ہم خوابوں کو جیتے ہیں یا خوف کو
اسے خدا بنا دیتی ہے جس انسان نے اپنی تقدیرکو پہچان لیا ہو وہ اسے بدلنے کی کوشش نہیں کرتا
''کوئی بھی آپ کو وہ پل نہیں بنا سکتا جس پر آپ کو اور صرف آپ کو زندگی کے دریا کو عبورکرنا ہوگا'' نوجوان نطشے نے یہ سوچتے ہوئے لکھا تھا کہ اپنے آپ کو تلاش کر نے کے لیے کیا ضروری ہے، وہ انسانیت کی کچھ انتہائی یقینی روحوں کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوا، ان میں سے نوبیل انعام یافتہ ناول نگار Hermann Hesse شامل ہے ۔
جس نے نطشے کے فلسفے سے سب سے زیادہ انسان دوست نظریات اخذ کیے پھر انھیں اپنی ماورائی انسانیت سے بڑا کیا۔ اپنے آپ اور دنیا کے لیے ہماری انسانی ذمے داری کے بارے میں Hesseکے کچھ انتہائی حوصلہ افزا خیالات اس کے ''ایک نوجوان جرمن کے لیے خط '' میں لکھے سامنے آتے ہیں جو 1919 میں ایک مایوس نوجوان کو لکھے گئے تھے۔
وہ لکھتا ہے ''آپ کو کسی اور کے ہونے یا کچھ بھی نہیں ہونے، دوسروں کی آوازوں کی نقل کرنے اور دوسروں کے چہروں کو اپنے لیے غلط سمجھنے کی عادت کو چھوڑ دینا چاہیے۔
انسان کو ایک چیز دی جاتی ہے جو اسے دیوتا بناتی ہے جو اسے یاد دلاتا ہے کہ وہ دیوتا ہے وہ ہے تقدیرکو جاننا۔ جب مقدر باہر سے انسان کے پاس آتا ہے تو اسے اس طرح پست کر دیتا ہے جس طرح تیر ہرن کو نیچے کر دیتا ہے، جب تقدیر انسان کو اندر سے ، اس کے باطن سے آتی ہے تو وہ اسے مضبوط بناتی ہے۔
اسے خدا بنا دیتی ہے جس انسان نے اپنی تقدیرکو پہچان لیا ہو وہ اسے بدلنے کی کوشش نہیں کرتا۔ تقدیر کو بدلنے کی کوشش ایک بچگانہ جستجو ہے جو انسانوں کو جھگڑنے اور ایک دوسرے کو مارنے پر مجبورکرتی ہے۔ تمام دکھ ، زہر اور موت مسلط مقدر ہیں لیکن ہر سچا عمل، ہر وہ چیز جو اچھی اور خوشگوار ہو اور زمین پر ثمرآور ہو مقدر ہے۔
نطشے کے اس اصرارکی بازگشت کہ ایک مکمل زندگی کے لیے بھاگنے کی بجائے اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ Hesse نے نوجوانوں کو اپنے مصائب کا احترام اور تجسس کے ساتھ علاج کرنے کی تلقین کی اور مزید کہا کیا تیرا کڑوا درد تقدیر کی آواز نہ ہو ، کیا وہ آواز ایک بار سمجھ آجائے تو میٹھی نہ ہوجائے؟
عمل اور مصائب جو مل کر ہماری زندگی بناتے ہیں ایک مکمل ہیں وہ ایک ہیں۔ ایک بچہ اپنی پیدائش کو برداشت کرتا ہے اسے دودھ چھڑنا برداشت کرنا پڑتا ہے۔
یہ یہاں دکھ اٹھاتا ہے اور وہیں تکلیف اٹھاتا ہے ، یہاں تک کہ آخرکار اسے موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، لیکن ایک آدمی میں وہ تمام خوبیاں ، جن کے لیے اس کی تعریف کی جاتی ہے یا اس سے پیارکیا جاتا ہے وہ محض اچھا دکھ ہے۔
صحیح قسم کی زندہ قسم کی تکلیف ، ایک مکمل تکلیف۔ اچھی طرح سے تکلیف اٹھانے کی صلاحیت زندگی کے نصف سے زیادہ ہے ، پیدائش تکلیف ہے۔ نشوونما تکلیف ہے بیج زمین کو تکلیف دیتا ہے۔ کلی اپنے پھول کو برداشت کرتی ہے۔
اسی طرح میرے دوستوں انسان تقدیر کا شکار ہوتا ہے ، تقدیر زمین ہے یہ بارش اور ترقی ہے۔ تقدیر تکلیف دیتی ہے زندگی بولتی ہے دیکھنا سیکھو جب تقدیرکا سورج تمہارے سائے سے کھیلتا ہے تو زندگی کا احترام کرنا سیکھو۔ دو ہزار سال بعد سینیکا نے نصیحت کی کہ ''آپ کے تمام دکھ آپ پر ضایع ہوچکے ہیں اگر آپ نے ابھی تک یہ نہیں سیکھا کہ کس طرح دکھی َہونا ہے۔'' نوجوان ، آپ کو خود بنایا گیا تھا آپ کو ایک آواز ، ایک لہجے ، ایک سائے کے ساتھ دنیا کو مالا مال کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
تم میں سے ہر ایک میں کوئی نہ کوئی وجود چھپا ہوا ہے جو ابھی تک بچپن کی گہری نیند میں ہے اسے زندہ کرو ! آپ میں سے ہر ایک میں ایک پکار ، ایک خواہش ، فطرت کا ایک جذبہ ، مستقبل کی طرف ایک تحریک ہے اسے پختہ ہونے دیں اسے گونجنے دیں اس کی پرورش کریں۔
آپ کا مستقبل یہ یا وہ نہیں ہے یہ پیسہ یا طاقت نہیں ہے یہ آپ کی تجارت میں ، حکمت میں یا کامیابی میں نہیں ہے۔
آپ کا مستقبل ، آپ کا مشکل خطرناک راستہ یہ ہے پختہ ہونا اور اپنے آپ میں خدا کو تلاش کرنا۔Marcus Aurelius کہتا ہے '' ایک شخص جو نہیں جانتا کہ کائنات کیا ہے وہ نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے جو شخص اپنی زندگی کا مقصد نہیں جانتا وہ نہیں جانتا کہ وہ کون ہے یا کائنات کیا ہے ان چیزوں میں سے کسی ایک کو بھی معلوم نہیں کہ وہ یہاں کیوں ہے تو ان لوگوں کا کیا کیا جائے جو ان لوگوں کی تعریف تلاش کرتے ہیں یا ان سے گریز کرتے ہیں جن کو یہ معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہیں اور کون ہیں ؟ ''۔ کامیڈین Mitch Hedberg کی ایک مضحکہ خیز کہانی تھی جو اس نے اپنے ایکٹ میں سنائی تھی۔
ریڈیو پر آن ایئر انٹرویو کے لیے بیٹھے ہوئے ایک ڈی جے نے اس سے پوچھا تو '' آپ کون ہیں ؟ '' اس لمحے اسے سوچنا پڑا ،کیا یہ آدمی گہرا ہے یا میں نے غلط اسٹیشن پر گاڑی چلادی ہے۔ ہم سے اکثر یہ پوچھا جاتا ہے کہ '' آپ کون ہیں یا آپ کیا کرتے ہیں یا آپ کہاں سے ہیں؟ '' ہم میں سے کوئی بھی بغیر مقصدکے پیدا نہیں کیا گیا ہے اور یہ بھی کہ ہمیں اپنے پیدا ہونے کا مقصد پہلے بتایا نہیں جاتا ہے۔
مقصد ہمیں خود ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ اسے تلاش باہر نہیں بلکہ اپنے اندرکیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے اندر بہت دور تک جانا پڑتا ہے۔
Les Brown نے کہا تھا '' ہم میں سے بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو اپنے خوابوں کو نہیں جی رہے ہیں بلکہ اپنے خوف کو جی رہے ہیں''۔ ہزاروں کہانیوں میں سے نا قابل فراموش کہانی ایورسٹ گلیوئے کی ہے ، جو فرانس کا ہونہار طالب علم تھا اور بچپن سے ہی ریاضی خصوصاً الجبرے میں حیران کن کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ 1831 میں جب وہ صرف20 سال کا تھا ، ایک لڑکی کی وجہ سے اس کا جھگڑا ہوگیا۔
دوسرے شخص نے اسے Duel کا چیلنج کردیا ، لڑائی سے ایک رات قبل اسے یقین ہوگیا کہ کل اس کی موت یقینی ہے اسی خوف اور دہشت کے عالم میں وہ اپنی میز پر بیٹھا اور الجبرے کی ان تمام Equations کی سمری لکھنے لگا جو زندگی بھر اسے پریشان کرتی رہی تھیں ، وہ رات بھر برق رفتاری اور بھرپور جوش و جذبے سے الجبرے کی مساوتیں لکھتا رہا۔
اگلے دن اپنی توقع کے عین مطابق وہ لڑائی میں مخالف کے ہاتھوں مارا گیا۔ اس کی موت کے کئی سالوں بعد جب اس کے نوٹس کا مطالعہ کرنے کے بعد شائع کرایا گیا تو الجبرے کے میدان میں ایک انقلاب برپا ہوگیا۔ اس کے ان نوٹس نے علم ریاضی کے بارے میں ایسے ایسے نکات کا انکشاف کیا جو اپنے عہد سے بہت آگے تھے۔
یہ جاننا مشکل ہے کہ ایک ہی رات میں وہ اس کے ذہن میں کیسے تخلیق پائے۔ نظریہ اضافت پر مسلسل دس سال تک کام کرنے کے بعد ایک روز تھک ہار کر البرٹ آئن اسٹائن نے مزید کام نہ کرنے کا فیصلہ کیا وہ اس شام اپنے بستر پر سونے کے لیے چلا گیا۔
اگلی صبح جب وہ بیدار ہوا تو اسے اپنے مسئلے کا حل مل گیا۔ ہر مسئلہ اپنا حل لیے وجود میں آتا ہے اور یہ مسئلے کے ساتھ ہی موجود ہوتا ہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہوتا ہے کہ آپ صرف مسئلے کو دیکھتے ہیں یا ساتھ ہی ساتھ حل کو بھی دیکھتے ہیں مایوس اور خوفزدہ وہ ہوتے ہیں جو حل کو دیکھ نہیں پاتے ہیں۔ تب ہی سقراط بار بار ایک ہی بات پر زور دیتا تھا ''سوچو۔''