پاکستان ’’ایک ملک کی طرح چلے‘‘
ضروری ہے کہ دنیا کے تمام ممالک سے تجارتی تعلقات قائم کیے جائیں اور کسی صورت کسی ایک ملک پر انحصار نہ رہے
پاکستان امیروں سے سبسڈی واپس لے، زیادہ کمانے والے زیادہ ٹیکس دے۔ سبسڈی صرف غریبوں کو ملنی چاہیے۔ اسلام آباد کو قرض کی ری اسٹرکچرنگ کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہم پاکستان سے ایسے اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ پاکستان ایک ملک کی طرح چلے۔
آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے جرمن ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کے معاشی نظام کی ناکامیوں کو واضح کیا۔ بنیادی طور پر پاکستان کے معاشی بحران کی جڑیں سیکیورٹی اسٹیٹ سے جڑی ہوئی ہیں۔
ہندوستان کے بٹوارہ کے بعد نیا ملک وجود میں آیا تو حکمرانوں کی محدود سوچ کی بناء پر ملک کشمیر کے مسئلہ میں الجھ گیا۔ ملک کا مستقبل امریکا سے جوڑ دیا گیا۔
سوویت یونین کے خلاف بغیر کسی جواز کے فرنٹ اسٹیٹ بنا اور پھر امریکا اور یورپی ممالک سے قرضے ملنے لگے جو زیادہ تر دفاع اور ایسے منصوبوں پر خرچ ہوئے جن کی بناء پر امراء کے نئے طبقے وجود میں آنے لگے ،یوں مصنوعی معیشت اور مصنوعی معاشرہ ارتقاء پذیر ہوا۔ برسر اقتدار حکومتوں نے جاگیرداروں اور سرداروں کا تحفظ شروع کیا۔
مشرقی پاکستان میں 50 کی دہائی میں جاگیرداری ختم کردی گئی مگر باقی صوبوں میں جاگیردار سول بیوروکریسی کے ساتھ اتحاد کر کے حکومت کرتے رہے۔ ملک کو سوشل ویلفیئر اسٹیٹ کے بجائے سیکیورٹی اسٹیٹ بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے استحصال کے نتیجے میں مغربی پاکستان میں صنعتی ترقی ہوئی۔
ملک میں کرپشن فروغ پانے لگی۔ مرکزی بجٹ کا زیادہ انحصار پیرس کلب اور ورلڈ بینک سے ملنے والے قرضوں پر ہوگیا۔ حکمرانوں نے تعلیم، صحت اور ذرایع مواصلات کی ترقی پر توجہ نہ دی۔ کوریا کی جنگ کی بناء پر ملک میں صنعتی ترقی تیز ہوئی اور برآمدات بڑھنے لگیں۔
ایوب خان نے نام نہاد زرعی اصلاحات کیں مگر بیوروکریسی اور فوجی جنرلوں کو بیراجوں کی زرخیز زمینیں کوڑیوں کے بھاؤ الاٹ کرنے کی پالیسی اختیار کی۔
ایوب خان کی حکومت نے مصنوعی بونس واؤچر اسکیم کے ذریعہ برآمدات کو بڑھایا۔ مشرقی بنگال کے عوام نے اسلام آباد کے استحصال سے نجات حاصل کرنے کے لیے آزادی کا راستہ اختیار کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ اقتدار میں کچھ بنیادی اصلاحات ہوئیں مگر تعلیم ، صحت ، شہروں کی ترقی بنیادی ترجیح رہی۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک بڑی فوج اور ایٹم بم بنا کر اور تیسری دنیا کے رہبر بننا چاہتے تھے مگر بھٹو کے دور میں بھی بجٹ کا انحصار غیر ملکی قرضوں پر تھا۔
جنرل ضیاء الحق سی آئی اے کے افغان پروجیکٹ میں شراکت دار بنے۔ اس پروجیکٹ سے بعض جنرلوں اور بعض مذہبی جماعتوں کے وارے نیارے ہوگئے۔ افغان پروجیکٹ کے نقصانات کا آج بھی اس ملک کو سامنا ہے۔
جب 90کی دہائی میں سوویت یونین تحلیل ہوا اور سرد جنگ ختم ہوگئی۔ امریکا افغانستان سے چلا گیا، اس وقت میاں نواز شریف اسلام آباد میں وزیر اعظم ہاؤس کے مکین تھے۔ یہ وقت تھا جب ایک نئی دنیا جنم لے رہی تھی۔ میاں نواز شریف نے بھارت سمیت پڑوسی ممالک سے تعلقات کو معمول پر لانے کی پالیسی اختیار کی مگر ڈیپ اسٹیٹ افغانستان کو پانچواں صوبہ بنانے میں لگ گئی۔
محمد خان جونیجو نے سوویت یونین کے ساتھ جنیوا معاہدہ کیا تھا ، اگر اس پر عملدرآمد ہوتا تو افغانستان کا مسئلہ حل ہوچکا ہوتا۔ جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی بھارت سے دوستی کی پالیسی کو کارگل ایڈونچر سے سبوتاژ کیا۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ کی حکومت نے صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا سے دوستی کا معاہدہ کیا اور اپنی ایٹمی تنصیبات کو دنیا کے لیے کھول دیا۔
جنرل مشرف کے دور اقتدار میں نائن الیون واقعہ کے بعد پھر دنیا میں بڑی تبدیلیاں ہوئیں، پاکستان ایک طرف تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا اور نیٹو کا اتحادی بنا ، دوسری طرف ڈیپ اسٹیٹ نے Non-state actors کی سرپرستی ختم نہ کی جس کا م منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے کے باوجود امریکا سے فاصلے بڑھنے لگے۔ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹواس ڈیپ اسٹیٹ کی پالیسی کی بناء پر شہید ہوگئیں۔
2005میں صدر آصف زرداری نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ پاکستان اور بھارت کی سرحدوں پر صنعتی زون قائم کیے جائیں گے، لیکن کچھ مہینوں کے بعد ممبئی میں دہشت گردی ہوگئی۔
پاکستان کے خلاف اقوام متحدہ کی ایشیا اور مشرق بعید کی مالیاتی دہشت گردی کی انسداد کی ٹاسک فورس نے کارروائی شروع کی۔ پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا گیا۔ پرویز مشرف دور میں بلوچستان میں پاکستان کے واحد حامی سب سے بڑے بلوچ سردار اکبر بگٹی کے قتل سے علیحدگی پسندی کی تحریک کو تقویت ملی جس کی بناء پر چین کی مدد سے تیار ہونے والے سی پیک کے گیم چینجر بننے کا خواب پورا نہ ہوا۔
عمران خان کی حکومت نے ایف اے ٹی ایف کی شرائط پوری کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں بینکنگ کی صنعت متاثر ہوئی۔ اسٹیٹ بینک کو انعامی بانڈز کی اسکیم ختم کرنی پڑی۔ حکومت پاکستان پوسٹ کے قدیم سیونگ بینک کو ختم کرنے پر مجبور ہوئے۔
ان پابندیوں کی بناء پر غیر رسمی معیشت محدود ہوئی جس کا نقصان مجموعی طور پر معیشت کو پہنچا۔ سیاسی مفادات کے حصول کے لیے انتہا پسند مذہبی تنظیموں کی سرپرستی کی پالیسی کی بناء پر ملک کی معیشت متاثر ہوئی۔
گزشتہ 75 برسوں سے برسر اقتدار آنے والی حکومتوں نے اعلان کیا کہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے قرض نہیں لیں گے۔ عمران خان نے تو یہ تک کہہ دیا تھا کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے سے بہتر ہے کہ خودکشی کر لی جائے مگر کسی بھی حکومت کے قرضوں سے نجات کے لیے ادارہ جاتی اصلاحات پر توجہ نہ دی اور یہ وقت تھا جب عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط سخت ہوئیں تو پاکستان کی معیشت کی بنیادیں اتنی کمزور ہیں کہ ملک میں سب سے بڑا کاروبار زمینوں کی خرید و فروخت کا ہے۔
عالمی بینک نے لاہور میں کاروبار کرنے والی خواتین کے بارے میں سروے کیا تو پتہ چلا کہ 70 فیصد خواتین بیوٹی پارلرز چلاتی ہیں۔
آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر ے اس بیانیہ کے بعد سب کچھ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ عجب بدقسمتی ہے کہ ایک ایٹمی ملک کا انحصار ایک ریلوے لائن اور ایک بجلی کی لائن پر ہے۔ موجودہ حکومت نے دو ماہ قبل بجلی کی بچت کے لیے ایک نئی پالیسی تیار کی تھی مگر اس پالیسی پر عملدرآمد نہیں ہوا۔
اب وزیر اعظم نے حکومتی اخراجات میں کمی کے لیے ایک نیا فارمولہ بنایا ہے جس کا بہت زیادہ فائدہ نہیں ہوگا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بلوچستان میں عام معافی دی جائے اور وہاں کے عوام کے نمایندوں سے مذاکرات کیے جائیں، بلوچستان کو آئین میں خصوصی حیثیت دی جائے۔
ریاستی اخراجات میں پچاس فیصد کمی ضروری ہے۔ بھارت سے تعلقات معمول پر لائے جائیں ، لاکھوں ایکڑ خالی زمین مقامی بے زمین کسانوں میں تقسیم کی جائے۔ بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کا زیادہ انحصار چین سے ملنے والے قرضوں پر ہوتا ہے۔
ضروری ہے کہ دنیا کے تمام ممالک سے تجارتی تعلقات قائم کیے جائیں اور کسی صورت کسی ایک ملک پر انحصار نہ رہے۔
تمام بڑی گاڑیوں کی درآمد پر پابندی لگائی جائے اور درآمدی فہرست کو محدود کیا جائے۔ ملک کے بجٹ کا پچاس فیصد حصہ تعلیم ، صحت ، روزگار اور وسائل کی ترقی کے لیے مختص کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ٹیکس نیٹ کے نظام میں خامیاں ختم کی جائیں۔ زرعی ٹیکس کا دائرہ بڑھایا جائے اور ٹیکس کی وصولی کے نظام میں بدعنوانیوں کے خاتمہ کے لیے جدید طریقہ کار اختیار کیا جائے ، مگر سوال یہ ہے کہ ڈیپ اسٹیٹ کے خاتمہ کے بغیر یہ سب کیسے ہوگا؟