے بھی قانونی ذرایع سے رقومات بھیجنا کم کر رکھا ہے۔

گزشتہ چند ماہ کے دوران ترسیلات زر میں کمی کی بڑی وجہ ماہرین کی جانب سے انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی مصنوعی طور پر کم شرح کو قرار دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں کرنسی کی'بلیک مارکیٹ' اُبھر کر سامنے آئی ہے کیونکہ ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ اُسے ڈالروں کے عوض زیادہ پاکستانی روپے ملیں اور چونکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے عوض اچھی قیمت ملتی ہے۔

اِس لیے ترسیلات زر بینکوں (مالیاتی اداروں) سے اوپن مارکیٹ کو منتقل ہوگیا ہے ، وہ ترسیلات زر جن سے پاکستان کو فائدہ اُٹھانا چاہیے لیکن اُس سے ملکی و غیرملکی سرمایہ کاروں پر مبنی کرنسی مارکیٹ منافع سمیٹ رہی ہے۔افغانستان کی طالبان حکومت نے اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھایا ۔

غیر مساوی معاشرے پر آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط بھی غیر مساوی طور پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ اگرچہ ہر کسی کو ہی مہنگائی کا سامنا ہے خواہ وہ 35 فیصد ہو یا 70 فیصد، لیکن وہ طبقہ جو غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے اس کے اوپر مہنگائی کا بوجھ زیادہ ہے۔

افراط زر، کفایت شعاری، مالیاتی نظم و ضبط، تمام معاشی عوامل اور مداخلت، ملکی آبادی میں غیر مساوی طور پر تقسیم ہوتے ہیں۔ ان حالات میں اشرافیہ بھی کچھ عرصے کے لیے کفایت شعاری کرکے ' ایڈجسٹمنٹ ' کر لیں گے لیکن معیشت کو بچانے کے بعد اس سے مستفید بھی سب سے زیادہ یہی لوگ ہوں گے۔

غفلت میں پڑے ہماری معاشی منتظمین اور سیاستدانوں کو بھی اب حقیقت کا احساس کرلینا چاہیے کہ آئی ایم ایف کے سہارے کے ساتھ جو وقفہ ملے گا، اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں اپنے بل بوتے پر ترقی کرنے کا کوئی منصوبہ بنانا ہوگا۔ ہمیں اپنی درآمدات میں بھی کمی لانی ہوگی اور برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا۔

ہمیں ترقی کے نئے راستے کھولنے کی ضرورت ہے جو علم اور ٹیکنالوجی پر مبنی ہوں ، آئی ٹی برآمدات میں حالیہ اضافہ اس کی ایک اچھی مثال ہے۔

ترقی کی نئی حکمتِ عملی میں زرعی پیداوار کو بڑھانے کے لیے بھی جدید علوم اور ٹیکنالوجی کے استعمال کو ترجیح دینے کی ضرورت ہوگی۔ حرف آخر ہمیں ایک زندہ قوم کی طرح اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہوگا ، اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں