دعا اور بددعا
جب تک کوئی ہلکا پیدا نہیں ہوگا سب پر بھاریوں کی سواری کے نیچے، اس ملک کی ٹانگیں کپکپاتی رہیں گی
یوں تو اور بھی بہت سی ایسی چیزیں اور بلائیں ہیں جو ہماری اس مملکت عزیزکی جان کو مستقل لاحق ہیں، لیڈر ہیں، پارٹیاں ہیں، دانا دانشور ہیں، ماہرین ہیں، معززین ہیں لیکن ان سب کے ساتھ کچھ نہ کچھ گزارہ پھر بھی ہوجاتا ہے سوائے ایک مستقل مرض کے اور وہ مستقل مرض ہے۔
اس سرزمین پر ''سب پر بھاریوں'' کی پیدائش یعنی پٹواریوں نے پکی پکی ''پٹوارسیاہی'' سے اس کے نصیب میں لکھ دیاہے کہ یہاں جو بھی پیدا ہوگا ، سب پر بھاری ہی پیدا ہوگا ویسے تو یہ نام ''سب پر بھاری ''ایک خاص الخاص اور منفرد وممتاز، سب پر بھاری کے عہد میں سامنے آیا ہے کیوں کہ وہ کچھ زیادہ ہی ''سب پر بھاری'' تھا، ورنہ اس ملک میں جو بھی پیدا ہوتاہے، وہ سب پر بھاری ہوتا ہے یعنی اس لنکا میں سارے باون گزے پیدا ہوتے ہیں۔
ابتدا میں ایک دوہلکے پیدا ہوئے تھے لیکن اچھا ہوا کہ بہت جلد ان کا پتہ چل گیا اور بھاریوں نے بہت جلد ان کو مزید ہلکا کرکے کندھے خالی کردیے تاکہ آنے والے سب بھاری ، ان پر اپنی سواری جاری رکھ سکیں اورفوراً ہی غلام محمد کو اس پر سوار کیاگیا جو ''آدھا'' ہونے کے باوجود سب پربھاری رہا۔ پھر سب پر بھاری نمبردو اسکندر مرزا تو پیدا ہی سب پر بھاری تھا۔
اپنے سول سروس کے زمانے میں اپنے مرشدوں کی خدمت کرکے بہت سی خدمات سر انجام دے چکا تھا اور خود کو سب سے بڑا سب پر بھاری سمجھتا تھا لیکن اسے معلوم ہی نہ تھا کہ اس ملک میں صرف ''سنار'' ہی نہیں بستے بلکہ لوہار بھی موجود ہیں چنانچہ اس پر بھی ایوب خان نامی لوہار کا ہتھوڑا پڑا اور جب اسے خبر ہوئی تو کھیت پر اس سے بھی زیادہ بڑا سب پر بھاری مسلط ہوچکا تھا۔
لیکن ہرکمالے را زوالے کا سلسلہ تو ہمیشہ سے جاری ہے کہ ہرکمال ہی کی جڑوں سے اس کا زوال بھی پھوٹتا ہے اور وہ پھوٹا۔اور ایسا پھوٹا کہ ملک کو آدھا کرنے کے باوجود سب پر بھاری نکلا۔
وہ آیا بزم میں اتنا تو ہم نے دیکھا میر
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
وہ سنجے دت۔جس کے لیے نرگس ہزاروں سال راج کپورکے کاندھے پر سررکھ کر روتی رہی تھی اور پھر سب پر بھاریوں کا تو جیسے تانتا بندھ گیا،کچھ غازی بنتے رہے کچھ شہید ہوکر بھی زندہ رہے اور پھر
دہ پلار زانگو مے زنگولہ
ناساپہ غگ شو چہ نیکہ دے پیدا شونہ
ترجمہ۔ میں اپنے باپ کا جھولاجھلا رہا تھا کہ اچانک آواز آئی کہ تمہارا دادا بھی تولد ہوگیا۔
کرکٹ کے ایک بال نے سارے بھاریوں کے وکٹ اڑا دیے ۔کہ فسٹ، سیکنڈ، تھرڈ سارے ایمپائر اس کے ساتھ تھے، اچھے خاصے سیٹ بیٹسمین کو آؤٹ کردیا گیا، اور وہ ''سب پر بھاری'' ہوکر چھاگیا۔جو بیک وقت تبدیلی بھی تھا، نیا پاکستان بھی تھا، صادق وامین بھی تھا اور ریاست مدینہ کا امیرالمومینین بھی تھا، ایک ہی پھول میں سارے گلستان جمع ہوئے تھے۔
شفق، دھنک ،مہتاب، ہوائیں، بجلی تارے نغمے پھول
اس دامن میں کیاکیا کچھ ہے، وہ دامن ہاتھ میں آئے تھے
اور پاکستانیوں کے ہاتھ میں وہ دامن آگیا جو عمرعیارکی زمبیل سے کسی طرح کم نہ تھا اور پٹواریوں نے سارا ملک اور اس ملک کا سب کچھ اس کے نام کر دیا۔ ظاہر ہے سب بھاریوں پر بھی بھاری ہونے کا نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ پورا ملک اس کے وزن کے نیچے کر اہنے لگا، کراہ رہاہے۔
ایسا لگتاہے کہ اس ملک کے سارے محکموں، اداروں، قوانین، دساتیر اور ساری قوتوں کو اس نے ہپناٹائزکردیا ہو کہ صرف اسی کا نام لیں گے، اسی کی مالا جبپیں گے اوراس کے سوا کچھ بھی نہیں کریں گے، چاہے کچھ بھی ہوجائے ۔
ہمارا ایک یار ہے جو ایک غار میں رہتا ہے جو عامل کامل بھی ہے، ڈاکٹر، پروفیسر بھی ہے،ماہرنجوم وپامسٹری بھی ہے اور ساتھ حکیم وطبیب بھی ہے، ہم نے اس سے رجوع کیاکہ آخر اس ملک کے نصیب میں سب سے بھاری ہی کیوں ؟ اورکچھ علاج اس کابھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں۔
اس نے کافی دیر تک زائچے وغیرہ بناکر،دائرے مربعے اورمثلث وغیرہ کھینچ اورہندسوں اورحروف کو جمع تفریق کرنے کے بعد فرمایا کہ اس ملک کو کسی کی دعا لگی ہے ، بددعا لگی ہوتی تو میں اس کاکوئی اپائے کرلیتا لیکن دعا کاکیاکروں ؟
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
ہمارے پوچھنے پر اس نے دعاکی تفصیل تو بتادی کہ اس ملک کو یہ دعا دی گئی ہے کہ تمہارے اندر ہمیشہ سب پر بھاری ہی پیداہوں اورکبھی کوئی ہلکا پیدا نہ ہو۔ لیکن وہ یہ نہ بتا سکا کہ یہ دعائے بددعا نما کس نے دی ہے اور پلٹ کر کہا کہ محقق تو تم ہو، اس لیے دعا دینے والے کاپتہ تم ہی لگاؤ۔
دعویٰ بہت ہے علم ریاضی میں آپ کو
طوالت شب فراق ذرا ناپ دیجیے
بے شک ہم محقق ہیں اوربڑے بڑے مستند اداروں کے ڈگری یافتہ اور ترتبیت یافتہ ہیں لیکن اتنے بھی نہیں کہ ماضی بعید میں جاکر اس دعا یابددعا دینے والے کا سراغ لگائیں لیکن یہ ضروری بھی ہے کہ اس عامل کامل نے یہ بھی بتایا کہ جب تک ماضی میں جاکراس دعادینے والے کو اپنی دعا واپس لینے پر مجبورنہیں کیاجائے گا، تب تک اس ملک میں سب پر بھاری ہی پیداہوتے رہیں گے،کبھی کوئی ہلکا پیدا نہیں ہوگا اور جب تک کوئی ہلکا پیدا نہیں ہوگا سب پر بھاریوں کی سواری کے نیچے، اس ملک کی ٹانگیں کپکپاتی رہیں گی۔
اس کے اینجر پنجر وجود کے کڑاکے نکلتے رہیں گے اور روز بزور لاغر، ضغیف اور نحیف ہوتا رہے گا۔اب ہم اس کوشش میں ہیں کہ کوئی موجد ایسی ٹائم مشین ایجاد کر دے جس میں بیٹھ کر ہم ماضی میں اس دعا دینے والے تک پہنچ سکیں اوراسے کسی نہ کسی طرح آمادہ کریں کہ وہ اپنی بد دعا نما، دعا واپس لے لے ۔