روس یوکرین جنگ کا ایک سال
روس یوکرین جنگ شروع ہونے میں امریکا اور یورپ کا بڑا ہاتھ ہے
24فروری2022 کو روس نے یوکرین میں اپنی فوجیں داخل کیں۔ اس جنگ کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔فی الحال اس جنگ کے خاتمے کے کوئی امکانات نظر نہیں آ رہے۔ہم تک اس جنگ کے حوالے سے صرف مغربی نقطہ نظر سامنے آتا ہے۔
روس ایک بڑا ملک اور قوت ہونے کے باوجود دنیائے میڈیا میں کہیں نظر نہیں آتا۔جب جنگ شروع ہوئی تو روس نے اپنی صرف ڈیڑھ لاکھ فوج کے ساتھ یوکرین کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کیا حالانکہ روسی افواج کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
یوکرین کی ریگولر مسلح افواج ساڑھے چار لاکھ سے متجاوز ہیں۔بظاہر ایسے لگتا ہے جیسے روسی افواج،یوکرینی افواج کو تر نوالہ سمجھ رہی تھیں اسی لیے روس کا ایک فوجی،یوکرین کے تین فوجیوں سے نبرد آزما ہونے جا رہا تھا۔ کیا روس نے مس کیلکولیٹ کیا۔
اگر کیا تو اس کی کیا وجہ تھی۔ حالا ت بتا رہے ہیں کہ روس نے یوکرینی مزاحمت کا صحیح اندازہ نہیں لگایا۔روس نے امریکا،یورپ اور دوسرے اتحادیوں کی طرف سے یوکرین کی حمایت کا بھی شاید مکمل احاطہ نہیں کیا اور اب وہ اس جنگ کی دلدل میں پھنس چکا ہے۔
روس ایک بہت بڑی فوجی قوت کا حامل ملک ہے۔اتنی بڑی قوت کے حامل ملک اور ماضی کی بڑی توسیع پسند قوم کے لیے میدان سے بھاگنا بھی نہیں بنتا لیکن اس جنگ کو اپنی مرضی اور اپنے مقاصد کے حصول کے مطابق ختم کرنا بھی روس کے لیے ممکن نظر نہیں آتا۔میدانِ جنگ میں روسی افواج کی کارکردگی بھی متاثر کن نہیں۔
روس یوکرین جنگ شروع ہونے میں امریکا اور یورپ کا بڑا ہاتھ ہے۔ امریکا اور یورپ نیٹو کو اس طرح توسیع دے رہے تھے کہ نیٹو افواج روسی سرحد تک پہنچ جائیں۔روس نے بار بار اس پر اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا کہ یوکرین اور دوسرے روسی پڑوسی ممالک کو نیٹو میں شامل نہ کیا جائے لیکن امریکا اور نیٹو قیادت نے روسی صدر جناب پیوٹن کے خدشات کو کوئی اہمیت نہیں دی۔
پہلے یوکرین کی حکومت تبدیل کر کے ایسا صدر لایا گیا جو وہی کرے جو مغرب چاہتا ہے اور پھر یوکرینی صدر نے نیٹو ممبر شپ کے لیے خواہش کا اظہار کر دیا۔معاملات جب بات چیت کے ذریعے حل ہوتے نظر نہ آئے تو پہلے روس نے متعدد بار وارننگ دی اور پھر اپنی افواج کے ایک چھوٹے سے حصے کو یوکرین میں داخل کر دیا۔
ایک سال کے دوران روس کو یوکرین فضاؤں پر مکمل کنٹرول رہا لیکن یوکرین کے دارالحکومت کی تمام اہم عمارتیں ابھی تک محفوظ ہیں جس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ روس یوکرین کو تباہ بھی نہیں کرنا چاہتا اور جنگ کو بہت بڑھانا نہیں چاہتا۔امریکا اور یورپ نے یوکرین کی تباہی روکنے کے بجائے جنگ کی آگ کو مزید بھڑکانے کے لیے یوکرین کو دھڑا دھڑ مالی اور فوجی امداد دی۔یوں جنگ کے آگے بند باندھنے کے بجائے بھڑکتے شعلوں کو ہوا دی گئی۔
یوکرین دنیا کا زرخیز ترین ملک ہے۔اقوامِ متحدہ کا ورلڈ فوڈ پروگرام ایسے ممالک کو جہاں غربت اور قحط سالی کی وجہ سے اناج کی شدید قلت ہو،انھیں خوراک مہیا کرنے کے لیے زیادہ اناج یوکرین سے ہی خریدتا ہے۔
جنگ کی وجہ سے یوکرین کے لیے اناج دوسرے ممالک کو روانہ کرنا آسان نہیں رہا۔پچھلے سال بھی ورلڈ فوڈ پروگرام کے سربراہ اور سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ نے روس کو اپیل کر کے یہ ممکن بنایا کہ یوکرین سے اناج دوسرے ممالک کو روانہ کیا جا سکے۔
جنگ کے ایک سال گزر جانے پر یورپی یونین نے روس پر دباؤ بڑھانے کے لیے دسویں بار مزید پابندیاں عائد کیں۔ اسی طرح امریکا جو اس سے پہلے یوکرین کو 120ارب ڈالر کی مالی امداد فراہم کر چکا ہے اس نے مزید دو ارب ڈالر کی مالی مدد دی ہے ۔
جرمنی اب تک بہت محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے تھا لیکن امریکا اور نیٹو ممبران کے اصرار پر جرمنی نے اپنے جدید ترین ٹینک یوکرین پہنچا دیے ہیں۔ یوکرین کو امریکا ،فرانس اور برطانیہ سے جدید ترن ایئر ڈیفنس سسٹم بھی مل چکے ہیں۔
یورپ،کینیڈا اور امریکا سے روس کے خلاف تربیت یافتہ شوقین لڑنے والوں کی ایک بڑی تعداد پہلے سے یوکرین میں سرگرمِ عمل ہے۔ یہ سارے وہ اقدامات ہیں جن کی وجہ سے یوکرین کو جنگ بند کرنے پر آمادہ کرنا تقریباً نا ممکن ہو چکا ہے۔
رقبے کے لحاظ سے روس دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔روس کے پاس قدرتی وسائل کی بھر مار ہے۔ تیل اور گیس کے بہت بڑے ذخائر ہیں۔اناج کی پیداوار میں بھی یہ ملک خود کفیل ہے۔جنگ شروع ہونے سے پہلے یورپ اور دیگر کئی ممالک کی توانائی ضروریات روس ہی پوری کرتا تھا۔
اتنے وسیع و عریض ملک کے 95فی صد علاقے جنگ سے بالکل بھی متاثر نہیں ہوئے۔جنگ کے ابتدائی دنوں میں روسی معیشت کو شدید دھچکا لگا اور روسی کرنسی کی قدر گھٹ گئی لیکن روسی انتظامیہ نے جلد ہی ایسے اقدامات کیے جس سے روبل کی قدر مستحکم ہو گئی۔
ملک کے اندر پیوٹن مخالفین کو بھی موقع ملا اور پورے روس خاص کر سینٹ پیٹرزبرگ میں جنگ مخالف ریلیاںنکلنے لگیں لیکن پیوٹن انتظامیہ نے خاصی سختی کی اور اب یہ مظاہرے ختم ہو گئے ہیں۔روسی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پیوٹن کے یوکرین میں فوجی ایکشن کی حمایت کرتا نظر آتا ہے۔
دراصل روسی عوام اپنے صدر پیوٹن کی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ یوکرین اور روس کے دوسرے پڑوسی ممالک کو اگر یہ اجازت دی جائے کہ وہ نیٹو کی ممبر شپ اختیار کریں تو نیٹو افواج روس کی سرحد پر آ جائیں گی۔روسی عوام جنگ تو نہیں چاہتے لیکن یہ بھی نہیں چاہتے کہ نیٹو افواج ان کے دروازے پر دستک دیں اس لیے وقتی طور پر پیوٹن اپنا بیانیہ روسی عوام کو بیچنے میں مکمل کامیاب ہیں۔
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فی الحال جنگ یوکرین میں ہو رہی ہے۔روس کی سرحدوں کے اندر اب تک جنگ نہیں پہنچی اس لیے روسی عوام ابھی تک جنگ کی ہولناکیوں سے غیر متاثر ہیں۔روس نے جب افغانستان کے اندر جنگ چھیڑی تب بھی یہ جنگ روس کی سرحدوں سے بہت دور تھی اور یہ جنگ بھی روس کی سرحدوںسے ابھی دور ہے۔
روس کے صدر جناب پیوٹن پچھلے بیس سال سے اقتدار میں ہیں۔روس میں اپوزیشن بہت کمزور ہے۔ روس یوکرین جنگ کی وجہ سے جناب پیوٹن کو جو چیلنجز تھے۔
ان پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔یوکرین کے صدر جناب زیلنسکی کو اس جنگ سے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا۔جیسے ہی یہ جنگ شروع ہوئی جناب زیلنسکی کو امریکا اور اس کے اتحادی یورپی و دیگر رہنماؤں نے سر پر بٹھا لیا۔
جناب زیلنسکی کی سیاسی زندگی اسی میں ہے کہ وہ روس سے برسرِ پیکار رہیں تاکہ دنیا ان کی تعریف میں رطب اللسان رہے۔ان کی تعریف کے ڈونگرے بجتے رہیں۔جس دن جنگ ختم ہو گئی،امریکا اور مغرب نے انھیں چھوڑ دینا ہے اور جناب زیلنسکی گمنام ہو جائیں گے۔
دستووسکی نے مشہور ناول Crime n Punishmentمیں کہا ہے کہ بڑے آدمی فوجیوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر ہاتھ لہراتے ہوئے فتح کا نشان بناتے ہوئے یہ بالکل نہیں سوچتے کہ ان کے پاؤں میں پڑی لاش کسی کے اکلوتے بیٹے یا کسی کے سہاگ کی ہو سکتی ہے۔ان کو صرف اپنی کامیابی سے غرض ہوتی ہے۔
پچھلے سال مئی میں ایک موقع ایسا آیا جب یہ تجویز دی گئی کہ یوکرین یورپی یونین کا نان نیٹو ممبر بن جائے اور جنگ ختم ہو جائے۔اس پر ہر ملک کا اتفاق نظر آیا لیکن امریکا نے اس کو رد کرتے ہوئے یوکرین کو جنگ جاری رکھنے کا کہا۔امریکا کو یہ ایڈ وانٹیج حاصل ہے کہ وہ خود اس جنگ سے بہت دور ہے۔
یہ جنگ چاہے یوکرین تک محدود رہے یا یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لے امریکا اور اس کے عوام اس سے براہِ راست متاثر نہیں ہوتے، اس لیے امریکا روس کو نیچا دکھانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔یورپی ممالک کو بہر حال یہ دیکھنا ہے کہ کہیں یورپ کا نقصان تو نہیں ہو رہا۔اگر یہ جنگ پھیلتی ہے تو یورپی ممالک اس جنگ سے بچ نہیں پائیں گے۔
یوکرین کے صدر جناب زیلنسکی کو یہ دیکھنا چاہیے کہ کہیں وہ امریکا کے آلہء کار بن کر اور اپنی شہرت کے جال میں پھنس کر یوکرین کو تباہ و برباد تو نہیں کروا رہے۔اس جنگ میں سب سے زیادہ یوکرینی مر رہے ہیں۔
یوکرین کے تمام نیوکلیئر اداروں پر روس قابض ہو چکا ہے، یوکرین کے کئی علاقے روسی قبضے میں چلے گئے ہیں۔کیا جنگ کو ختم کر کے وہ اپنے ہم وطنوں کی جانوں کو بچانا اور تکالیف کم کرنا نہیں چاہیں گے۔