سارے رنگ

برکھا دَت سے جاوید اختر تک۔۔۔!


Rizwan Tahir Mubeen March 05, 2023
فوٹو : فائل

برکھا دَت سے جاوید اختر تک۔۔۔!

خانہ پُری
ر ۔ ط ۔ م

گذشتہ دنوں ممتاز ہندوستانی نغمہ نگار جاوید اختر لاہور میں منعقدہ فیض ادبی میلے میں تشریف لائے، اور بدقسمتی سے بہ جائے پاک وہند امن اور دوستی کی بات کرنے کے، سیاسی اور تلخ الزامات عائد کر کے چلے گئے۔

انھوں نے کہا 'ہم نے تو وہاں نصرت فتح علی خان اور مہدی حسن کے بڑے بڑے فنکشن منعقد کیے، لیکن یہاں لتا منگیشکر کا ایک بھی پروگرام نہیں ہوا۔' پھر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ 'چلیے ہم ایک دوسرے کو الزام نہ دیں۔

اب یہ جو خراب فضا ہے یہ ختم ہونی چاہیے' لیکن پھر اسی سانس میں ممبئی حملوں کا تذکرہ بھی کرنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان حملوں کے ذمہ دار یہاں آزادانہ گھوم رہے ہیں!

جاوید اختر کی اِس گفتگو پر لاہور میں منعقدہ 'فیض میلے' میں کوئی آواز اٹھنا تو درکنار اس پر نہایت پرجوش تالیاں بجائی گئیں، جو کہ بالکل ایک علاحدہ ہی باب ہے۔

ایسی ہی کچھ 'تالیوں' پر تو کراچی کے سیاسی کارکنان پر 'غداری' کے مقدموں کی بازگشت تو آج بھی سنائی دیتی ہے، لیکن بقول شخصے کہ شاید ڈومیسائل کا فرق یہاں بھی سامنے آیا ہے! خیر، بات کسی اور سمت نکل جائے گی، سو اِسے پھر کسی وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں اور اپنے اصل موضوع کی جانب واپس آتے ہیں۔

ہمیں ممتاز شاعر جاوید اختر صاحب کی اس گفتگو کو سن کر یکا یک 2016ء کا 'کراچی ادبی میلہ' یاد آیا، جہاں ہم بھی شریک ہوئے اور وہاں ہندوستان کی معتدل مزاج کی صحافی برکھا دَت بھی مدعو تھیں، اور غازی صلاح الدین سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بھی کم وبیش ہندوستانی سرکار ہی کا موقف پیش کیا تھا اور انھیں اس بات پر بھی اعتراض ہوا تھا کہ یہاں پانچ فروری کو 'یک جہتی کشمیر' کے بینر کیوں لگے ہوئے ہیں۔

انھوں نے بھی جاوید اختر کی طرح امن کی خواہش کرنے کے ساتھ ساتھ ایسی ہی 'شکایات' کی تھیں کہ پاکستان نے یہ کیا اور پاکستان نے وہ کیا۔ یہاں ہم ایسی کسی بحث میں پڑنا ہی نہیں چاہتے، یہ مسائل اور تنازعات نمٹانا دونوں جانب کی سرکاروں کا ذمہ ہے۔ اہل قلم واہل فن کو تو چاہیے کہ وہ کم سے کم اہل سیاست کی ایسی زبان بولنے سے گریز کریں۔ پھر شعرو ادب سے وابستہ افراد تو امن اور محبت کے عَلم بردار ہوتے ہیں۔

انھیں اس سیاسی موشگافیوں میں اس طرح الجھنا ہی نہیں چاہیے، ورنہ خود بتائیے کہ آپ میں اور سیاسی کارکنان میں کیا فرق رہ گیا۔ یہ درست ہے کہ جاوید اختر صاحب، آپ سیاست کا بھی حصہ ہیں، تو کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ وادیٔ سیاست میں کوئی شعر وادب کی لطافت پہنچاتے، آپ تو الٹا سیاست کی تلخیوں اور متنازع امور ہی میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔

جاوید اختر صاحب، جواب تو پھر ہمارے پاس بھی کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں سے سانحۂ سمجھوتا ایکسپریس، بھارتی جاسوس کلبھوشن اور ہماری حدود میں اتر آنے والے بھارتی لڑاکا پائلٹ ابھینندن تک بھی بہت ہیں، لیکن ہم بہ حیثیت صحافی اور اہل قلم کی قبیل سے کچھ قربت اور نسبت رکھنے کے تعلق سے آپ سے یا آپ جیسے شعرا اور ادیب یا ادب دوست عوام کی محفلوں میں کبھی ان تلخیوں کو نہیں چھیڑیں گے۔۔۔ کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ بہت سی مجبوریاں بھی ہوتی ہیں اور بہت سی تلخیاں بھی، جو ہمارے بس میں نہیں ہوتیں، لیکن اس طرح کی گفتگو میں نکل آتی ہیں یا ہمارے آڑے آتی ہیں۔

پھر ہم عوام کیوں ریاستی الزامات کے پرچارک بنیں، جب کہ ہم اس کے کسی طرح سے بھی ذمہ دار نہیں ہیں، تو پیارے جاوید اختر صاحب! پہلے کی طرح آپ کے اردو رسم الخط کو کم اہمیت دینے اور اردو کو پاکستان پر مسلط کیے جانے جیسے سنگین اختلافی خیالات اور حالیہ 'فیض میلے' کے نہایت غیرمناسب اور بے موقع کلمات کے باوجود آپ کے شعر وادب کے تعلق سے آپ کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور کسی بھی اشتعال اور شدید ردعمل میں آئے بغیر آپ سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ خدارا، سیاسی معاملات سیاست کرنے والوں کے لیے رکھ چھوڑیے اور جیسے ہم اپنے عوام کی امن پسندی کی نمائندگی کرتے ہیں، ایسے ہی آپ اپنے ہاں کے امن پسند عوام کے ذریعے باہمی ساجھے داری اور رواداری کی باتیں کیا کیجیے۔

اور ہر گز ریاست کے الزامات اور نفرت کی سیاست کے پرچارک نہ بنیے۔۔۔ کہ آپ تو شعروادب کے شہ سوار ہیں، جہاں صرف امن و محبت ہی کے گُل کھلتے ہیں، اس لیے براہ کرم اس فصلِ گُل کو باہمی سیاسی تناؤ اور دشنام طرازی سے آلودہ نہ کیجیے۔

ہمارا یہی پیغام سرحد کے اِس جانب کے ایسے 'مشتعل' ادبی وعلمی اور عوامی حلقوں سے بھی ہے کہ وہ اگر دوسری جانب کی عوام سے بات کیجیے، تو ریاستی الزامات کبھی نہ دُہرائیے، کیوں کہ عوام یقیناً ایسے کسی بھی امور کے ذمہ دار نہیں ہوتے، تو ان کے روبرو ایسی باتیں سوائے تلخیوں کو فروغ دینے کے اور کوئی کام نہیں کرتی۔

۔۔۔

''انسان ''

مہرو امامہ نور

میرے ذہن کے دریچوں میں اکثر یہ سوال سر اٹھاتا ہے کہ انسان کیا ہے؟

شاید ایک سوال ہی تو ہے انسان ، کبھی ناحل ہونے والا ایک پیچیدہ سوال!

پھر کبھی سوچتی ہوں کہ شاید ایک سوچ ہے!

بلکہ نہیں ، انسان شاید۔۔۔ معلوم نہیں، کیا ہے یہ!

''ذہن'' سمجھنے سے قاصر پاتی ہوں!

ہاں شاید، انسانی وجود کی عمارت میں ''ذہن'' ہی بنیادی ستون ہے۔

ذہن۔۔۔ یا شاید انسان محض ایک ''کن'' ہے، اسی کے نور کا ایک حصہ جو ہزارہا سمندروں سے بھی کہیں زیادہ وسعتیں سمیٹے ہوئے ہے۔

یا شاید انسان بطور نائب ایک امر ہے، جو بہ مطابق اس رب کے حکم کے، اسی کے مشن کی تکمیل کی غرض سے یعنی معرکۂ حق وباطل میں حق کی سرخ روی کی غرض سے مبعوث کیا گیا۔

لفظ نہیں میرے پاس، کیسے بیان کروں اس اسرار کو؟

مجسم تخیل۔۔۔ شاید انسان ایک خیال ہے ''شعور۔''

وہ خام شعور، وہ جزو جو اپنے کل کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے ہر دم۔

تخیل و فکر بھی ایک خاص حد کے بعد بالآخر ٹھیر جانے میں ہی عافیت جانتے ہی جب سرپٹ میلوں مسافت طے کرچکنے کے بعد بھی تہی دامن رہ جاتے ہیں۔

پھر اس فکری تگ و دو سے ہارے ہم جیسوں کے لیے پناہ صرف اس ذات کی بارگاہ میں موجود ہوتی ہے، جہاں ذہن و دل پہ چھائے تمام پردے چھٹ جاتے ہیں۔ وہ ذات جس نے اس ذرۂ خاکی کو افلاکی صفات سے آراستہ کیا اور تمام مخلوقات میں فضیلت بخشی! تخلیق انسان پر بھی جب جب نظر دوڑائیں تو سوائے غرقِ بحرِحیرت ہونے کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

۔۔۔

ســچ

رئیس امروہوی

٭ دنیا بھر سے سوچ بولو سوائے اپنی بیوی کے۔

٭ دنیا میں ہر جھوٹ پر یقین کیا جاسکتا ہے بشرطے کہ کہنے والا سچا ہو۔

٭ لوگ اگر غلط بیانی سے خوش ہوتے ہیں تو پھر غلط بیانی ناگزیر ہے۔

٭اگر تم خرافات کو سجا بناکر پیش کرسکتے ہو، تو پھر تم سے بہتر ادیب کوئی نہیں۔

٭حقائق کے مقابل اوہام پر ایمان لانا زیادہ دل کش طریقہ کار ہے۔

٭ جب کبھی عقل اور بھینس کی بڑائی کے درمیان مناظرہ ہوتو عقل کا تقاضا یہ ہے کہ بھینس کی تائید کرو۔

٭عقل اور صداقت کے درمیان ابدی بیر ہے۔

۔۔۔

ســچ

رئیس امروہوی

٭ دنیا بھر سے سوچ بولو سوائے اپنی بیوی کے۔

٭ دنیا میں ہر جھوٹ پر یقین کیا جاسکتا ہے بشرطے کہ کہنے والا سچا ہو۔

٭ لوگ اگر غلط بیانی سے خوش ہوتے ہیں تو پھر غلط بیانی ناگزیر ہے۔

٭اگر تم خرافات کو سجا بناکر پیش کرسکتے ہو، تو پھر تم سے بہتر ادیب کوئی نہیں۔

٭حقائق کے مقابل اوہام پر ایمان لانا زیادہ دل کش طریقہ کار ہے۔

٭ جب کبھی عقل اور بھینس کی بڑائی کے درمیان مناظرہ ہوتو عقل کا تقاضا یہ ہے کہ بھینس کی تائید کرو۔

٭عقل اور صداقت کے درمیان ابدی بیر ہے۔

۔۔۔

''پاکستان کا نصاب تعلیم یورپ اور امریکا کو اہم بناتا ہے''

حکیم محمد سعید

میرے عظیم نونہالو! تم ایک نکتہ یاد رکھنا۔ میں خوب جانتا ہوں کہ تم اپنے اسکول میں جو کتابیں پڑھ رہے ہو اس اعتبار سے ناقص ہیں کہ ان میں تم کو اسلامی تہذیب، اسلامی تمدن، اسلامی ثقافت کا کوئی درس نہیں مل رہا ہے۔ پھر جو استاد تم کو پڑھا رہے ہیں ان بے چاروں کو خود اسلامی تہذیب و تمدن کا کوئی علم نہیں ہے۔ نہ وہ اسلامی ثقافت کو جانتے ہیں۔

بنیادی طور پر یہ ان بدقماش سیاست دانوں کا قصور ہے جن کے نزدیک تعلیم پہلی نہیں آخری چیز ہے۔ تعلیم کا محکمہ گزشتہ چار دہائیوں سے نااہل لوگوں کے سپرد ہے۔

وزارت تعلیم، جہاں تعلیم کا نصاب اور نظام بنتا ہے اس میں بیورو کریٹوں کی خریداریاں ہوتی ہیں۔ دشمن خریدار پاکستان میں اسلامی تہذیب و تمدن اور ثقافت کبھی نہیں آنے دے گا۔

دشمن پورے تسلسل کے ساتھ اور پوری مکاری اور مہارت کے ساتھ نصاب تعلیم کو ایسا رکھنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے نونہال کو اور نوجوان کو اپنی تاریخ کا ہوش نہ آنے پائے۔ پاکستان کا نصاب تعلیم یورپ اور امریکا کو اہم بناتا ہے۔ وطن کے نونہال امریکا اور یورپ کو بڑا پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔

۔۔۔

''سیــلفی میــلہ''

کرن صدیقی، کراچی

پھولوں کی نما ش کا آخری دن تھا۔ شمع اپنی دوست نمرہ کے ساتھ نمائش دیکھنے آئی۔ پھولوں کا ایک گچھا اتنا خوب صورت تھا شمع وہاں رک کر پھولوں کے ساتھ 'سیلفی' لینے لگی۔ کچھ فاصلے سے گزرتی چار پانچ لڑکیاں یہ دیکھ کے طنزیہ مسکرانے لگیں۔ ایک نے بہ آوازِ بلند کہا

''نما ش نہیں سیلفی میلے میں آئے ہیں لوگ۔''

شمع نے کو جواب نہیں دیا اور آگے بڑھ گئی حالاں کہ نمرہ کو یہ تبصرہ بہت برا لگا تھا۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی، لیکن شمع اسے کھینچ کے آگے لے گئی۔ دونوں نے نمائش کے پھولوں کی خوب صورتی کو اپنے کیمرے کی آنکھ میں قید کیا۔ تصویر اور 'سیلفی' کی صورت۔ سیر کرتے کرتے کچھ تھکن کا احساس ہوا، تو ایک طرف بنے ہوئے فوڈ کارنر سے کولڈ ڈرنکس اور اسنیکس سے خود کو تازہ دم کیا اور پھر مزید پھول دیکھنے چل پڑیں۔ ایک جگہ انھی لڑکیوں کا گروپ 'سیلفی' لیتا ہوا نظر آیا۔ نمرہ سے رہا نہ گیا۔ ایک طنزیہ مسکراہٹ ان کی طرف اچھالی اور بظاہر سرگوشی میں شمع سے کہا '' عالمی سیلفی میلہ ''

یہ سرگوشی اتنی بلند ضرور تھی کہ ان لڑکیوں کے کانوں تک پہنچ گئی ۔ وہ ہی معترض لڑکی چمک کر بولی۔

''ہاں یہ تو یادگار موقع کی یادگار تصویریں ہوتی ہیں!''

شمع نے سوچا ہم سیلفی لیں تو طنز کا نشانہ اور یہ سیلفی لیں تو یادگار، واہ بھئی واہ۔

۔۔۔

افسانچہ
اصل محرومی
محمد عثمان جامعی
ایک دن اسے گھر سے نکال دیا گیا
کیوں کہ وہ عورت تھا نہ مرد
یہ حقیقت عمر کے پندرہویں برس میں وہ بھی جان گیا تھا
لیکن دہلیز سے دھکیلے جاے سمے اُس پر اس سے بھی بڑا سچ منکشف ہوا
یہ کہ
وہ تو
اولاد بھی نہیں تھا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔