ایک سال اور یعنی سال مجید امجد
پاکستان بڑے پیمانے کی قومی نمائش کے تجربے سے محروم چلا آیاہے مگر ادارے اپنے اپنے طور پر ایسی کوششیں ضرور کرتے رہے ہیں
آج کے مہذب ملکوں میں کتاب کی اہمیت جتانے اور اسے فروغ دینے کا اہتمام اس طرح بھی ہوتا ہے کہ قومی سطح پر کتابوں کی نمائش کا اہتمام بڑے شاندار طریقہ سے کیا جاتا ہے۔ کتنے شاندار طریقہ سے اس کی داستانیں سنی ہیں۔ ایسی نمائش صرف ایک دیکھی۔ ہندوستان میں ہونے والی نمائش۔ ہم تو اسی نمائش کو دیکھ کر تصویر حیرت بن گئے۔ جانے فرینکفرٹ کی نمائش جس کا بہت شہرہ ہے کیسی ہوتی ہو گی۔
پاکستان بڑے پیمانے کی قومی نمائش کے تجربے سے محروم چلا آتا ہے مگر ادارے اپنے اپنے طور پر ایسی کوششیں ضرور کرتے رہے ہیں۔ لاہور میں کسی زمانے میں لاہور آرٹ کونسل میں بھی ایسی نمائش کا اہتمام ہوتا تھا۔ ابھی چند مہینے پہلے قائداعظم لائبریری کے نئے سربراہ نے اس باب میں بہت ذوق و شوق کا مظاہرہ کیا اور باغ جناح میں جہاں پھولوں کی نمائش ہوتی رہتی ہے اب کے لائبریری کے زیر اہتمام کتابوں کی نمائش بھی آراستہ ہوئی۔ اور پنجاب یونیورسٹی کتنے سالوں سے ایسی نمائش کرتی چلی آ رہی ہے۔ اس نمائش کا ہم پھیرا لگاتے رہے ہیں۔ پچھلے چند سال سے یہ پھیرا موقوف تھا۔ اب کے وہاں جانا ہوا تو ہمیں کچھ زیادہ ہی گہما گہمی نظر آئی۔ شاید اس لیے کہ خود وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران اس میں خصوصی دلچسپی لے رہے تھے۔ اپنے مہمانوں کے استقبال کے لیے نفس نفیس نمائش میں موجود تھے اور بہت سرگرم نظر آرہے تھے۔ اس حساب سے یونیورسٹی کے پروفیسر حضرات بھی بہت سرگرم دکھائی دیے۔
بک اسٹالوں پر الگ گہما گہمی تھی۔ ہر اسٹال پر اتنا ہجوم کہ اس سے پہلے یہاں کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ ہمارے لیے کسی بھی اسٹال پر ٹک کر کتابوں کا جائزہ لینا دشوار نظر آ رہا تھا۔ یا اللہ کتابوں کے ساتھ قارئین کا اتنا شغف۔ یا یہ اس نمائش کے نئے انتظام کا کرشمہ ہے۔ دونوں صورتوں میں یہ صورت حال علمی ادبی فروغ کے لیے نیک فال ہے۔
اور ہاں ادھر اسلام آباد میں نیشنل بک فائونڈیشن نیشنل بک ڈے یعنی کتابوں کا قومی دن منانے کا اہتمام زور شور سے کر رہی ہے۔ پچھلے چند سالوں میں، جب مظہرالاسلام اس ادارے کے سربراہ تھے، یہ گل کھلا تھا۔ انھوں نے اس سلسلہ میں کیا کیا اہتمام کیے تھے۔ وہ تو رخصت ہو گئے۔ اب اس ادارے کے سربراہ ڈاکٹر انعام الحق جاوید ہیں۔ وہ اس روایت کو آگے بڑھانے میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ وہ نمائش بھی تیار کھڑی ہے۔
مگر ادھر پنجاب یونیورسٹی ہی میں اس رونق کے بعد ایک دوسری رونق نے اپنا جلوہ دکھایا۔ آخر اوریئنٹل کالج بھی تو پنجاب یونیورسٹی ہی کا حصہ ہے۔ وہاں شعبہ اردو کے سربراہ اب ڈاکٹر محمد کامران ہیں۔ اس شعبہ نے مجید امجد کی یاد میں اعلیٰ پیمانے پر ایک تقریب منانے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ بلکہ اس شعبہ نے تو فیضؔ اور ن م راشدؔ کی پیدائش کی سو سالہ تقریب سے اشارہ لے کر مجید امجد صدی کا اعلان کر رکھا تھا۔ ایسی تقریب کا اہتمام اسے زیب دیتا ہے۔ آخر یہ اوریئنٹل کالج ہے۔ مشرقی زبانوں اور علوم کی درسگاہ۔ یہ تقریب پچھلی جمعرات کو بصد اہتمام وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مجاہد کامران آراستہ ہوئی۔ پورے دن کی تقریب تھی۔ مختلف نشستوں میں بٹی ہوئی۔
افتتاحی سیشن میں کرسی صدارت پر وائس چانسلر صاحب رونق افروز تھے۔ ان کے دائیں بائیں شعبہ اردو کے سربراہ ڈاکٹر محمد کامران اور خواجہ محمد ذکریا جنہوں نے یہاں مقالہ خصوصی پڑھنا تھا۔ ارے اس مقالہ خصوصی کی کیا پوچھتے ہو۔ اس نے تو سیمیناروں میں پڑھے جانے والے خصوصی مقالوں کے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ بیچ میں ایک وقفہ ضرور آیا کہ محترم صدر نے اپنے صدارتی کلمات ادا کیے۔ مرحوم مجید امجد کو خراج عقیدت پیش کیا۔ تقسیم انعامات کی رسم ادا کی اور رخصت ہو گئے۔ آخر اور ذمے داریاں بھی تو ان کا انتظار کر رہی تھیں۔ مقالہ اس کے بعد بھی جاری رہا۔
پہلے ہمیں داد دینی چاہیے مقالہ نگار کو کہ کسی کاوش سے یہ مقالہ لکھا تھا اور کس شان سے کہ؎
لکھتے نامہ لکھے گئے دختر
شوق نے بات کیا بڑھائی ہے
اور پھر ہمیں داد دینی چاہیے۔ سامعین کو۔ کس صبر سے اور کس یکسوئی سے مسلسل ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو گھنٹے تک مقالہ سنا۔ پھر ہمیں داد دینی چاہیے اپنے آپ کو بعد انکسار کہ ہم نے خواجہ ذکریا کا سارا بیان کان لگا کر سنا اور قسم لے لو کہ ایک مرتبہ بھی جماہی لی ہو۔ اور ہمارے لیے آنا کانی کی گنجائش بھی کہاں تھی۔ اب محترم صدر کے رخصت ہو جانے کے بعد اختتامی ٹکڑا تو ہمیں ہی لگانا تھا۔ سو ہم نے اپنی بساط بھر وہ ٹکڑا لگایا اور خواجہ صاحب کو جی بھر کر داد دی۔ مگر پھر بھی مقالہ کی وسعت کو دیکھتے تھوڑی نظر آ رہی تھی۔ ویسے ہم پھر بھی یہی کہیں گے کہ اس عزیز نے کمال دکھایا کہ دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔ آخر زیر بحث شاعر مجید امجد کی عمر بھر کی کمائی تھی۔ اسے سمیٹنا آسان تو نہیں تھا۔
ہاں خواجہ ذکریا کو یہ احساس بہت پریشان کر رہا تھا کہ فیضؔ' راشدؔ' میرا جی کی اپنی اپنی لابی تھی اور زبردست لابی تھی۔ ادھر خیر امجدؔ ایسا شاعر شہر سے دور شہریار سے دور ایک بستی میں دھونی رمائے بیٹھا تھا۔
اس کی کوئی لابی نہیں تھی۔ اس لیے اس کی شاعری کو ان تین شاعروں کے مقابلہ میں زیادہ قبولیت حاصل نہیں ہوئی۔ ہم نے کہا کہ ارے خواجہ صاحب آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ ان تینوں کی لابی ایک طرف اور اب اس مثل کے مطابق کہ دیر آید درست آید یہ ایک فردی لابی جو بصورت خواجہ ذکریا ظہور میں آئی ہے وہ ان سب پر بھاری ہے اور ان کے مداح تو ایک عمر اس مداحی میں گزار کر تھک چکے ہیں۔ مجید امجدؔ کی نوزائیدہ لابی تازہ دم ہے۔ ان سے کوئی مقابلہ میں آ کر تو دیکھے۔ ہم آپ نے دیکھا نہیں کہ حمید نسیم نے مجید امجدؔ کی شاعری میں تھوڑا عیب نکالتے ہوئے ان کی زبان پر بھی انگشت نمائی کی تھی۔ اس پر خورشید رضوی نے ان کے کیسے لتے لیے کہ آج وہ زندہ ہوتے تو بغلیں جھانکتے نظر آتے۔
خیر قصہ مختصر افتتاحی سیشن خدا خدا کر کے ختم ہوا۔ اگلا سیشن ایسے وقت میں شروع ہوا کہ ادھر مہمانوں کی آنتوں نے قل ہواللہ پڑھنی شروع کر دی تھی۔ ادھر کھانے کی دیگ دیگچیاں بھی دم میں آ چکی تھیں۔ اور ادھر مقالہ نگاروں کی قطار لمبی تھی لیکن یہ مقالہ نگار داد کے مستحق ہیں اور کیسے کیسے مقالہ نگار امجد اسلام امجدؔ' ڈاکٹر انوار احمد' ڈاکٹر تبسمؔ کاشمیری' سرمدؔ صہبائی' ڈاکٹر ضیاء الحسن' ڈاکٹر ناصر عباس نیرؔ مگر ان کے ایثار کی داد دیجیے کہ ہر ایک نے مقالہ کے نام مختصر کلمات کہے مگر صبر و ضبط کی بھی حد ہوتی ہے۔ تبسمؔ کاشمیری کا صبر کا پیالہ لبریز ہو چکا تھا۔ وہ پورا مقالہ پڑھ کر مانے اور ڈاکٹر کا لکھا مقالہ مختصر تو نہیں ہو سکتا تھا۔
خیر اس سیشن کو بھی ہم ہی نے مختصر کلمات سے نبٹایا۔
پھر کھانا وانہ۔ وہ تو ہونا ہی تھا۔ بھوکے بٹیرے تو نہیں لڑا کرتے۔ مگر اس عمل میں تین بج گئے اور آگے دو نشستیں اپنے انعقاد کے لیے انتظار کر رہی تھیں۔ پھر کیا کیا جائے۔ منتظمین کو خوب سوجھی۔ دونوں کو یکجا کر کے مشترکہ نشست۔ مگر مقالہ نگاروں کی قطار کتنی لمبی ہو گئی۔ اور قطار میں کیسا کیسا معتبر نام نظر آ رہا تھا۔ اور پھر باہر سے آئے مندوبین۔ سب سے بڑھ کر بہاولپور کی اسلامیہ یونیورسٹی سے آئے ہوئے ڈاکٹر نجیب جمال' یگانہؔ کے محقق۔ اس یونیورسٹی میں ہم نے ان کا انتظام دیکھا تھا۔ سبحان اللہ۔
یہ سیشن حسب توقع بہت لمبا چلا۔ ہم ایسے تو اس کے اختتام سے پہلے ہی دم توڑ گئے۔
خیر افتتاحی تقریب کے طول نے یہ مسئلہ ضرور پیدا کیا مگر مجموعی طور پر دیکھیں تو تقریب کامیاب رہی اس حساب سے کہ کوئی بدنظمی پیدا نہیں ہوئی۔ اور کیا مختصر کیا طول طویل سب مقالے توجہ سے سنے گئے۔ کیا مجال ہے کہ کسی نے کھانسی کھنکھار سے بھی اپنی بے چینی کا اظہار کیا ہو۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی تو تھی کہ مجید امجدؔ کے بارے میں پہلی مرتبہ ایسی تقریب ہو رہی تھی اور سامعین میں اس شاعر کو جاننے سمجھنے کا اشتیاق نظر آ رہا تھا۔ ورنہ اس شاعر نے تو بڑے شہروں سے منہ موڑ کر ساہیوال میں ڈیرا ڈال لیا تھا۔ گل پھولوں' چڑیوں' درختوں کے بیچ خوش۔ شہری ہنگاموں سے' وہاں برپا ہونے والی تحریکوں سے الگ تھلگ' نام و نمود کے خیال سے بے نیاز' اپنے خیالوں اور فکر سخن میں مگن۔ وقت آخر آیا۔ چادر تان لی۔ پردہ کر لیا۔