شہیدوں کی سرزمین۔۔۔۔ چونڈہ

ذکر کچھ متروک ریلوے اسٹیشنوں  اور ہمارے عظیم شہدا کا


حارث بٹ March 05, 2023
ذکر کچھ متروک ریلوے اسٹیشنوں  اور ہمارے عظیم شہدا کا ۔ فوٹو : فائل

سیالکوٹ اور چونڈہ کے درمیان تین چھوٹے چھوٹے ریلوے اسٹیشن ہیں۔۔۔تاثیر آباد، گنہ کلاں اور الہڑ۔ تاثیر آباد اور الہڑ مکمل طور پر ویران ہیں جب کہ گنہ کلاں میں ابھی کچھ رونقیں باقی ہیں۔

سیالکوٹ سے پسرور کی طرف جائیں تو شہر سے باہر نکلتے ہی اعوان چوک سے بائیں جانب ''جودے والی'' کی جانب مڑ جائیں۔

تھوڑا آگے جا کر آپ کو ایک ریلوے پھاٹک ملے گا۔ پھاٹک پر کھڑے کھڑے آپ دائیں جانب نظر اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو دور سے ہی ایک سنگِ میل دکھائی دے گا۔

قریب جا کر دیکھیں تو اس پر ''تاثیر آباد'' لکھا ملے گا۔ ایک عرصے سے یہاں کوئی گاڑی نہیں رکی۔ سیالکوٹ سے لاہور جانے والی لاثانی ایکسپریس اور کراچی جانے والی علامہ اقبال ایکسپریس اس ریلوے اسٹیشن پر سے گزرتی ہیں مگر یہاں کوئی نہیں رکتا۔ یہاں کوئی پلیٹ فارم نہیں۔ کوئی مسافر خانہ بھی نہیں۔ فقط ایک چھوٹا سا کمرا ہے جو اب مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے۔

اگرچہ کہ کمرے کے دروازے کے ساتھ ''بغیر اجازت اندر آنا منع ہے'' لکھا ہے مگر اب اس کمرے میں جانے کے لئے کسی کی بھی اجازت درکار نہیں۔ اسی ایک چھوٹے سے کمرے کے ساتھ کسی نے اپنا ڈیرہ بنا رکھا ہے. معلوم نہیں کہ اسے ریلوے کی زمین پر قبضہ کہا جائے گا یا یہ زمین واقعی کسی کو بیچ دی گئی ہوگی۔

ریلوے اسٹیشن بے شک ایک کمرے کا تھا، مگر سرکار کے کاغذات میں یہ تھا اور ظاہر سی بات ہے کہ سرکار کی زمین پر ہی ہوگا۔ اس ایک کمرے کے آس پاس کی زمین بھی سرکار کی ہی ہوگی۔ کم ازکم پورے پلیٹ فارم جتنی زمین تو سرکار کی لازم ہوگی مگر اب اسی پلیٹ فارم پر ایک بڑا سا ڈیرا بنا ہے۔ انتہائی قدیم درخت بھی لگے ہیں جن کی جڑوں نے اس زمین کو مضبوطی سے تھام رکھا ہے۔ انہی درختوں کی طرح یہاں ایک نوے سالہ شاہ صاحب ہیں جن کی جڑیں شاید ان درختوں سے بھی زیادہ زمین کے اندر دھنسی ہوئی ہیں۔

شاہ صاحب اپنی اس زمین اور ریل سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ یہ سورج نکلنے پر اپنے گھر سے متروک ہوچکے تاثیر آباد ریلوے اسٹیشن پر آ جاتے ہیں۔ یہاں جھاڑو دیتے ہیں، پانی کا چھڑکاؤ کرتے ہیں اور پھر چارپائی پر استراحت فرماتے ہیں۔

موسم کی مناسبت سے چارپائی کی جگہ تبدیل ہوتی رہتی ہے مگر شاہ صاحب کے اسٹیشن پر آنے کے معمول میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ گرمیوں کے موسم میں شاہ صاحب چارپائی درختوں کے سائے میں لے آتے ہیں جب کہ سردیوں میں یہ چارپائی ذرا دھوپ میں آجاتی ہے۔

شاہ صاحب کی اپنی آل اولاد اب اِن کے گھونسلے سے اڑ چکی ہے۔ کوئی کام یاب ہونے پر شہر چھوڑ گیا تو کوئی ملک۔ اب کوئی ان سے ملنے نہیں آتا، نہ ہی انھیں کوئی خط لکھتا ہے۔ کسی کو بھی شاہ صاحب کا تاثیر آباد کے چھوٹے پلیٹ فارم پر جھاڑو دینا پسند نہیں۔ ایک تو سادات سے تعلق، دوسرا اولاد بھی پڑھی لکھی مگر شاہ صاحب کو کون سمجھائے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی ساری جوانی اور بڑھاپا اسی ریلوے اسٹیشن پر گزار دیا ہے۔

یہاں ان کے دوست، یار، سنگی سب مل کر کھیلا کرتے تھے، یہی پر ان کی بیٹھکیں بھی چلتی تھیں۔ اب شاہ صاحب کا کوئی یار جگر تاثیر آباد نہیں رہا۔ کسی کو موت نے آ لیا تو کسی کا بیٹا کام یاب ہونے پر ماں باپ کو لے کر شہر لے گیا مگر شاہ صاحب کہیں نہیں جاتے۔

وہ اس بات کا شکوہ بھی نہیں کرتے کہ سب اس پلیٹ فارم کو چھوڑ کر چلے گئے۔ وہ بس اس بات سے مطمئن ہیں کہ انہیں اس پلیٹ فارم سے موت کے علاوہ کوئی جدا نہیں کر سکتا۔

سیالکوٹ سے چونڈہ کی طرف جاتی ریل کو اگر آپ تاریخ کی عینک لگا کر دیکھیں تو اس پوری پٹری پر آپ کو خون کی چھینٹیں دکھائی دیں گی۔

عینک ذرا اچھے نمبر کی ہو تو پوری پٹری ہی آپ کو خون میں نہائی ہوئی ملے گی۔ سیالکوٹ سے ایک پٹری چونڈہ، پسرور، جسڑ اور شکرگڑھ سے ہوتی ہوئی بھارتی پنجاب میں داخل ہوجاتی تھی اور سیالکوٹ سے ہی ایک پٹری نکل کر سیالکوٹ چھاؤنی کو پار کر کے جموں تک چلی جاتی تھی۔

سیالکوٹ سے پٹری کا جموں جانا اب ناممکن ہے۔ جموں جانے والی ریل شہر سے باہر نکلتے ہی ریل سب سے پہلے جس اسٹیشن پر تھوڑی دیر کے لیے رکتی تھی وہ ''سیالکوٹ چھاؤنی'' ریلوے سٹیشن تھا۔ شہرِ سیالکوٹ کی جغرافیائی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ انگریز نے سیالکوٹ سے بہت پَرے سیالکوٹ چھاؤنی بسائی تھی جس کے لیے الگ سے ریلوے اسٹیشن بھی بنایا گیا تھا۔

یہی سے لائن سچیت گڑھ سے ہوتے ہوئے جموں تک جاتی تھی۔ جب بھارتی افواج نے جموں پر قبضہ کرلیا تو سچیت گڑھ کا علاقہ بھارت اور پاکستان کے درمیان بارڈر قرار پایا۔ سن 47 میں جب بھارتی افواج حرکت میں آئیں اور جموں پر قبضہ کر لیا تو یہاں کی افواج نے بھی تو کچھ کرنا تھا نا۔ بدلے میں یہاں سیالکوٹ چھاؤنی ریلوے اسٹیشن کو مکمل طور پر قبضہ کرلیا گیا اور سیالکوٹ سے جموں جاتی ریلوے لائن کو کاٹ دیا گیا۔

قصہ مختصر یہ ہے کہ سیالکوٹ چھاؤنی ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر اب خاردار تار لگی ہے۔ آپ پلیٹ فارم پر کھڑے نہیں ہو سکتے۔ آپ لائن کے آس پاس بھٹک نہیں سکتے۔

آپ اس کے ٹکٹ گھر، مسافر خانے سمیت کسی بھی چیز نہیں دیکھ سکتے۔ کیوں؟ بھول گئے کیا کہ اس ریلوے اسٹیشن کا نام کیا تھا؟ سیالکوٹ ''چھاؤنی'' ریلوے اسٹیشن، جہاں ایک پرندہ بھی بڑے صاحبوں کی مرضی کے بنا پنکھ نہیں پھیلا سکتا۔

تقسیم سے پہلے سرحد کے دونوں جانب ہر طرف شہر، ہر محلے اور ہر قصبے میں ہندو بھی آباد تھے، سکھ بھی اور مسلمان بھی۔ سکھوں کے بچپن کے دوست کئی مسلمان تھے اور کئی مسلمانوں کی گہری دوستیاں سکھوں کے ساتھ تھیں۔

یہاں تک کے ایک دوسرے کی ماں بہن کا بھی احترام اپنی ماں بہن کی طرح کیا جاتا مگر تقسیم کے وقت دونوں جانب بغاوت کی ایسی ایسی مثالوں نے جنم لیا کہ رہتی دنیا تک کوئی بھی دوستی کے لفظ پر یقین نہ کرے۔

پٹھان کوٹ میں عجب صورت حال تھی۔ کچھ بھی واضح نہیں ہو رہا تھا۔ اگست 1947 کا مہینہ تھا اور ہر طرف شور تھا کہ ہندوستان اب ٹوٹ کے رہے گا۔

پٹھان کوٹ کہاں جائے گا، ابھی تک کچھ واضح نہیں تھا مگر یہ طے ہو چکا تھا کہ بنگال کی طرح اب پنجاب بھی ٹوٹے گا۔ پٹھان کوٹ میں مسلم، سکھ دونوں ہی سالوں سال سے رہتے چلے آئے تھے۔ سب لوگ پہلے پنجابی، پھر ہندوستانی اور پھر مسلمان اور سکھ تھے۔ پچھلے کچھ عرصے سے ایسا ہو رہا تھا کہ یہ ترتیب الٹی ہوگئی۔

اب پٹھان کوٹ کے باسی پہلے مسلمان اور سکھ تھے، بعد میں کچھ اور دونوں اطراف میں چہ میگوئیاں ہو رہی تھی کہ پنجاب تقسیم ہونے پر مسلمانوں اور سکھوں کو کیا کرنا تھا۔ اگر پٹھان کوٹ پاکستان میں شامل ہوتا ہے تو سکھ یہاں سے ہندوستان کس طرح ہجرت کریں گے اور اگر پٹھان کوٹ بھارت کا حصہ بنتا ہے تو اس ضمن میں ہجرت کے لیے وہاں کے مسلمانوں کی ممکنہ منصوبہ بندی کیا ہوگی۔

دونوں اطراف میں جوان، گرم اور جوشیلا خون شامل تھا۔ دونوں اطراف سے کچھ بڑے بوڑھے ایسے بھی تھے جو اس بات کا پرچار کر رہے تھے کہ پٹھان کوٹ خواہ پاکستان میں شامل ہو یا بھارت میں۔ ہم سب پہلے بھی پنجابی تھے اور اب بھی پنجابی ہی رہیں گئے۔ کوئی بھی یہاں سے وہاں ہجرت نہیں کرے گا مگر دونوں اطراف کے بڑے بوڑھے اپنے جوانوں کے سامنے بے بس نظر آ رہے تھے۔

یہی صورت حال شکر گڑھ کی بھی تھی۔ سکھ اور مسلمان دونوں ہی سالوں سے ایک ساتھ رہ رہے تھے مگر اب حالات کچھ بدل سے گئے تھے۔

سب ہی ایک دوسرے سے انجان ہوگئے تھے۔ تقسیم ہوتے ہی ایک طبقے نے اکثریت اور دوسرے نے اقلیت بن جانا تھا، چوںکہ کسی کو بھی تقسیم کی اصل صورت حال کا اندازہ نہیں تھا کہ کون کون سے علاقے بھارت میں شامل ہوں گئے اور کون سے پاکستان میں، اس لیے وقتی طور پر سب خاموش تھے۔

بوٹا اور اجیت سنگھ دونوں ایک ہی دن پیدا ہوئے تھے۔ دونوں کے باپ بھی ایک دوسرے کے یار تھے۔ بوٹے کا جب دل کرتا اجیت کے گھر کھیلنے کے لیے چلا جاتا۔ اجیت پر بھی بوٹے کے گھر جانے پر کوئی روک ٹوک نہ تھی۔

کسی دن اجیت کی پسند کا سالن گھر نہ پکا ہوتا تو اجیت چپ چاپ بوٹے کے گھر چلا جاتا۔ جب بھی کھانے کے وقت اجیت گھر آتا تو بوٹے کی ماں فوراً سمجھ جاتی اور بوٹے کے ساتھ ساتھ اجیت کے لیے بھی سالن نکال دیتی۔ دونوں گھرانوں میں اتنا پیار تھا کہ اجیت اور بوٹے کے قد کاٹھ نکالنے کے بعد بھی ان دونوں پر کسی نے کوئی پابندی نہیں لگائی کہ آج سے ایک دوسرے کے گھر جانا بند۔ دونوں کے حالت اب بھی وہی تھی۔

اجیت اور بوٹا، دونوں کی چھوٹی بہنیں بھی پکی سہیلیاں تھیں، جہاں بوٹا اجیت سنگھ کے گھر کے بزرگوں اور بیبیوں کی بے پناہ عزت کرتا وہیں اجیت سنگھ نے بھی بوٹے کے خاندان پر کبھی کسی کو میلی آنکھ نہیں اٹھانے دی۔

شکرگڑھ کے نواحی علاقے جسڑ میں اجیت کور کا حسن دور دور تک مشہور تھا۔ اجیت کور بلونت سنگھ کی منگ تھی اور بلونت سنگھ اختر کا پکا یار تھا۔

دونوں بچپن سے ایک ساتھ بڑے ہوئے تھے۔ دونوں کی یاری پورے جسڑ میں مشہور تھی۔ مخالفین نے دونوں یاروں میں فساد ڈالنے کی بڑی کوشش کی مگر وقت نے ثابت کیا تھا کہ بلونت سنگھ اور اختر دونوں یاروں کے یار تھے۔

چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی شب سب پر بھاری تھی۔ ہر ایک کی زبان پر ایک ہی بات تھی کہ بس پنجاب تقسیم ہونے کو ہے، مگر کون سا علاقہ کس کے پاس جائے گا، کسی کو کچھ خبر نہ تھی۔ چودہ اگست کی رات آ پہنچی تھی اور پاکستان بننے کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ آل انڈیا ریڈیو کے لاہور اسٹین نے اعلان کر دیا گیا کہ یہ اب پاکستان ریڈیو اسٹین ہے۔

پٹھان کوٹ بھارت کے حصے میں آیا تھا جب کہ شکر گڑھ سے مغرب کو سارا پنجاب پاکستان کو دے دیا گیا تھا۔ ہجرت کی تیاریاں پہلے ہی مکمل تھیں۔ دونوں ممالک کی جانب سے اسپیشل ٹرین کا اعلان کردیا گیا تھا جو سرحد کے آر پار جائیں گی۔

دونوں اطراف کے لوگوں کو جہاں اپنے اپنے ملک جانے کی خوشی تھی، وہی اپنے آباواجداد کی زمین چھوڑنے کا غم بھی تھا۔ دونوں اطراف سے ہجرت شروع ہوچکی تھی۔ دونوں اطراف افواہیں پھیل رہی تھیں۔ پاکستان سے بھارت پہنچنے والے سکھ بھارت پہنچ کر کہانیاں سنا رہے تھے کہ وہ سب خیر سے پہنچ تو گئے مگر ان کو راستے میں بہت خطرہ تھا۔

ان کی ٹرین گرو جی کی کرپا سے تو بچ گئی مگر سننے میں آیا تھا کہ سکھوں کی دوسری ٹرین ''مُسلوں'' نے لوٹ لی تھی۔

نہ صرف سامان لوٹا بلکہ لڑکیوں کو الگ کرکے قتلِ عام کردیا گیا۔ کہیں لڑکیوں نے اپنی جان دے دی مگر کسی حملہ آور کو اپنے پاس نہیں آنے دیا۔ ایسی کہانیاں سن کر مشرقی پنجاب کے سکھوں کا خون جوش مارنے لگا۔ ان سب کہانیوں سے مسلمان بھی پریشان ہونے لگے۔

اُدھر مغربی پنجاب یعنی پاکستانی پنجاب میں بھی یہی صورت حال تھی۔ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں ہورہا۔ اپنی مسلمانوں بہنوں کا سوچ کہ یہاں موجود مومن مردوں کا خون بھی جوش مارنے لگا تھا۔ منصوبہ بندی ہونے لگی تھی کہ اب ہم نے کس طرح اپنی مظلوم ماؤں بہنوں کا بدلہ لینا ہے۔

بوٹے کے گھر والوں سمیت بہت سے خاندان پاکستان ہجرت کا فیصلہ کر چکے تھے۔ پٹھان کوٹ میں اب ان کی عزت، جان، مال کچھ بھی محفوظ نہ تھا۔ ہجرت کے لیے رات کا وقت مقر کیا گیا تھا۔ جانے سے پہلے بوٹے کی ماں اور اجیت سنگھ کی ماں گلے مل کر خوب روئیں۔

بہن سب قیمتی سامان رکھ لیا نا؟

ہاں اجیت کی ماں موٹے کنگن اس صندوق میں رکھے ہیں اور کچھ جمع پونجھی بھی۔ باقی رب ہم سب کا وارث ہے۔

قافلہ پٹھان کوٹ کے گاؤں سے باہر نکلا ہی تھا کہ سکھوں کے جتھے نے حملہ کر دیا۔ بڑے بوڑھوں کو قتل کردیا گیا۔ سامان لوٹ لیا گیا۔ ایک بڑے جسے والے سکھ کو جیسے کسی کی تلاش تھی۔ سکھ نے اپنا منہ ایک کپڑے سے ڈھانپ رکھا تھا۔ سکھ کی نظر زخمی بوٹے کے باپ پر پڑی۔ تلاش کے باوجود جب مطلوبہ چیز نہ مل سکی تو سکھ بوٹے کے پاس آیا۔

صندوق کدھر ہے؟

بوٹے کا باپ خاموش رہا۔

سکھ نے ایک خنجر بوٹے کے پیٹ میں گھونپ دیا۔ اتنے میں سکھ کی نظر صندوق پر پڑی۔ سکھ نے فوراً صندوق کھولا، بوٹے کی ماں کے کنگن اور نقدی نکالی اور صندوق پھینک دیا۔ بوٹے کے باپ نے پیچھے سے آکر سکھ کا نقاب اتارا۔ بوٹے کے باپ کے سامنے اس کا جگری یار اجیت کا باپ کھڑا تھا۔ اجیت کے باپ نے ایک اور خنجر کے وار سے بوٹے کے باپ کو پیچھے پھینکا۔

سسرا سارا مال پاکستان لے کر جا رہا تھا۔ کنگن دیکھ کر تو اجیت کی ماں خوش ہو جائے گی۔

ادھر نوجوان سکھ مسلمان لڑکیوں کو تلاش کر رہے تھے۔ زخمی بوٹے نے بہن کو بچانے کی بہت کوشش کی مگر سکھ بھی جوان اور تگڑا تھا۔

کنواں نزدیک آنے پر، بوٹے کی بہن نے ایک ٹانگ زور سے سکھ کے پیٹ میں دے ماری۔ سکھ نے بوٹے کی بہن کو زمین پر پھینکا۔ سکھ کی آنکھوں میں ہوس ناچ رہی تھی۔ قریب آنے پر بوٹے کی بہن نے سکھ کا کپڑا کھینچ ڈالا۔ کپڑا کے پیچھے اجیت کا شیطانی چہرہ ہنس رہا تھا۔

شکر گڑھ سے بلونت سنگھ اور اجیت کور، دونوں کے خاندانوں سمیت سب سکھوں کے گھروں نے فیصلہ کر لیا کہ اب انھیں بھارت ہجرت کر جانی چاہیے کیوںکہ انھیں مسلمانوں کے ارادے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے تھے۔ سب سکھ اس بات پر متفق تھے کہ ہجرت رات کے وقت کی جائے۔

سب نے اپنے دوست احباب سے ملاقات کی۔ قیمتی سامان رکھا اور سرحد کی طرف چل پڑے۔ جسڑ سے باہر نکلتے ہی ایک جتھے نے سکھوں کے قافلے پر حملہ کردیا۔ بوڑھوں اور جوان لڑکوں کو مار دیا گیا۔ سامان لوٹ لیا گیا۔ جوان لڑکیوں کو اٹھا لیا گیا۔ بلونت سنگھ کی منگیتر اپنی عزت بچانے کے لیے بھاگ رہی تھی کہ اختر کے مضبوط بازوں نے اجیت کور کو پکڑ لیا۔

ویرے مجھے بچا لے۔

اختر نے مسکراتے ہوئے اجیت کور کو ایسا دبوچا کہ اگلی صبح اجیت کور نے جسڑ کے اندھیرے کنواں میں چھلانگ لگا دی۔

کچھ ایسی ہی داستانیں گنہ کلاں کی بھی ہیں جہاں کا ریلوے اسٹیشن آج بھی اپنے گزر چکے باسیوں کو یاد کر کے اشک بار ہوتا ہے کہ اس کے جو باسی سن 47 میں سرحد پار کر گئے تھے وہ واپس کبھی نہیں آئے۔

جیسے ''کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا'' بالکل ایسے ہی اب ''الہڑ'' میں اب کوئی نہیں آتا۔ البتہ ہر چھٹی کے روز قصبے کے تمام لڑکے الہڑ ریلوے اسٹیشن کا رخ کرتے ہیں، کرکٹ کھیلتے ہیں، گیند ڈنڈا کھیلتے ہیں اور ایک دوسرے کے خاندانوں کی شان میں زبردست قصیدے پڑھنے کے بعد اپنے اپنے گھر کی راہ لیتے ہیں۔

الہڑ جو اب ایک گم نام ریلوے اسٹیشن ہے، مگر یہ ہمیشہ سے گم نام نہیں تھا۔ آپ آج سے بارہ تیرہ سال پیچھے چلے جائیں تو آپ کو یہ ریلوے اسٹیشن آباد ملے گا۔ نہ جانے کیوں ہر ریلوے اسٹیشن کی گم نامی کے تانے بانے بلور صاحب سے ہی جا کر ملتے ہیں۔ اگر آپ نے یہ جاننا ہو کہ پاکستان کو کس قدر منصوبہ بندی سے لُوٹا گیا تو اپنے متروکہ ریلوے اسٹیشن کی وجہ جاننے کی کوشش کریں کہ یہ جیتے جاگتے ریلوے اسٹیشن کیوں متروک ہوگئے۔

کبھی میں مندوں اور گوردواروں کے لیے متروک کا لفظ استعمال کیا کرتا تھا مگر اب تو یہ لفظ ریلوے اسٹیشن کے لیے بھی استعمال ہونے لگا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ان متروکہ ریلوے اسٹیشنز کی فہرست طویل ہوتی جارہی ہے۔

سیالکوٹ اور چونڈہ کے درمیان فاصلہ صرف اور صرف 27.6 کلو میٹر ہے اور اس 27.6 کلومیٹر میں تین ریلوے اسٹیشن ہیں، تاثیر آباد، گنہ کلاں اور الہڑ۔ تینوں ریلوے اسٹیشنوں کی عمارتیں انگریز دور کی بنی ہوئی ہیں۔ شاید یہ جملہ اضافی ہو، شاید اس جملے کی ضرورت کسی بھی صورت نہیں ہے کیوںکہ کم از کم میرے علم میں تو ایسا کوئی ریلوے اسٹیشن نہیں جو آزادی کے بعد بنایا گیا ہے۔

البتہ ایسے بہت سے ریلوے اسٹیشن ضرور ہیں جو گذشتہ پندرہ سالوں میں وقتاً فوقتاً بند ہوتے رہے ہیں، جن میں سے الہڑ بھی ایک ہے۔ الہڑ کا ریلوے اسٹیشن ''گنہ کلاں'' اور چونڈہ کے درمیان ہے۔ گئے وقتوں کی بات ہے کہ جب یہاں بھاپ سے چلنے والا انجن کُوکتا تھا۔ انجن کے پیچھے ایک تیل سے بھری ٹنکی ہوتی۔ کوئلے اور اس تیل کو ملا کر بھاپ بنائی جاتی، جس سے یہ ریل چلتی۔

انگریز کو ریل کو ترقی دینی تھی، سو اس نے دی۔ اس وقت شاید ریل اس لیے بھی کام یاب تھی کہ تب لوگوں کے پاس ٹرانسپورٹ کے نام پر صرف اور صرف ریلوے کا نظام ہی تھا، جیسے ایک وقت تھا جب ہمارے پاس انٹرٹینمنٹ کے لیے صرف پی ٹی وی ہی تھا۔

جب دوسرے بہت سے انٹرٹینمنٹ چینل آنے لگے تو یہ پی ٹی وی کا کام تھا کہ وہ معیار نہ صرف برقرار رکھتا بلکہ اسے مزید بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش بھی کرتا۔ ایسے ہی تب صرف ریلوے ہی تھا، اسی لیے وہ بہتر تھا۔ پھر اس زمانے میں جو اسٹیم انجن تھے وہ بھی کم رفتار والے ہی تھے۔

الہڑ کے پرانے بزرگ بتاتے ہیں کہ ان کی جوانی میں سب کام ریلوے کے ذریعے ہی ہوا کرتے تھے۔ چوںکہ قریبی بڑا شہر سیالکوٹ تھا، اس لیے صبح کے وقت تمام مزدور، وکلائ، طلباء سب سیالکوٹ کا رخ کرتے اور واپسی بھی ان کی بذریعہ ریل ہی ہوتی تھی۔

طلبہ اور مزدوروں سمیت روز آنے جانے والوں کے پاسز بنے ہوئے تھے جن کی بدولت انھیں آدھی ٹکٹ کے پیسے دینے پڑتے تھے۔ پھر یہاں ایک عجیب نُوسربازی کا بازار گرم ہوا۔ جیسا کہ میں نے اوپر بھی لکھا تھا کہ اس ملک میں صرف ایک ہی کام منصوبہ بندی سے ہوا ہے اور وہ ہے اس ملک کو لوٹنے کا کام۔ ایک کرپٹ آدمی نے کہیں ایک غلط روایت ڈال دی۔ لوگوں نے ٹکٹ لینا چھوڑ دیا۔

ٹکٹ چیکر ان لوگوں سے آدھی قیمت لے کر انھیں گاڑی میں سوار کروا لیتے اور وہ آدھی قیمت اسٹیشن کے متعلقہ سب افراد مل کر کھاتے۔ نتیجتاً الہڑ جیسے بہت سے ریلوے اسٹیشن سرکاری کھاتوں میں نقصان میں جانے لگے، کیوں کہ سرکار کو تو ان اسٹیشنوں سے کوئی آمدنی نہیں ہوتی تھی، جس کا واحد مطلب یہ تھا کہ یہاں سے ریل پر کوئی مسافر سوار نہیں ہو رہا جب کہ مسافر بہت تھے بس وہ کسی کھاتے میں شمار نہ ہو رہے تھے۔ وزارتِ بلور کا قصور صرف اور صرف یہ تھا کہ اس نے ایسے تمام اسٹیشنز کو بند کرنے کا فیصلہ کیا جہاں ٹکٹ فروخت نہیں ہو رہے تھے۔

اس ملک کو لوٹنے والوں کی کمی نہیں۔ ایک جرمن کا واقعہ بہت مشہور ہے کہ ایک پاکستانی جرمنی گیا۔ اسے دو تین بار اپنے کسی دوست کے ہم راہ ریل کے سفر کا اتفاق ہوا۔ ہر بار ریل کا ٹکٹ خریدا گیا مگر کسی کے چیک نہ کرنے کی وجہ سے ٹکٹ ''ضائع '' گیا۔

آخر ایک بار پاکستانی کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوا تو اس نے جرمن سے کہا کہ ہم کیوں ہر بار ٹکٹ خرید کر پیسے ضائع کر رہے ہیں جب کہ ہمارا ٹکٹ کوئی چیک بھی نہیں کرتا۔ جرمن نے پھر بھی ٹکٹ خریدا اور جواب دیا، '' میں نے تمہارا ملک تو نہیں دیکھا اور نہ اس کے بارے جانتا ہوں مگر اتنا ضرور جان چکا ہوں کہ تمھارے سربراہان مملکت بھی کرپٹ ہی ہوں گے کیوںکہ تم خود کرپٹ ہو۔''

یہ بات یہاں اسی لئے یاد آئی کہ جب اس الہڑ ریلوے اسٹیشن کو بند کردیا گیا تو آس پاس کے لوگوں نے یہاں خوب لوٹ مار مچائی، کیا کھڑکیاں، کیا دروازے، سب لُٹ گیا، اب الہڑ ریلوے اسٹیشن میں کچھ بھی نہیں۔ لوگوں نے الماریاں بھی نہیں چھوڑیں، سب کچھ لوٹ کر لے گئے۔ نہ جانے کیوں مجھے یہاں وہ مہاجر یاد آ گئے جو ان علاقوں سے تقسیمِ ہند کے وقت ہجرت کر کے ہندوستان چلے گئے۔ وہ کیوںکر اور کیسے اپنے سازوں سامان کے ساتھ محفوظ رہے ہوں گے۔

ہندوؤں اور سکھوں کا وہاں بس چلا تو انھوں نے قتل و غارت اور لوٹنے لٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہم چوںکہ یہاں حاکم تھے، اس لیے وہ سارے کام ہم نے یہاں کیے، اور ہم یہ سب کام کیوں نہ کرتے، آخر مٹی تو سب کی ایک ہی تھی، خمیر تو سب کا ایک ہی تھا، فرق صرف اور صرف مذہب کا تھا۔

مذہب میں شاید اتنی طاقت ہوتی ہو کہ وہ لوگوں کی اخلاقی تربیت کر سکے مگر بدقسمتی سے ہندوستان کے لوگوں کی کوئی بھی مذہب اخلاقی تربیت نہ کر سکا۔ نہ سرحد کے اِس طرف اور نہ سرحد کے اُس طرف۔ اگر مذہب نے دونوں اطراف کوئی اخلاقی تربیت کی ہوتی تو نہ یہاں لاہور میں لکشمی چوک کو آگ لگتی اور نہ وہاں رام کے نام پر بابری مسجد کو شہید کیا جاتا۔

الہڑ کے متروکہ ریلوے اسٹیشن کو دیکھ چکنے کے بعد جی پی ایس پر چونڈہ کا فاصلہ معلوم کیا تو پتا چلا کہ چونڈہ اب مجھ سے صرف پندرہ کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔

معلوم نہیں کہ ستمبر 1965 کی جنگ کیوں لڑی گئی؟ اس کے محرکات کیا تھے؟ ایسی کیا وجوہات بنیں کہ جنگ ناگریز ہو گئی ''اِن'' سے پوچھو تو کہتے ہیں کہ پہلے بھارتی افواج نے مقبوضہ کشمیر سے ہمارے والے کشمیر پر حملہ کیا، ہماری کچھ چوکیوں پر قبضہ بھی کر لیا جسے بعد میں ہمارے دلیر سپوتوں نے دشمن کے قبضے سے چھڑا لیا۔

بھارت اپنی اس ''شکت'' پر ایک زخمی شیر کی طرح بپھر گیا اور بنا سوچے سمجھے بین الاقوامی سرحد کو پار کر کے اس نے رات کی تاریکیوں میں ہم پر جنگ مسلط کر دی، ورنہ ہم جنگ نہ چاہتے تھے۔ جنگ کو ہم نے نہ چاہتے ہوئے بھی قبول کیا۔ اس سے آگے جنرل ایوب کی تقریر دہرانا فضول ہے۔

دوسری طرف کا موقف سنیں تو وہ کہتے ہیں سجنو تے مترو! اپنی مطالعہ پاکستان سے باہر نکلو۔ کشمیر کا زیادہ تر حصہ اور تقریباً پورے کا پورا جموں ہی ہمارے پاس ہے۔ ہمیں کوئی ضرورت نہیں تمھیں خواہ مخواہ منہ لگانے کی۔ دوسری طرف کا موقف یہ ہے کہ ہماری جانب سے کشمیر میں مختلف لوگوں کو داخل کیا گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ آپ کو بار بار تنبیہ کی گئی تھی کہ اگر آپ میں شہادت کا جذبہ ہے تو اپنی دھرتی ماں پر ہم بھی مر مٹنے کو تیار ہیں، ہم کسی بھی صورت اپنی ماں پر آنچ نہ آنے دیں گے۔ وہ کہتے تھے کہ آپ کے لیے ہو گی یہ وادی نیلم، ہمارے لیے تو یہ بھگوان کشن اور گنگا کی وادی ہے اور اپنے کشن گنگا کی حفاظت ہم اپنی بیوی بچوں اور ماں باپ سے بڑھ کر کریں گے۔

مخالف پارٹی کہتی ہے کہ آپ کو بار بار سمجھانے پر جب آپ نہیں سمجھے تو پھر ہم نے آپ کو اچھا خاصا سبق سکھانے کے لیے نہ صرف لاہور پر حملہ کر دیا بلکہ ہم نے اپنے چھ سو ٹینک بھی چونڈہ کے محاذ پر بھیج دیے۔

اس سے آگے وہ ہمارا باقاعدہ مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی سرحد سے چونڈہ تک آ گئے اور تم لوگوں کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی۔ پھر ہمارا مزید مذاق اڑاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ تم لوگ ہم سے اتنا بے خبر تھے کہ سرحد پر اپنی نفری زیادہ کرنے اور چاقو چوبند رہنے کی بجائے، تم لوگ مزے کرتے رہے۔

باتیں تو بہت سی ہیں، کس کس پر اعتبار کریں مگر ایک بات جو سچ ہے وہ یہ کہ چونڈہ اور الہڑ میں گھمسان کی جنگ لڑی گئی تھی۔ نہ جانے کیوں جب بھارتی فوج سرحد پار کر رہی تھی تو کیوں نہیں رکی اور سرحد سے تقریباً 20 سے 25 کلومیٹر اندر کیسے آ گئی۔

سوال تو بہت سے کھڑے ہوتے ہیں کہ دشمن چونڈہ تک کیسے پہنچ گئے اور چونڈہ کو بھی چھوڑ دیا، دشمن تو بھاگتا لوڈیاں ڈالتا ہوا ''الہڑ'' تک پہنچ گیا تھا۔

1965 کی جنگ جو چونڈہ محاذ پر لڑی گئی، وہ بنیادی طور پر چونڈہ اور الہڑ میں لڑی گئی، بلکہ چونڈہ اور الہڑ کے ریلوے اسٹیشن پر لڑی گئی۔ یہ ہے تو عجیب بات مگر سچ یہی ہے کہ چونڈہ کا شہر اور الہڑ کا قصبہ، دونوں کا ریلوے اسٹیشن ہی عملی طور پر میدانِ جنگ بنا۔ الہڑ کے پرانے بزرگ جنھوں نے سن 65 کی جنگ دیکھی ہے، وہ بتاتے ہیں کہ یہ جنگ اس اعتبار بھی دل چسپ تھی کہ الہڑ میں ریل کی پٹری کے ایک طرف دشمن فوج تھی اور ایک ہم اور ہمارے جوان۔ یوں سمجھ لیں کہ ایک پٹری دشمن کے پاس تھی اور دوسری پٹری ہمارے پاس۔ یہاں دونوں افواج باقاعدہ آمنے سامنے ہو کر لڑیں تھیں۔

یہ 16 ستمبر 1965 کی صبح ہے۔ صبح کے تقریباً چھے بجے کا وقت ہے۔ رات کے اندھیرے میں 6 ستمبر کو لاہور سیکٹر پر حملہ ہوچکا ہے۔ یہ حملہ کیوں ہوا؟ اس بات کو فی الحال چھوڑیں۔ آپریشن جبرالٹر مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔

آپریشن جبرالٹر کیا تھا اور کیوں ناکام ہوا، اس بات کو بھی فی الحال چھوڑیں۔ آپریشن جبرالٹر کو ترتیب دینے والوں نے کیوںکر یہ نہ سوچا کہ اگر بھارت نے بین الاقوامی سرحد پار کر لی تو کیا ہوگا۔ چوںکہ یہ نہیں سوچا گیا، اس لیے کشمیر سے منسلک تقریباً تمام پاکستانی سیکٹرز پر صرف رینجرز تعینات ہیں۔

چونڈہ شہر اور چونڈہ سیکٹر کے درمیان تقریباً 20 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ چونڈہ شہر میں ہمارے جوان اپنے کچھ ٹینکوں کے ساتھ تعینات ہیں کہ 14 سمتبر کو خبر ملتی ہے کہ بھارت کی جانب سے نارووال / شکر گڑھ سیکٹر پر حملہ کر دیا گیا جس سے ''جیسڑ'' شہر کو شدید خطرہ ہے۔ جیسڑ شہر کو بچانے کے لیے چونڈہ سے ہی نفری بھیج دی جاتی ہے۔

آج 16 ستمبر ہے اور صبح کے چھے بجے ہیں۔ چونڈہ سیکٹر سے ہمارے رینجرز خبر دیتے ہیں کہ بھارت نے چونڈہ پر حملہ کردیا ہے۔ حملہ اتنا شدید ہے کہ ہم اسے روک نہیں سکتے۔ ہمارے رینجرز کے جوانوں نے جہاں تک ممکن ہوسکا۔

اس حملے کو روکنے کی کوشش کی مگر کالا ہاتھی فورس کو کون روکے؟ کالا ہاتھی فورس جو بھارت کا غرور ہے، جس میں 250 جدید ٹینک شامل ہیں۔

یہ 250 جدید ٹینک اپنے مکمل غرور کے ساتھ چونڈہ سیکٹر سے چونڈہ شہر کی جانب لڈیاں ڈالتا ہوا گام زن ہے کہ آج کون اسے روکے گا؟ کس میں وہ ہمت ہے کہ ان ٹینکوں کے سامنے کھڑا ہوسکے جب کہ دشمن کو یہ معلوم ہے کہ چونڈہ میں پاکستان کے صرف 44 ٹینک ہیں۔ دشمن کا ارادہ ہے کہ وہ چونڈہ سے ہوتا ہوا گوجرانوالہ جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ مکہ مکرمہ کا گرم دن ہے۔ ابرہہ جو ہاتھیوں کی فوج لیکر مکمل تیاری کے ساتھ آیا ہے۔ ابرہہ کے غرور کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ مکہ والوں نے کبھی ہاتھیوں کی فوج کا مقابلہ نہیں کیا۔ ابرہہ جسے یہ گوارا نہیں تھا کہ اس کے ہوتے ہوئے کسی اور کی تعظیم کی جائے اور پھر تعظیم بھی فقط ایک عمارت کی۔ ابرہہ کو یہ منظور نہیں کہ ایک عمارت اس کے مدِمقابل آئے۔ ابرہہ اس چھوٹی سی مستطیل نما عمارت کو اپنے ہاتھیوں کے ساتھ ڈھا دینا چاہتا ہے۔

ابرہہ اپنے ہاتھیوں کی فوج کے ساتھ مکہ کی سرحد سے باہر موجود ہے کہ شاید کو اس سے لڑنے کے لیے آئے گا مگر مکہ کا سردار عبدالمطلب مکمل خاموش اور پُرسکون ہے۔ یہ چیز ابرہہ کے غرور میں مزید اضافہ کرتی ہے اور کچھ انتظار کے بعد جب مکہ سے باہر کوئی بھی اس سے مقابلے کے لیے نہیں نکلتا وہ خود مکہ پر حملہ کرنے کے لیے اپنی فوج کو حکم دے دیتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔

آج 17 رمضان المبارک سن 2 ہجری ہے۔ بدر کا میدان ہے۔ مکہ سے ایک لشکر جس میں تقریباً ایک ہزار افراد، گھوڑے، اونٹ، تیر، سب اس وقت کے اعتبار سے سب سے جدید ہتھیار اس لشکر میں شامل ہیں، مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کے لیے آ رہا ہے کہ یہاں جو ایک چھوٹی سی ریاست قائم ہوچکی ہے، اسے نیست نابود کیا جائے۔ اس لشکر کو اپنی کام یابی کا اتنا یقین ہے کہ جنگ کے مکمل سامان کے ساتھ ساتھ فتح اور عیش و عشرت کا بھی مکمل سامان ساتھ ہے۔

۔۔۔۔۔۔

کیا آپ کو ان تینوں خاکوں میں یکسانیت نہیں لگتی؟ جن میں صرف تاریخیں ہی بدلی ہیں، کردار ہی بدلے ہیں مگر نتیجہ ایک ہی نکلا ہے۔

بھارت جو اپنی کالا ہاتھی فوج کے ساتھ چونڈہ پر حملہ آور ہوا تو بلاشبہ اسے نہیں روکا گیا، رینجرز میں استطاعت ہی کہاں تھی اس کو روکنے کی۔ چونڈہ محاذ پر پہلی باقاعدہ لڑائی 16 ستمبر 1965 کو چونڈہ ریلوے اسٹیشن پر لڑی گئی۔ ریلوے اسٹیشن کی جانب پاکستانی فوج تھی جب کہ سامنے کی جانب بھارتی افواج۔ یہاں مال گاڑی کا وہ ڈبا بھی موجود ہے جو اس وقت ہمارا ہیڈ کوارٹر بنا ہوا تھا، جس پر گولیوں کے نشان واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

چونڈہ شہر میں ہی دشمن کو روکنے کا ٹاسک بریگیڈیئر عبدالمک کو دیا گیا، مگر جب انھوں نے دیکھا کہ بھارت کے کالا ہاتھی فوج (250 ٹینک) کا مقابلہ ہمارے 44 ٹینک کسی صورت نہ کر سکیں گے تو انھوں نے اپنے جوانوں کو چونڈہ اسٹیشن پر جمع کیا۔ ان کے سامنے ساری حقیقی صورت حال رکھی اور اپنے دلیر جوانوں سے کچھ یوں خطاب کیا:

'' ہمارے 44 ٹینک کسی بھی صورت دشمن کی کالا ہاتھی فورس کا مقابلہ نہیں کر سکتے، مگر ہمیں دشمن کو ہر صورت چونڈہ میں روکنا ہے کیوںکہ اگر دشمن چونڈہ میں نہ رک سکا تو شاید آگے بھی اسے کوئی نہ روک سکے۔ ہمارے سامنے صرف اور صرف ایک ہی راستہ ہے۔ ہم اپنے سینوں پر بم باندھیں گے اور دشمن کے ٹینکوں کے نیچے لیٹ جائیں گے۔

زندہ بچ جانے کی کوئی صورت نہیں۔ آپ سے میں جو رضاکارانہ دشمن کے ٹینک کے نیچے بم باندھ کر لیٹنا چاہے، وہ جا سکتا ہے۔ کسی کو مجبور نہیں کیا جائے گا۔ ''

اور پھر دنیا نے دیکھا کہ جیسے ننھے ننھے ابابیلوں نے ابرہہ کی ہاتھیوں کی فوج کو بُھس بنا دیا، جیسے معاذؓؓ اور معوذؓؓ نے ابوجہل کا غرور خاک میں ملایا، بالکل اسی طرح ہمارے دلیر جوانوں نے اس کالا ہاتھی فوج کا اپنے سینوں پر بم باندھ کر مقابلہ کیا اور چونڈہ شہر کو بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا۔

حالاں کہ چونڈہ میری بالکل بغل میں تھا مگر نہ جانے کیوں کبھی اس جانب جانے کا خیال ہی نہ آیا کہ میرے نزدیک چونڈہ میں تھا ہی کیا؟ فقط شہداء کی چند قبریں؟ دشمن کے چھوڑے ہوئے چند ٹینک؟ اب یہ کوئی ایسی وجہ تو نہیں کہ اس جانب سفر کیا جائے۔

اب میرے اتنے بھی برے حالات نہیں کہ میں چند قبروں کے پیچھے اپنا ایک پورا دن برباد کر دیتا۔ میں کتنا غلط تھا. جنگِ ستمبر میں آمنے سامنے کی لڑائی دو ریلوے اسٹیشن چونڈہ اور الہڑ میں لڑی گئی تھی۔ الہڑ کا وہ میدان بھی دیکھ لیا جہاں دشمن کا اور ہمارا ٹکراؤ ہوا تھا۔ چونڈہ کا بھی وہ میدان دیکھ لیا جہاں ہمارے سورماؤں نے دشمن کے چھلکے چھڑا دئیے تھے مگر جب شہداء کی قبروں پر پہنچا تو نہ جانے وہاں کیا تھا، نہ جانے وہاں ایسی کونسی طاقت تھی جو سخت سے سخت دل کو بھی جکڑ لینے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔

سوچتا ہوں کہ شہادت کیا ہے، کیوں ہے؟ کون ہوتے ہیں وہ لوگ جو اپنے بیوی بچوں کو پیچھے چھوڑ کر گولیاں کھانے کے لیے میدانِ جنگ کا رخ کرتے ہیں۔

یہ جو میری سامنے قبریں تھیں، یہ سب پیٹھ پھیر سکتے تھے، اپنے بیوی بچوں، بوڑھے ماں باپ کے لیے گھر بیٹھ سکتے تھے مگر وہ میری طرح کے لوگ تو نہ تھے جو محض سردیوں میں لحاف لپیٹ کر اپنے تجزیے پیش کرنا شروع کردیتے ہیں۔

یہ تو عملی کام کرنے والے لوگ تھے کہ ان کو جب اس ملک کی مٹی نے پکارا تو ان لوگوں نے سوچے سمجھے بنا لیبک کہا اور اپنے لہو سے ان تمام شعلوں کو بجھا دیا تھا جو ہمارے آشیانے کو آگ لگانے کے لئے آئے تھے. یہ کتنے عجیب لوگ تھے، یہ لوگ کم از کم میرے سوچ سمجھ سے تو باہر تھے، مگر یہ لوگ تھے، بلکہ یہ لوگ ہیں اور اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور میرے رب کی طرف سے اپنا رزق پاتے ہیں مگر ہمیں اس کا شعور نہیں۔

چونڈہ میں سن پینسٹھ کے شہداء کے قبرستان کے ساتھ ہی ایک یادگار پارک بھی ہے جہاں دشمن کے چھوڑے ہوئے ہتھیار، کالا ہاتھی فورس کا ٹینک اور چند دوسری اشیاء بھی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم نے دشمن کو ننگے پاؤں یہاں سے بھاگنے پر مجبور کیا تھا۔

چونڈہ شہر کے بیچوں بیچ دو مندر بھی ہیں جنھیں آپ کسی مقامی کی مدد کے بنا نہیں دیکھ سکتے۔ دونوں مندوں کا صرف ایک ایک مینار ہی باقی ہے۔ ایک مندر باقاعدہ طور پر گھر کے اندر ضم ہو چکا ہے۔ گھر والوں کی مہربانی ہے کہ انھوں نے مندر کے مینار کو ابھی تک سنبھال کر رکھا ہے۔ دوسرا مندر ایک پتلی سی گلی میں ہے جس کے دروازے پر تالا پڑا ہے۔

اور لوگ دور سے ہی نشانہ لے کر کچرا مندر میں پھینک دیتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں