اہم کتب و رسائل
’’محراب‘‘ حمد، نعت، سلام، مناقب اور قطعات سے مرصع ہے
آج کے کالم میں وہ کتابیں اور رسائل شامل ہیں جو کافی عرصے سے صفحہ قرطاس پر آمد کی منتظر ہیں۔ تو شروع کرتے ہیں حامد علی سید کے شعری مجموعہ ''محراب'' سے۔ حامد علی سید کی یہ چوتھی کتاب ہے جب کہ ریگزار میں دریا، تکمیل کے مراحل میں ہے۔ کئی ادبی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ ''محراب'' حمد، نعت، سلام، مناقب اور قطعات سے مرصع ہے۔
اللہ اور اس کے نبیؐ خاتم النبین شفیع المذنبین سے محبت اور عشق کا یہ عالم ہے کہ تقریباً ساٹھ کے قریب حمد و نعت کو کتاب کی زینت سے معطر کیا ہے۔ مقدمہ شاعر علی شاعر نے لکھا ہے اور رنگِ ادب پبلی کیشنز نے شایع کیا ہے۔ پاسبان حمد و نعت کے زیر اہتمام اشاعت کے مرحلے سے گزری ہے۔ حامد علی سید کی سوچ اور فکر اسلامی ہے ان کا مطالعہ وسیع ہے، ان کی شعری اصناف میں دین کی روشنی جگ مگ کر رہی ہے۔ ''حمد'' سے دو شعر :
یہ نہ پوچھو کہ کیا میسر ہے
مجھ کو میرا خدا میسر ہے
ورد کرتا ہوں اسمِ اعظم کا
مجھ کو اس میں شفا میسر ہے
''سلام رسول ہاشمیؐ'' کے عنوان سے جو شاعری سامنے آئی ہے وہ بھی تسکین دل اور عشق رسولؐ سے آراستہ ہے:
بساطِ دل پر لکھا صبح و شام لکھا ہے
حضورؐ آپؐ پہ میں نے سلام لکھا ہے
تھوڑا ہی عرصہ گزرا ہے جب ڈاکٹر معین الدین عقیل کی رہائش گاہ پر جانے کا اتفاق ہوا۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل علم و ادب، شعر و سخن، تراجم اور کئی زبانوں پر قدرت رکھتے ہیں، تشنگان علم و دانش ہفتے کے ایک خاص دن غالباً اتوار کو حاضری دیتے ہیں اور ان کے علوم سے استفادہ کرتے ہیں ۔ ہماری خواہش پر انھوں نے علمی و تحقیقی مجلہ '' تحصیل'' عنایت کیا۔
یہ رسالہ اہم اور قابل قدر مبصرین و ناقدین کی تحریروں سے آراستہ ہے۔ '' ارمغانِ حجاز '' کا جاپانی ترجمہ ڈاکٹر معین الدین عقیل کی علمیت اور لیاقت کا منہ بولتا ثبوت ہے، انھوں نے ملکوں ملکوں کا سفر کیا، زبانیں سیکھیں اور مختلف علوم کے گوہر آب دار سے اپنی روح و دل کو روشن کیا۔
فیض الدین احمد کا مضمون قحط بنگال کا آشوب اور اردو شاعری، خالد امین نے سید ابوالاعلیٰ مودودی اور سلطنت عثمانیہ، دونوں مضامین بہت سی معلومات قاری کی سماعتوں کی نذر کرتے ہیں۔ گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا ہو۔ '' تحصیل '' کی تمام تحریریں علم و بالیدگی کے چراغ روشن کرتی ہیں۔
برطانیہ میں مقیم پروفیسر عقیل دانش کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ ان کی دو کتابیں بعنوانات '' حیاتِ دانش'' اور ''اعتبار'' میرے سامنے ہیں، ثانی الذکر میں خاکے ، تبصرے ، مضامین و مقالات شامل ہیں۔ اس کتاب کے پبلشر پروفیسر صفدر علی خان ہیں اور ''مطبوعات انشا'' کے نام سے یہ ادارہ اپنی علیحدہ شناخت رکھتا ہے۔ عقیل دانش نے ''حیاتِ دانش'' لکھ کر زندگی کے تمام اوراق کو اپنے قارئین کے سامنے نمایاں کردیا ہے۔
زندگی تو ہوتی دکھ سکھ سے آراستہ ہے، گویا ایک معمہ ہے ''سمجھنے نہ سمجھانے کا '' پروفیسر عقیل دانش کی تحریر کی خصوصیت سادگی اور سچائی ہے انھوں نے اپنی زیست کے تمام واقعات ، تلخ و شیریں یادوں کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ تسلسل کی کرنیں یکجا ہو کر شمع دان بن جاتی ہیں۔ '' اعتبار '' عقیل دانش کی چوتھی کتاب ہے۔ محمد نواز خان نے مختصر لفظوں کا سہارا لیتے ہوئے عقیل دانش کا تعارف پیش کیا ہے وہ لکھتے ہیں:
''ہم عقیل دانش کو نہ صرف برطانیہ بلکہ پوری اردو دنیا میں ''مجاہد اردو'' کے لقب سے نوازتے ہیں گزشتہ چھ دہائیوں سے انھوں نے خود کو اردو کی خدمت کے لیے وقف کر رکھا ہے جب مختلف محفلوں اور مشاعروں میں ان کا تعارف کرایا جاتا ہے تو وہ انکسار کے ساتھ کہتے ہیں:
میں کیا ہوں، تعارف مرا کیا ہو دانش
یہ مسئلہ اس بزم میں در آیا ہے
اردو کا میں خادم ہوں حقیقت یہ ہے
اردو نے میری روح کو گرمایا ہے
کتاب کے مطالعے سے اس بات کا اندازہ ہوا کہ وہ چار اہم اور قابل مطالعہ کتابوں کے مصنف ہیں۔ اس کے علاوہ وہ تدریس سے بھی وابستہ رہے ہیں، لندن اور کراچی کے اخبارات میں کالم اور قطعات لکھنے کا بھی انھیں اعزاز حاصل ہے۔ تمغوں کی شکل میں اعزازات بھی ان کی علمی بصیرت اور کاوشوں پر دیے گئے ہیں۔
جامعہ کراچی سے منظور شدہ تحقیقی مجلہ ''انشا'' اشاعت کی 29 بہاریں دیکھ چکا ہے ماشا اللہ رسائل کا بروقت اور تسلسل سے نکلنا اس گرانی اور مشکل حالات میں معجزے سے کم نہیں ، شمارہ 115، 116 قارئین کے لیے استفادے کا باعث رہا۔ اپنے مضامین، افسانوں اور شاعری کے اعتبار سے ایک مہکتے ہوئے گل دستے کی مانند ہے۔
ایم الیاس کی تحریر ''جھروکے'' ممتاز ادیبوں اور ان کے رہن سہن کے بارے میں دلچسپ اور حیرت انگیز معلومات فراہم کرتی ہے۔ ایسی معلومات جن سے بے شمار قلم کار ناواقف ہیں۔ علی عرفان عابدی نے '' بخدمت جناب ناصر زیدی'' کے عنوان سے ایک تاثراتی مضمون سپرد قلم کیا ہے، بے شک ناصر زیدی بہت خوبصورت اخلاق کے مالک تھے۔
ہر شعر سچائی کے رنگ سے رنگا ہوا ہے۔ افسانہ نگار انور کلیم کا تعارف بھی پرچے کی انفرادیت میں اضافے کی وجہ ہے۔ ان کی کہانی کا ترجمہ جہانگیر عباسی نے کیا ہے اس روش سے سندھی افسانہ پڑھنے کے لیے میسر آیا، یہ خوش آیند ہے۔
''لوح ادب'' کے مدیر اعلیٰ ڈاکٹر شکیل احمد خاں ہیں گزشتہ برس سے بہت سی پریشانیوں اور صدموں سے دوچار ہوئے جواں سالہ صاحبزادی کی وفات پر ان کا بھی ایکسیڈینٹ ہوا، ہمت مرداں مدد خدا، صبر و شکر کا دامن نہیں چھوڑا اور ماشا اللہ ان کی کاوشوں اور ادب سے بے پایاں محبت اپنی نیک نیتی کے ''لوح ادب'' جوکہ جشن سیمیں نمبر ہے قارئین کے ہاتھوں تک پہنچ گیا، جشن سیمیں کے حوالے سے ممتاز قلم کاروں اور ناقدین نے بے حد خلوص کے ساتھ مضامین لکھ کر مدیر ''لوح ادب'' کی ادبی خدمات کو سراہا ہے۔
میری جانب سے بھی مبارک باد قبول کیجیے۔ ڈاکٹر شکیل احمد خان نے اداریہ میں اپنی جہد مسلسل کے بارے میں ذکر کیا ہے اور پچیس سالہ سفر کے دوران انھیں جن کٹھنائیوں سے گزرنا پڑا اس کا تذکرہ بھی عزم و ہمت کی داستان سناتا ہوا قارئین کو متاثر کرتا ہے۔ ''لوح ادب'' معتبر اور قابل قدر ادبا و شعرا کی تخلیقات سے سجا ہوا ہے۔
''کولاژ'' کا شمارہ 17 پاک و ہند کے ممتاز و مقبول شاعر گلزار کے سرورق سے آراستہ ہے، کولاژ کے مدیر اقبال نظر ہیں، اپنے اداریے میں انھوں نے کولاژ کی نائب مدیرہ شاہدہ تبسم کے تعاون اور اخلاص کے بارے میں اس طرح رقم طراز ہیں کہ '' مرحومہ ہر مشکل موقع پر مجھ سے کہا کرتیں میں آپ کے ساتھ چل تو سکتی ہوں، لیکن آپ کے ساتھ رک نہیں سکتی۔''
شاہدہ تبسم کا کلام بھی ابتدائی صفحات پر بہت سی یادوں کو شاعری کی شکل میں تازہ کر رہا ہے۔ ڈاکٹر شاہین مفتی کا مضمون گلزار کے حوالے سے ہے خاصے کی چیز ہے۔ اس کے علاوہ شاعری، افسانے، ناولٹ اور خودنوشت نے کولاژ کو خاص پرچہ بنا دیا ہے۔ کولاژ ہر لحاظ سے بہترین پرچہ ہے مدیر اقبال نظر ڈھیر ساری مبارک باد کے مستحق ہیں۔
''علمی سیاحت'' کے مصنف محمد افضل جنجوعہ ہیں۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں پر عبور رکھتے ہیں، اسٹیٹ لائف میں ان کی حیثیت مسلم ہے۔ مختلف جامعات اور اسٹاف کالجز میں تدریسی فرائض کی ذمے داری خوش اسلوبی سے نبھائی، زیر نظر کتاب ایک سفر نامے کی صورت میں سامنے آئی ہے اور یہ سفر تھا پیرس کا۔ مصنف کو بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کرنی تھی۔
دوران سفر ان کی ایک ہم سفر خاتون پروفیسر ڈاکٹر مہتاب قندھاری سے ملاقات ہوئی، دونوں کی منزل ایک ہی تھی اور کتاب کے آخری صفحات تک ڈاکٹر قندھاری ڈاکٹر عطا النبی اور دوسرے حضرات تمام مواقعوں پر ایک ہی ساتھ گفتگو کرتے اور معلومات بہم پہنچاتے ہوئے منظر عام پر آئے ہیں۔ سفرنامہ یادگار تصاویر سے مزین ہے۔