عمران خان کے سیاسی داؤ پیچ
عمران خان کی جانب سے اسٹبلشمنٹ کو صلح کا پیغام گو کہ مناسب لب و لہجے میں نہیں تھا
ملک کا سیاسی منظر نامہ آج کل لمحہ لمحہ تبدیل ہو رہا ہے۔ ایک دن عمران خان مفاہمت کے پیغام پر مبنی تقریر کرتے ہیں۔ لیکن اگلے ہی دن جن کے لیے مفاہمت کا پیغام تھا۔
ان کے ساتھ طبل جنگ بجا دیا گیا۔ ایک دن پہلے عمران خان نے کہا کہ وہ ملک کی خاطر سب کے ساتھ بات کرنے کے لیے تیار ہیں، سب کے ساتھ مفاہمت کے لیے تیار ہیں۔
اس میں بھی انھوں نے ایک شرط لگا دی کہ وہ لٹیروں کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس لیے یہی سمجھا گیا کہ ان کا مفاہمت کا پیغام صرف اور صرف اسٹبلشمنٹ کے لیے ہے۔ اسی لیے انھوں نے یہ گلہ بھی کیا ہے کہ آرمی چیف ان سے ملتے نہیں ہیں اور انھیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔
عمران خان کی جانب سے اسٹبلشمنٹ کو صلح کا پیغام گو کہ مناسب لب و لہجے میں نہیں تھا۔ وہ ایک طرف یہ کہہ رہے تھے کہ وہ ملک کی خاطر سب کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہیں۔ دوسری طرف انھوں نے کہا کہ میں سب کو معاف کرنے کے لیے تیار ہوں۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس وقت عمران خان ایسی کسی پوزیشن میں ہیں کہ وہ کسی کو معاف کریں۔
جب اسٹبلشمننٹ نے ان سے کوئی معافی مانگی ہی نہیں تو وہ خود کیسے معاف کر سکتے ہیں۔ بن مانگے معافی دینا تو خود کو اگلے سے برتر ثابت کرنے والی بات ہے۔ اس میں تضحیک کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اسٹبلشمنٹ کو معافی کا پیغام کوئی صلح کا پیغام نہیں تھا۔ اس میں بھی لڑائی کا پہلو موجود تھا۔
ملک کے سیاسی حلقوں میں عمران خان کی گفتگو پر کافی دلچسپ تبصرے بھی ہوئے۔عمران خان نے جہاں موجودہ آرمی چیف سے ملنے کی خواہش کا اظہارکیا بلکہ یہ گلہ کیا کہ موجودہ آرمی چیف ان سے مل نہیں رہے ہیں۔
وہاں سابقہ آرمی چیف قمر باجوہ کے کورٹ مارشل کی بھی خواہش کا اظہار کیا۔ اس لیے سیاسی حلقوں میں شعری تبصرے بھی ہوئے کہ پرانے چیف کا کورٹ مارشل چاہتا ہوں اور نئے آرمی چیف سے ملنا چاہتا ہوں۔ تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں۔ میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں۔
اس لیے میری رائے میں ان کا اسٹبلشمنٹ سے مفاہمت کا پیغام بھی کوئی مفاہمت کا پیغام نہیں تھا بلکہ ان پر دباؤ ڈالنے کی ایک اور کوشش تھی۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ ایک طرف عمران خان نے قمر باجوہ کو سیاسی تختہ مشق بنایا ہوا ہے۔
وہ اپنی تمام تر ناکامیوں کا ذمے دار بھی قمر باجوہ کو ہی ٹھہراتے ہیں۔کیا وہ موجودہ آرمی چیف کو بھی یہ پیغام نہیں دے رہے کہ اگر آپ نے میری شرائط پر میری مدد نہیں کی تو میں آپ کے ساتھ بھی قمر باجوہ والا سلوک ہی کرونگا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ عمران خان کی سوشل میڈیا بریگیڈ آہستہ آہستہ نئے چیف کے بارے میں بھی محاذ گرم کر رہی ہے۔
لیکن پھر بھی ملکی سطح پر اس کو مفاہمت کا پیغام ہی سمجھا گیا۔ ایک تاثر بننے لگا کہ عمران خان اسٹبلشمٹ بالخصوص فوج کے ساتھ صلح چاہتے ہیں۔میڈیا نے بھی اسے مفاہمتی پیغام ہی سمجھا۔ شاید درمیان میں چھپے پیغام کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں اسٹبلشمنٹ کو سمجھ ہے۔ وہ عمران خان کے اندر کے پیغام کو پڑھ رہے ہیں۔
اسی لیے ان کی جانب سے کوئی سگنل نہیں دیا جا رہا ہے۔ عمران خان کی شدید خواہش کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا جا رہا ہے۔
لیکن مشروط مفاہمت کے پیغام کے ایک دن بعد ہی عمران خان نے دوبارہ محاذ گرم کر دیا۔ ایک دن پہلے جن کومعاف کرنے کا اعلان کیا تھا۔ دوسرے ہی دن ان کے خلاف ایک گرم تقریر کر دی۔ جن کو انھوں نے معاف کر دیا تھا ان کو پھر کٹہرے میں کھڑ اکر دیا۔
آخر ایک دن میں کیا ہوا۔ ایک دن میں یہی ہوا کہ اسلام آباد کی پولیس اسلام آباد کی ایک عدالت سے جاری ہونے والی وارنٹ کی تعمیل کے لیے لاہور آئی۔ ایک ماحول بن گیا کہ اسلام آباد کی پولیس انھیں گرفتار کرنے پہنچ گئی ہے۔
دوسری طرف ایسی خبریں بھی میڈیا پر آگئیں کہ اڈیالہ میں ان کو رکھنے کے لیے سیل تیار کر لیا گیا ہے۔ عمران خان کی گرفتاری کے لیے ایک ماحول بنا دیا گیا۔ شاید پوری تحریک انصاف اس ٹریپ میں آگئی۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں حکومت اور اسلام آباد پولیس کسی بھی لمحہ عمران خان کی گرفتاری کے لیے سنجیدہ نہیں تھے۔ یہ ایک ٹریپ تھا بس۔
اگر پولیس عمران خان کی گرفتاری میں سنجیدہ ہوتی تو دن کے اجالے میں گرفتار کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ رات کے پچھلے پہر آسانی سے گرفتاری ممکن ہے۔
جب وہاں لوگوں کی تعداد بھی بہت کم ہوتی ہے۔ پھر اگر زمان پارک سے پولیس نے عمران خان کو گرفتار کرنا ہے تو پہلے زمان پارک جانے کے تمام راستے بند کیے جانے تھے۔ یہ تو ممکن نہیں کہ ایک گھنٹہ پہلے میڈیا پر پولیس کے آنے کے اعلانات کیے جائیں۔
تحریک انصاف کے تمام رہنماؤں کو زمان پارک پہنچنے کا بھر پور موقع دیا جائے ۔ پھر یہ موقع بھی دیا جائے کہ تحریک انصاف کارکنوں کو پہنچنے کے لیے اعلانات کرنے کا موقع دیا جائے۔ لوگوں کو پہنچنے کے لیے کھلے راستے دیے جائیں۔ کئی گھنٹے دیے جائیں۔ ایسے کیسے گرفتاری ممکن ہے۔ اس لیے میری رائے میں حکومت اور پولیس کسی بھی لمحہ گرفتاری کے لیے سنجیدہ نہیں تھے۔ یہ صرف ایک ٹریپ تھا۔ حکومت عمران خان کے ساتھ کھیل رہی تھی۔
کیا عمران خان ٹریپ میں آگئے۔ پولیس کے آنے سے انھوں نے غصہ میں ایک دن پہلے دیے گئے اسٹبلشمنٹ کو مفاہمت کے مشروط پیغام کو ختم کر دیا۔ ایک دن پہلے جن کو معاف کرنے کا اعلان کیا تھا اس کو واپس لے لیا۔ کیا عمران خان سمجھے کہ میں نے صلح کی بات کی ہے اور اگلے دن ہی پولیس بھیج دی گئی ہے۔ اس لیے میرے صلح کے پیٖغام کو مسترد کر دیا گیا ہے۔
لہٰذا لڑائی شروع کر دی جائے۔میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان اسٹبلشمنٹ کو دباؤ میں لانے کی ایک حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں۔ اس میں صلح کا پیغام اور لڑائی دونوں شامل ہیں۔ وہ اسٹبلشنٹ کو اپنی شرائط پر ساتھ ملانا چاہتے ہیں۔ یہ خطرناک کھیل ہے۔ اس لیے اس کے نتائج اچھے نہیں ہو سکتے۔