اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ سے متعلق قانون کو غیر آئینی کیسے قرار دیں سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے 2018 میں سیکشن 94 کو آئین کے مطابق قرار دیا تھا، جسٹس منیب اختر
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو بھی اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق پر پیش رفت رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کر دی۔
جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ وکیل درخواست گزار عارف چوہدری نے کہا الیکشن کمیشن نے اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے معاملہ روک رکھا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ہائیکورٹ نے اوورسیز پاکستانیوں کے حق لینے کی ترامیم پر درخواست خارج کر دی تھی۔ پارلیمان نے 2017 میں الیکشن ایکٹ بنایا اور سمندر پار پاکستانیوں کے حق سے متعلق الیکشن ایکٹ کی سیکشن 94 واضح ہے۔ سپریم کورٹ نے 2018 میں سیکشن 94 کو آئین کے مطابق قرار دیا تھا۔ سال 2021 میں قانون کو مزید بہتر کیا گیا 2022 میں پارلیمنٹ واپس پرانی سطح پر لے آئی تو اب کیسے کہیں کہ یہ واپسی غیر آئینی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا سپریم کورٹ نے پہلے جس قانون کو آئینی قرار دیا اب غیر آئینی کیسے قرار دے؟
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ نادرا کے مطابق الیکشن کمیشن معاہدہ کرے تو ایک سال میں آئی ووٹنگ کا سسٹم بنا سکتے ہیں۔ سال 2017 میں ہونے والے پائلٹ پراجیکٹ پر کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا، الیکشن کمیشن نے اب تک دوبارہ کوئی پائلٹ پراجیکٹ نہیں کیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ نے تو اوورسیز کے ووٹ کے حق سے متعلق قانون کو ہی کالعدم قرار دینے کی درخواست کر دی ہے، فریقین کے جواب آجائیں تو عمل درآمد کا جائزہ بھی لیں گے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر دائر درخواست واضح ہونی چاہیے، کیا کوئی آئینی ضابطہ پارلیمنٹ کو قانون اصل حالت میں بحال کرنے سے روکتا ہے؟ عدالتی سوالات پر تیاری کر کے آئیں۔
عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔