آؤ اپنے ملک میں جھانکتے ہیں

یہ کام تو اس میدان میں لڑنے والے زندہ اور شہید جوان پہلے ہی کر گذرے ہیں


Aftab Ahmed Khanzada March 10, 2023
[email protected]

امریکا کے عظیم سابق صدر ابراہم لنکن نے گیٹس برگ کے میدان جنگ میں اپنی زندگی کی عظیم ترین تقریر کی تھی، ایک لاکھ ستر ہزار سپاہیوں نے اس جنگ میں حصہ لیا تھا اور سات ہزار مار ے گئے تھے لنکن نے دو منٹ سے بھی کم وقت میں اپنی تقریر ختم کر دی تھی۔

اس تقریر کے دوران ایک فو ٹو گرافر نے لنکن کی تصویر اتارنی چاہی لیکن اس سے پہلے کہ وہ پرانے کیمرے میں تصویر اتارتا لنکن اپنی تقریر ختم کر چکا تھا لنکن کی وہ تقریر آکسفورڈ یونیورسٹی کی لائبریری میں انگریزی زبان کے ایک عظیم نمونے کے طور پر محفوظ ہے۔

'' ہمارے آباؤ اجداد ستاسی سال پہلے اس سر زمین پر ایک نئی اور آزاد قوم کی حیثیت سے آئے تھے اور اس نظرئیے کے ماننے والے تھے کہ تمام لوگ پیدائشی طور پر ایک جیسے ہیں۔

اس وقت ہم ایک بہت بڑی خانہ جنگی سے گزر رہے ہیں تاکہ اس بات کا امتحان لیا جا سکے کہ وہ یا کوئی اور قوم اپنے نظریا کی پابند رہتی ہے کہ نہیں ۔ ہم اس جنگ کے ایک بڑے میدان میں جمع ہوئے ہیں ہم یہاں اس مقصد کے تحت اکٹھے ہوئے ہیں کہ اس میدان کا ایک بڑا حصہ ان لوگوں کے لیے آخری آرام گاہ کے طو ر پر وقف کر دیں جنہوں نے قوم کی زندگی کے لیے اپنی جانیں نچھاور کر دیں۔

یوں ہم نے بہت زندہ دلی کا ثبوت دیا ہے لیکن وسیع مفہوم میں ہمیں اس بات کا کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم اس کے کسی حصے کو کسی کے نام وقف کر دیں۔

یہ کام تو اس میدان میں لڑنیوالے زندہ اور شہید جوان پہلے ہی کر گذرے ہیں اور اس میں کمی بیشی کرناہماری طاقت سے باہر ہے۔ دنیا ہماری آج کی باتوں کو ذہن نشین رکھے گی لیکن اس میدان کا انتساب توہم زندوں کے نام پر ہونا چاہیے کیونکہ جس ناتمام کام کو مرنے والوں نے چھوڑا ہے۔

اس کی تکمیل ہمارے سر ہے ہمیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ مرنے والوں کی قربانیاں ضایع نہیں گئیں خدا کے حکم سے یہ قوم آزادی کی نئی فضاؤں میں سانس لے گی اور عوام کے لیے عوامی حکومت اورعوامی حکمران کا تصور ہماری زمین سے مٹا تو نہیں۔ ''آیئے! اپنے ملک میں جھانک کر دیکھتے ہیں کروڑوں لوگ جب اپنی بیچارگی ، بے اختیاری ، ذلت و خواری اور غربت و افلاس دیکھتے ہیں اور پھر جب ہم دن رات اپنے امرا حکمرانوں کے منہ سے سنتے ہیں کہ یہ عوامی حکومت ہے عوام کے ذریعے ہے اور عوام کے لیے اور ہم عوامی حکمران ہیں تو مارے شرم کے گردنیں جھک جاتی ہیں ۔

سارے عیش و آرام ، عیش و عشرت ، آرام و سکون ، ساری آسائشیں ، ساری عزتیں ، سارے اختیار ، ساری لذتیں ہمارے حکمرانوں کو کیوں حاصل ہے۔

چارلس اول 1625 میں انگلستان کا بادشاہ بناپارلیمنٹ نے1628 میں ' ' اعلان حقوق عوام '' کے نام سے اسے ایک تاریخی یادداشت پیش کی انگلستان کی تاریخ میں یہ ایک معروف دستاویز ہے اس یادداشت میں بادشاہ کو کہا گیا کہ وہ کوئی مطلق العنان حکمران نہیں ہے اور اپنی مرضی سے ہرکا م نہیں کر سکتا وہ لوگوں کو غیر قانونی طورپر قید و بند کی سزا نہیں دے سکتا عوام پر اپنی مرضی سے ٹیکس نہیں عائد کر سکتا ۔بادشاہ چارلس اس بات پر سیخ پاہوا کہ اسے کچھ باتوں میں پارلیمنٹ کا پابند کیا جارہا ہے۔

اس نے پارلیمنٹ توڑ دی اور اس کے بغیر حکمرانی کر نے لگا لیکن کچھ برسوں کے بعد بادشاہ چارلس مجبور ہو گیا کہ وہ دوبارہ پارلیمنٹ تشکیل دے کیونکہ ملک بھر میں اس بات پر شدید رد عمل پایاجاتا تھا کہ بادشاہ پارلیمنٹ کی مشاورت کے بغیر سلطنت چلارہا ہے نئی پارلیمنٹ بن تو گئی لیکن بادشاہ کے ساتھ اس کی محاذ آرائی شروع ہوگئی۔

1642میں خانہ جنگی شروع ہوئی ایک طرف بادشاہ تھا جس کا ساتھ امرا اور جاگیرداروں کے علاوہ فوج کا ایک بڑا حصہ دے رہا تھا، دوسری طرف پارلیمنٹ تھی جس کے ساتھ امیر تاجر اور لندن شہر تھا یہ خانہ جنگی کئی برسوں تک چلتی رہی پارلیمنٹ کی حمایت میں ایک بہت بڑا لیڈر کرامو یل سامنے آگیا ۔

کرامو یل کے بارے میں کارئل کا کہنا تھا '' خطرناک جنگ کی تاریکیوں میں وہ امید کا الاؤ بن کر روشن ہوا '' کراموئل نے ایک نئی فوج تشکیل دی، کرامویل نے ان میں جو ش و جذبہ بھر دیا پارلیمنٹ کا حامی مرد آہن اور چارلس بادشاہ کی فوج ایک دوسرے کے مد مقابل آگئے کراموئل با لآخر جیت گیا اور بادشاہ چارلس پارلیمنٹ کاقیدی بن گیا اسے ایک دہشتگرد، سازشی، قاتل اور ملک دشمن قرار دے کر سزائے موت سنادی گئی۔

1649میں یہ شخص جو کبھی ان کا بادشاہ ہوا کرتا تھا اور جو اپنے حکمرانی کے حق کو خدائی حق کہا کرتا تھا لندن کے وائٹ ہال میں اس کا سر قلم کر دیا گیا اور اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ بادشاہ بھی عام لوگوں کی طرح مرتے ہیں تاریخ میں بہت سے بادشاہ موت سے دو چار ہوئے ہیں مطلق العنانی، ناانصافی اور بادشاہت ، قتل اور خون ریزی کو جنم دیتی ہے ، لیکن کسی پارلیمنٹ کا خود کو عدالت بنا لینا ، بادشاہ پر مقدمہ چلانا اس کو سزائے موت کا مجرم ٹہرانا اور پھر اس کا سر قلم کر دینا ایک انوکھی بات تھی۔

انھوں نے ایک مثال قائم کر کے رکھ دی کہ سازشی اور ظالم بادشاہوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جانا چاہیے۔ بادشاہ پر پارلیمنٹ کی فتح دراصل عوام کی فتح تھی ۔

قائد اعظم نے نئی دہلی میں رائٹر کے نمائندے ڈون کیپمبل کو انٹر ویو دیتے ہوئے 1946 میں کہا تھا '' نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہوگی جہاں حاکمیت اعلیٰ عوام کے پاس ہوگی اورنئی قوم کے اراکین بلاتمیز مذہب ، ذات اور نسل کے یکساں حقوق کے مالک ہونگے'' یاد رہے قیام پاکستان کا سب سے بڑا مقصد عوام کی خو شحالی اور ان کا بااختیار ہونا تھا۔

ہیگل کہتا ہے کہ '' عقل کی دنیا پر حکمرانی ہے '' جب کہ افلا طون نے کہا کہ انسان پر اس سے بڑی مصیبت کوئی آہی نہیں سکتی کہ وہ عقل کی مخالفت شروع کر دے'' عوام کو طاقتور ، بااختیار اور خوشحال بنائے بغیر کبھی بھی پاکستان مضبوط مستحکم اور خوشحال نہیں بن سکتا۔ عوام کے مسائل حل کرنا اور ان کی زندگیوں کو آسان بنانا حکومت کا اولین فرض ہوتا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں