الیکشن سے گلو خاصی
حالت یہ ہے کہ معیشت روز بروز بگڑ رہی ہے اورکسی بھی معاشی گرو سے سنبھل نہیں پا رہی
جیسے بھی حالات رہے، زندگی جیسے تیسے گزرتی رہی ہے۔ تنگدستی یا خوشحالی ، مڈل کلاس کے لوگوں کے لیے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی کہ ہر دو صورتوں میں مڈل کلاس کا واسطہ ایسی صورتحال سے باربارپڑتا رہتا ہے لیکن بار بار کے اتار چڑھاؤ کے دوران ہم جیسے مڈل کلاسیے زندگی کو دھکا لگاتے رہتے ہیں اور کبھی بھول کر بھی اپنی جنم بھومی سے نقل مکانی کا نہیں سوچتے۔
لیکن اب حالات اس قدر بگاڑ کا شکار ہو چکے ہیں کہ مڈل کلاس کے لوگ بھی کسی غیر ملک میں روزگار کی تلاش کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے کی کوششوں میں ہیں، امیر طبقہ تو بلا جھجک اور جوق درجوق اپنے وطن کو خیر آباد کہہ رہا ہے ۔
یہ صورتحال کیونکر بنی اور اس کا ذمے دار کون ہے کہ مڈل کلاس جو معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے ، وہی بیرون ملک بھاگنے کی کوشش کر رہی ہے۔یہ دوچار برس کی بات نہیں ہے بلکہ گزشتہ پچھتر برس کا قصہ ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے بصد کوشش ہمیں اس بھیانک صورتحال تک پہنچایا ہے اور بلا تفریق ملک کے ہر ذمے دار نے اس میں اپنا حصہ بقدر جسہ ڈالا ہے۔
اب حالت یہ ہے کہ معیشت روز بروز بگڑ رہی ہے اورکسی بھی معاشی گرو سے سنبھل نہیں پا رہی بلکہ اس میں بگاڑ مزید بڑھ رہا ہے۔ ملک کو اس اقتصادی بھنور سے نکالنے کے لیے کی جانی والی کوششوں کے نتائج اب تک ثمر آور نہیں ہو سکے ، اگر کچھ خیرات میں مل بھی گیا تو وہ سابقہ قرضوں کی ایک آدھ قسط کی ادائیگی کے لیے ہی کافی ہو گا اور ہم پھر سے کشکول لے کر کسی آئی ایم ایف کے در پر دستک دے رہے ہوں گے۔
جی ہاں، وہی آئی ایم ایف جو پاکستان کے معاملے میںاس قدر بے رحم ہو چکا ہے کہ پہلے وہ اپنی شرائط پر عمل درآمد کرارہا ہے اور جب تک اس کی تسلی و تشفی نہیں ہو جاتی تب تک ادھار رقم کی منتقلی نہیں ہورہی ہے۔
معیشت کی دگرگوں اور ناگفتہ بہہ حالات میںملک کے طول وعرض میں یہ بحث و مباحثہ بھی جاری ہے کہ کیا قومی الیکشن ہوں گے یا نہیں لیکن اس سوال کا جواب کسی عام شخص کے پاس ہر گز نہیں ہے البتہ حکومتی اتحاد مولانا فضل الرحمن نے معاشی حالات کے باعث الیکشن نہ کرانے پر زور دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت عوام کو دو وقت کی روٹی تو فراہم کرنے سے قاصر ہے، الیکشن پر کئی ارب لگا کر ووٹ کی پرچی کے ذریعے نئے حکمران کیوں منتخب کیے جائیں، ان کی اس بات کی تائید وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے بھی کی ہے ۔
میرے جیسے لوگوں کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ حکمران جماعتیں الیکشن سے دور کیوں بھاگ رہی ہیں حالانکہ جمہوریت کی بقا الیکشن میں ہی ہے جس میں عوام اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے اپنے پسند کے نمایندے منتخب کرتے ہیں جو جمہوریت کی اصل روح ہے۔
حکومت کی واحد اپوزیشن تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ایک طرف تو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومتوںکے لیے مقررہ آئینی مدت میں الیکشن کرانے پر بضد نظر آتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ملک بھر میں صوبائی اور قومی الیکشن ایک ساتھ ہونے چاہئیں اور اس کے لیے وہ ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں ۔
ان کی اس' 'فراخدلانہ'' پیشکش کو حکومتی اتحاد نے ٹھکرا دیا ہے اور عمران خان کے ساتھ بات چیت نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
ان حالات میں جب حکومتی اتحاد الیکشن سے دور بھاگ رہا ہے جب کہ تحریک انصاف الیکشن کے لیے میدان سجنے کی منتظر ہے ،گو مگو کا عالم ہے۔
میں تو دعاگو ہوں کہ اﷲ تعالی غیب سے کوئی ایسی صورت پیدا کر دے کہ ہمارے حکمران الیکشن سے نجات پا لیں ، اچھے بھلے اقتدار کے مزے لوٹے جارہے ہیں، اس پر وزیر داخلہ نے بھی انتخابی مہم اور جلسوں کے لیے ناسازگار حالات کے باعث الیکشن کمیشن کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ الیکشن مہم کے دوران جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کر دے۔ لیکن ان تمام تر کوششوں اور حیلے بہانوں کے باوجود اگر الیکشن آہی گئے تو سب کچھ الٹ پلٹ بھی ہو سکتا ہے۔
آئینی کتابچے میںالیکشن کے لیے ایک مدت مقرر ہے لیکن نظریہ ضرورت کسی بھی وقت آڑے آسکتا ہے اور اسی آئینی کتابچے کی کسی شق کا حوالہ دے کر الیکشن کے انعقاد کی مدت کو وقتی طور پرٹالا جا سکتا ہے۔
یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ آئین ہے ہی کیاجس کسی نے بھی یہ آئینی کتاب مرتب کی تھی اس میں سوائے حکومتوں کو تنگ کرنے کے کوئی اور بات نہیں ہے۔ یہ وہی آئین ہے جسے کئی بار پامال کیا گیا اوراس پامالی کو عدالتی تحفظ بھی فراہم کیا گیا۔
لہٰذا اب بھی یہ خدشات موجود ہیں کہ کہ حالات اس قدر مزید خراب ہو بھی سکتے ہیںکہ ان کے اندر الیکشن جیسی قومی سرگرمی اور حرکت کا عمل مشکل ہو جائے اور اسے قومی مفاد میں مناسب نہ سمجھا جائے۔
اس لیے عرض ہے کہ اس حکومت کے لیے سب لوگ خصوصاً اس کے بہی خواہ باوضو ہو کر قبلہ رخ بیٹھ جائیں اور اس کے دوام کے حق میں دعا کریں تا کہ کوئی ایسی صورت پیدا ہوجائے کہ الیکشن سے گلو خاصی ہو جائے ۔ لمبے عرصے کے لیے نہ سہی، ایک ڈیڑھ برس ہی سہی۔