نوجوان اپنی بربادی کا شور کیوں مچا رہے ہیں

کتاب پر موبائل فون اور فضول تفریح کو ترجیح ہو گی تو پھر۔۔۔


Rana Naseem April 14, 2014
کامیابی کے لئے والدین اور حکومت کے ساتھ نوجوان کو بھی اپنا رویہ بدلنا ہوگا۔ فوٹو: فائل

بلاشبہ قوموں کی مجموعی کامیابی یا ناکامی میں نوجوان طبقہ ہمیشہ سے کلیدی ادا کرتا آیا ہے اور کرتا رہے گا۔ جس ملک یا قوم کا نوجوان بگڑ جائے پھر کوئی زمینی طاقت اسے ترقی سے ہمکنار نہیں کرسکتی۔

اسی لئے دنیا کی ترقی یافتہ قومیں اور ملک معاشرے کی ترقی، استحکام اور امن کے قیام کے لئے اپنے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے لئے خاص اقدامات کرتے ہیں کیوں کہ اگر نوجوان درست ڈگر سے ہٹ جائیں تو معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے اور ترقی کی رفتار بھی رک جاتی ہے۔ بدقسمتی! سے ہمارا نوجوان وطن عزیز کے ابتر معاشی و معاشرتی حالات کے گرداب میں پھنس کر رہ گیا ہے۔ آج کل ہمارے نوجوانوں کا سرورق اس قدر درد ناک ہے کہ کتاب کھولنے سے پہلے ہی دل ڈولنے لگتا ہے۔ مختلف اعداد و شمار اور معاشرتی چلن کو سامنے رکھتے ہوئے ہم پاکستان کی نوجوان نسل کو تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

٭ کچھ کے ہاتھوں میں گٹار

٭ کچھ کے ہاتھوں میں ہتھیار

٭ باقی ہتھیار اور گٹار کے دوراہے پر کھڑے بیر وزگار

ہر چہرہ اپنی بے بسی کا عملی نمونہ پیش کر رہا ہے اور یہاں تک کہ عملی صلاحیت سے مستفید ہونے والا نوجوان بھی روزگار نہ ملنے کے سبب مالی مشکلات سے دو چار ہے۔ یوں ان نوجوانوں نے مشکلات سے نمٹنے کے لیے اپنی سوچ کا دھارا تبدیل کر لیا تاکہ پیٹ کی آگ کو بجھایا جا سکے۔ نوجوان نسل نے منشیات اور اسمگلنگ کا دھندا اختیار کیا اور ذلت و رسوائی کا راستہ اپنا کر من کی آگ کو بجھانا چاہا، جس میں کامیابی بھی ناکامی کی بدترین صورت ہے۔



اس سے انکار نہیں کہ پاکستان کا نوجوان طبقہ حق تلفی، محرومیوں اور پریشانیوں کا شکار ہے لیکن سوال یہاں یہ ہے کہ یہ تمام مصائب کوئی قدرتی آفت ہیں یا اپنے ہاتھوں سے بوئے بیج ہی کاٹے جا رہے ہیں؟ روزگار اور اچھی تعلیم و تربیت کے مواقع اور صلاحیتوں کے اظہار کے لئے والدین اور حکومت کا اپنے فرائض سرانجام دینا ضروری ہے تاہم نوجوانوں کی بھی تو کچھ ذمہ داری بنتی ہے یا نہیں؟۔ شوخ و چنچل منچلوں کا روپ دھارے ہمارے نوجوانوں کی اکثریت اپنے ذہنی انتشار اور پریشانیوں سے نکلنے کے لئے مختلف جائز و ناجائز ذرائع کا سہارا لیتی ہے۔ نوجوانوں کی ترقی میں والدین یا حکومت نے اپنے فرائض پورے نہیں کئے تو اس طبقہ نے بھی خود کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ ترقی یا کامیابی کے لئے ضروری نہیں کہ صرف حکومت یا والدین کے اثاثہ جات پر ہی انحصار کیا جایا۔ اپنے اردگرد سرسری سا جائزہ لینے سے یہ بات بالکل عیاں ہو جائے گی کہ نوجوانوں (استثنیٰ کے ساتھ) کے مشاغل ہی دراصل ان کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔

تعلیم سے زیادہ کپڑے، جوتے، سمارٹ فونز، آئی فونز، لیپ ٹاپ، انٹرنیٹ، موٹرسائیکلنگ، ون ویلنگ، میوزک، تفریح کو ترجیح دینے کے بعد ناکامی کا رونا نہیں رویا جا سکتا۔ فضول اور بے جا دوستیوں میں وقت کے ضیاع کا خمیازہ بالآخر ناکامی کی صورت میں ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ کتاب کے بجائے موبائل فون سے زیادہ پیار کرنے والے تعلیمی پسماندگی یا تعلیمی سہولیات کے فقدان کا ڈھنڈورا نہیں پیٹ سکتے۔ فراغت کا لطف اٹھانے کے لئے قیمتی وقت کو ٹی وی اور خوش گپیوں میں صرف کرنے والوں کو پھر زندگی میں کچھ بھی اہم یا بڑا کرنے کی خواہش نہیں پالنی چاہیے۔ کامیابی کے لئے سب سے پہلے نوجوان کو خود فیصلہ کرنا ہے کہ آیا اس نے اپنے یا دوسروں کے لئے کچھ اچھا کرنا ہے یا زندگی کو سگریٹ کے دھویں میں ہی اڑا دینا ہے؟۔

خود کچھ بننے کی تڑپ رکھنے والا محنتی کبھی ناکام نہیں ہوتا، گو کہ وطن عزیز میں لاکھوں پڑھے لکھے نوجوان بے روزگاری اور اپنی زندگی سے تنگ آ چکے ہیں لیکن مثبت سوچ کے ساتھ خود پر بھروسہ سے ان میں اچھی خاصی کمی لائی جا سکتی ہے۔ خلوص سے کی گئی کوشش یا محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی اور انہیں بنیادوں پر زندگی کی بھرپور کامیابیاں سمیٹنے والوں کی پاکستان سمیت دنیا بھر میں لمبی لمبی فہرستیں موجود ہیں۔ ''گُدڑی کا لعل'' جیسے زبان زد عام محاورے انہی لوگوں کی وجہ سے وجود میں آئے۔ وطن عزیز میں ایسی ہزاروں، لاکھوں شاندار مثالیں موجود ہیں کہ مثبت سوچ اور خلوص کی چھتری تلے کی جانے والی محنت کے بل بوتے پر غریب کا بچہ بھی زمین سے اٹھ کر آسمان پر پہنچ گیا۔



سائیکل پر سفر اور چھڑی پکڑ کر لوگوں کی حفاظت کرنے والے والدین کے بچے ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں یا مناصب پر براجمان ہوئے۔ نوکری یا چھوٹا موٹا کاروبار بھی نہیں تو ایک پڑھا لکھا نوجوان ٹیوشن پڑھا کر ضرور اپنی کفالت کر سکتا ہے۔ اور آج کل ایک بھی پیسہ لگائے بغیر جتنی آمدن ٹیوشن پڑھانے کے ذریعے حاصل ہو رہی ہے، اتنی شائد کسی کام میں نہیں۔ لہٰذا زندگی میں کامیابی یا ناکامی حاصل کرنے کا فیصلہ سب سے پہلے نوجوان کو خود کرنا ہے کہ اس نے اپنا قیمتی وقت موبائل فونز اور فراغت کے لطف اٹھانے میں ضائع کرنا ہے یا محنت کرکے، خود کو کچھ تکلیف دے کر نہ صرف اپنے بلکہ معاشرے کے لئے بھی کارآمد بننا ہے۔ تعلیم کی طرف خصوصی توجہ اور کسی بھی ہنر میں مہارت کا حصول نوجوان کی حقیقی مقاصد کی تکمیل کے لئے ناگزیر ہے۔

آج کا نوجوان جن مسائل اور ناکامیوں میں گھرا ہے، اس سے والدین کو بھی مکمل استثنیٰ نہیں مل سکتا، کیوں کہ بچے کی ذہنی و جسمانی تربیت کی پہلی درس گاہ والدین ہی ہوتے ہیں۔ ایک نوجوان کے اندر نوجوانی کے ایام، بالخصوص اس دور کی ابتدا میں بہت سی خواہشات ہوتی ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ چونکہ اس کی نئی شخصیت کی تعمیر ہو رہی ہوتی ہے لہذا وہ مائل ہوتا ہے کہ اس کی اس نئی شخصیت کو با قاعدہ تسلیم کیا جائے جبکہ اکثر و بیشتر ایسا نہیں ہوتا اور والدین نوجوان کی نئی شخصیت اور شناخت کو تسلیم نہیں کرتے۔ دوسرا یہ کہ نوجوان کے اندر اپنے الگ قسم کے احساسات و جذبات ہوتے ہیں، اس کی روحانی و جسمانی نشوونما ہو رہی ہوتی ہے اور اس کے قدم ایک نئی وادی میں پڑ رہے ہوتے ہیں، اکثر و بیشتر یہ ہوتا ہے کہ ارد گرد کے لوگ، خاندان کے افراد اور معاشرے کے لوگ اس نئی وادی اور نئی زندگی سے ناآشنا ہوتے ہیں یا پھر اس پر توجہ ہی نہیں دیتے۔

ایسے میں نوجوان میں احساس تنہائی اور اجنبیت پیدا ہونے لگتی ہے۔ نوجوان کے اندر توانائی اور انرجی بھری ہوتی ہے، جس کے ذریعے اس میں کرشماتی کام سرانجام دینے کا احساس شدت اختیار کر جاتا ہے، وہ پہاڑوں کو ان کی جگہ سے ہٹا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس کی اس توانائی اور انرجی سے استفادہ نہیں کیا جاتا، نتیجے میں اسے لگتا ہے کہ وہ عبث اور بے کار گھوم رہا ہے۔ اسے زندگی کے بہت سی ایسی تبدیلیوں کا سامنا ہوتا ہے جن کے بارے میں اسے نہیں معلوم کہ کیا کرنا چاہئے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ اسے کسی رہنمائی کرنے والے اور راستہ بتانے والے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب ماں باپ کی چونکہ مصروفیات زیادہ ہیں تو وہ نوجوان پر توجہ نہیں دے پاتے اور اس کی فکری مدد کرنے سے قاصر رہتے ہیں تو ایسی صورت میں نوجوان کے درست راستے سے بھٹک جانے کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔

ہماری نوجوان نسل کے ناکارہ پن، بے روزگاری اور نتیجتاً انہیں مجرم بنانے میں بہت بڑا ہاتھ حکومتی پالیسیوں کا بھی ہے۔ بدقسمتی! سے پاکستان میں کئی دیگر حساس معاملات کہ طرح نوجوانوں کے مسائل کے حل کے لئے بھی واضح منصوبہ بندی کی ہمیشہ سے کمی رہی ہے، جس کے باعث وہ نہ صرف اپنی صلاحیتوں کو صحیح معنوں میں استعمال نہ کر سکے بلکہ ان میں سے اکثر ایسی راہ پر چل نکلے جو ان کی اور ملک کی بہتری کیلئے کسی طور مناسب نہ تھی۔ یہ بات بے حد خوش آئند ہے کہ مئی 2013ء کے انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں نے خصوصی طور پر نوجوانوں کو متحرک کرنے کا فریضہ سرانجام دیا، جس کا فائدہ یہ ہوا کہ نوجوانوں کو اپنے ملک کے مسائل سے آگاہی ہوئی۔

پھر موجودہ حکومت نے بھی نوجوانوں کے جذبہ عمل کو مزید متحرک کرنے کے لئے خصوصی پروگرامز شروع کرنے کے اعلانات کئے ہیں، جو خوش آئند ضرور لیکن نوجوانوں کو صلاحیتوں کے بھرپور اظہار کے لئے ٹھوس بنیادوں پر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ والدین اور حکومت کی طرف سے مثبت اقدامات اور نوجوانوں کی اپنی کوششوں سے ہی معاشرہ امن کی طرف سفر شروع کرے گا کیوں کہ بے روزگاری، کم علمی اور افلاس، بدامنی کو جنم دیتے ہیں۔ معاشرے کو خوبصورت اور قوم کو باشعور بنانے کے لئے ہمیں اپنے نوجوانوں کی درست سمت رہنمائی کرنا ہو گی کیوں کہ آج کل پاکستان کو جن حالات کا سامنا ہے اس میں یہ ذمہ داری کئی گنا بڑھ چکی ہے۔

[email protected]



نوجوانوں کے مسائل کا سب سے بڑا ذمہ دار معاشرہ ہے: ماہر سماجیات ڈاکٹر زکریا ذاکر

ماہر سماجیات پروفیسر ڈاکٹر زکریا ذاکر نے ''ایکسپریس'' سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کی تباہی اور مسائل کا سب سے بڑا ذمہ دار معاشرہ ہے کیوں کہ معاشرہ کوئی آسمان سے تو نہیں بن کر آتا، ہم خود ہی اس کی تشکیل کرتے ہیں۔ ہمارا معاشرتی نظام نوجوان کی تربیت کرنے سے قاصر ہے کیوں کہ ہم نے کبھی ان مسائل پر بات ہی نہیں کی۔ بھارت نے 20، 30 سال قبل انسٹی ٹیوٹس آف ٹیکنالوجیز بنائے جبکہ ہمارے ہاں مدارس بنانے پر زور دیا گیا۔ اب آج پاکستان میں اتنے مدارس تو نہیں کہ نوجوانوں کو وہاں لگا دیا جائے۔ ہم نے وقت پر وہ کام نہیں کئے جو ہمارے مدمقابل بھارت نے کئے، ہم نے انڈسٹری نہیں لگائی، جدید تعلیمی ادارے نہیں بنائے۔ پھر جب دنیا فیملی پلاننگ کی طرف جا رہی تھی، ہم نے اسے مذہبی رنگ دے کر اپنے سے کوسوں دور رکھا اور وہی بچے آج جوان ہو چکے ہیں۔

ہم نے بچوں کی پیدائش کا شعوری فیصلہ کیا لیکن ان کے مستقبل کے لئے کچھ نہیں کیا، وسائل یا مواقع پیدا نہیں کئے۔ آج کا نوجوان جن خرافات میں مبتلا ہے، اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں کیوں کہ ہم نے سپورٹس کلچر ختم کر دیا تو وہ ون ویلنگ کا سہارا لینے لگے، ہمارے پاس بنیادی سہولیات ہی نہیں ہیں تو کھیل کے میدان کہاں سے آئیں گے۔ یہاں سوسائٹی ایک قابل غریب بچے کی چند ہزار فیس ادا نہیں کرتی تو پھر یہ حالات سے دلبرداشتہ ہو کر مجرم نہیں بنے گا تو کیا کرے گا؟۔ ڈاکٹر زکریا ذاکر نے گفتگو کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے کہا کہ موبائل کا استعمال برا نہیں لیکن استعمال میں ہونے والی زیادتی بری ہے۔

یورپ میں کیا بچے یا نوجوان موبائل فون استعمال نہیں کرتے؟ لیکن وہاں کے معاشروں نے نوجوانوں کو ایسے مواقع فراہم کئے ہیں جہاں جا کر وہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر سکیں۔ ماہر سماجیات نے مسائل کے حل پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ سب سے پہلے آج کے بچے کے لئے حکمت عملی طے کریں، اسے بہترین تعلیمی و طبی سہولیات فراہم کریں کیوں کہ کل یہی بچہ جوان ہو کر ملک کی خدمت کر سکے گا۔ ملکی وقار کی بحالی اور معاشی استحکام ناگزیر ہے تاکہ دنیا بھر میں ہمارے نوجوان کو عزت ملے۔ یہاں بہت سے ایسے طلبہ ہیں، جن کے پاس پیسے ہیں اور ان کے داخلے بھی بیرون ممالک کے تعلیمی اداروں میں ہو چکے ہیں لیکن پاکستان کے خراب امیج کے باعث انہیں ویزا نہیں ملتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں