چند روز اور میری جان
آج کی حکومت پی ڈی ایم اور بالخصوص ن لیگ کا بھی یہی رونا ہے کہ ہم نے تو ملک کی خاطر چلتے بیلن میں ہاتھ دیا تھا
معذرت، آپ کی ورکنگ پر کام نہیں کر سکا، جانے سے پہلے مصروفیات اس قدر ہیں کہ وقت نہیں نکال پاؤں گا۔ہم نے روٹین میں تسلی دی ، کوئی بات نہیں، واپس آ کر دیکھ لیجیے گا، واپسی میں کتنے دن لگیں گے؟ دوسری جانب قدرے توقف کے بعد انجینئر کامران نے جواب دیا، فی الحال واپسی کا سین نہیں ہے، مستقل باہر شفٹ ہونا پڑ رہا ہے۔ کامران کی بات اور شکستہ لہجے نے رنجیدہ کر دیا۔
کامران کو ہم پچھلے کئی سال سے جانتے ہیں، لاہور کی ایک سیلف میڈ فیملی سے تعلق ہے۔ کامران نے ملک کے ایک بہترین تعلیمی ادارے سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی ، چند بڑی کمپنیوں میں ملازمت کی لیکن اب پچھلے چار چھ سال سے پریشانی ہے کہ تجربے اور تعلیمی قابلیت کے مطابق ملازمتیں بہت کم اور ترقی کے مواقع اس سے بھی کم ہیں۔
دو ستوں کے ساتھ مل کر ایک کمپنی بنائی، چند ایک اچھے پروجیکٹس کرکے کمپنی کی ساکھ بنائی مگر اب دو اڑھائی سال سے نئے پروجیکٹس نہیں آرہے۔ تنگ آکر فیصلہ کیا کہ میرا پوٹینشل ضایع ہو رہا ہے۔ میرے کلاس فیلوز مجھ سے کہیں بہتر جا رہے ہیں۔ جو باہر نکل گئے، وہ اب ٹھیک ٹھاک سیٹل ہیں اور میں پندرہ سال کے تجربے کے بعد بھی خوار ہو رہا ہوں، کیا کروں؟ اور کتنا صبر کروں؟
انجینئر کے بعد ایک آئی ٹی ایکسپرٹ ازلان کی بھی سنئے؛ عجیب تماشا ہے، میری ایک چھوٹی سی آئی ٹی کمپنی ہے، امریکا کے چند کلائینٹس کے لیے سافٹ وئیر ڈویلپمنٹ کا کام کرتے ہیں۔
ابھی نیا نیا کام ہے، امریکی وقت کے ساتھ کام کرنے کی مجبوری میں رات رات بھر جاگ کر کلائنٹس سے نمٹنا پڑتا ہے ، دن کو اپنی ٹیم کے ساتھ سر کھپائی، کوئی کام کرنے کو راضی نہیں۔ اِدھر ذرا آپ سے چوک ہوئی تو دوسری طرف کام کا حشر نشر۔ اوپر سے نخرے الگ، ریٹ ڈالرز فی گھنٹہ طے ہے۔ اتنی محنت کے بعد سروسز کی ادائیگی ڈالرز میں آتی ہے تو سمجھ نہیں آتا ریٹ کیا لگے گا!
چند ہفتے پہلے ڈالر کا ریٹ 276 روپے تھا، اسی ہفتے کے دوران ریٹ 268 ہو گیا اور اسی شرح سے رقم اکاؤنٹ میں جمع ہوئی مگر وینڈرز نے 276 روپے شرح پر اصرار کیا، نقصان اٹھا کر جان چھڑائی۔ رواں ہفتے کے آغاز پر ریٹ 262 تھا۔ باہر سے پے منٹ آئی تو اگلے دن اسی شرح سے روپوں میں تبدیل کروا لی۔ اب جمعرات کو وہی ڈالر 286 تک جا پہنچا۔ اب بتائیں، بندہ کیا کرے۔ہم آئی ٹی کے لوگ ہیں ، یہ انٹر بینک کی تیزی مندی ہماری سمجھ سے باہر ہے، ہم تو چکرا کر رہ گئے ہیں۔
چکرا نا تو بنتا ہے، اس ہفتے اٹلی کے ساحل کے نزدیک یورپ میں غیر قانونی داخلے کی کوشش میں کشتی الٹنے سے 63 مسافر جان سے گئے۔
جن میں پانچ پاکستانی بھی شامل تھے ، دو سو کے لگ بھگ مسافروں سے لدی اس کشتی میں پاکستانی، افغانی، ایرانی بھی شریکِ سفر تھے ۔ یوں تو ملک سے ہجرت کرکے پردیس میں جا بسنے والوں کی ہمیشہ اچھی خاصی تعداد رہی ہے لیکن گزشتہ چند سالوں سے اس تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ کیوں؟ بہت سی وجوہات ہیں لیکن نمایاں وجوہات معاشی مواقع کی کمی اور ناامیدی۔
نئی انڈسٹری تو کیا لگے پہلے سے جاری صنعتی یونٹس کو بجلی گیس، سیلز ٹیکس، لیبر سمیت بے تحاشا حکومتی ادارے چھٹی کا دودھ یاد دلانے پر مامور ہیں۔ قانون اور ضوابط کی دھونس سے بات مُک مُکا پر لائی جاتی ہے، وہی افسران جو بات بات پر انڈسٹری بند کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں، مٹھی گرم ہونے کے بعد شانت ہو جاتے ہیں۔ سالوں سے جاری ڈی انڈسٹریالائزئشن کا عمل اب رہی سہی امید بھی ختم کر رہا ہے ۔
غیر قانونی امیگرینٹس میں بڑی تعداد گجرات، کھاریاں اور جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتی ہے جہاں غربت اور معاشی مواقع بہت کم ہیں ، ان علاقوں سے بہت سے لوگ قانونی یا غیر قانونی انداز میں باہر جا بسے ہیں۔ پیچھے رہ جانے والوں کو لگتا ہے کہ وہ جنت مکان باہرموجیں کر رہے ہیں اور یہ یہاں مشکلات کا تندور جھونک رہے ہیں۔
ان حالات میں انسانی اسمگلروں کے لیے ایسے لوگوںکی کمی نہیں جو جان اور مال ہتھیلی پر رکھ کر زندگی موت کی آنکھ مچولی کے سفر پر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انھیں اگر ملک میں معاشی مواقع کی امید ہوتی تو انھیں اٹلی کے ساحل پر بے موت مارے جانے یا گرفتار ہو کر جیلوں کا ایندھن بننے کی کیا مجبوری تھی ؟
مجبوری یہ ہے کہ جو مقتدر اشرافیہ ان کے مقدر کی ذمے دار ہے ، ان کی ترجیحات اور جنون دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ انھیں اپنے مفاداتی حصار کے باہر کچھ دکھائی بھی دیتا ہے۔
انھیں اگر کچھ سُجھائی بھی دیتا ہے تو یہ کہ انھوں نے اقتدار کی کھیر اتنے جتن سے پکائی تھی لیکن عین وقت پر اپوزیشن ٹپک پڑی۔ کل کے حاکم اور آج کی اپوزیشن پی ٹی آئی کو یہ شکایت ہے کہ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لیے روٹس اور سیکیورٹی پلان تیار تھا کہ انھیں عین موقع پر تخت سے اٹھا کر تختے پر پٹخ دیاگیا ۔
دوسری طرف کل کی اپوزیشن اور آج کی حکومت پی ڈی ایم اور بالخصوص ن لیگ کا بھی یہی رونا ہے کہ ہم نے تو ملک کی خاطر چلتے بیلن میں ہاتھ دیا تھا۔ اب یہ عالم ہے کہ معیشت سنبھل رہی ہے اور نہ سیاست، ماضی کی کامیابیوں کے قصے اب ڈراؤنے خواب بن کر سامنے ہیں۔
سوشل اور مین اسٹریم میڈیا کی رونق انھی دو بیانیؤں کی چیخ چنگھاڑ ہے۔ لیکن دوسری طرف کا المیہ یہ ہے کہ انجینئر کامران ہو ، آئی ٹی پروفیشنل ازلان ہو یا اٹلی کے ساحل پر بے موت مارے جانے والے مسافر، ان کی امیدیں ٹوٹ رہی ہیں، انھیں دلاسہ دیں تو کیا، امید بندھائیں تو کیا؟ ہم فیض احمد فیض کی سی رجائیت کے مالک نہیں کہ یہ کہہ سکیں:
یہ تیرے حسن سے لپٹی ہوئی آلام کی گرد
اپنی دو روزہ جوانی کی شکستوں کا شمار
دل کی بے سود تڑپ، جسم کی مایوس پکار
چند روز اور مری جان، فقط چند ہی روز