طویل نوکری کا راز
پاکستان میں کام کرنے کے انداز اور طریقے کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے بہت مختلف اور خاصے تکلیف دہ ہیں
برازیل کے والٹر ارتھ مین نے 84 سال اور نو دن تک ایک ہی ادارے کے ساتھ مستقل ملازمت کرکے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام لکھوا لیا۔
یہ صاحب 1922 میں برازیل میں پیدا ہوئے تھے، جنوری 1938 میں انھوں نے ٹیکسٹائل کمپنی کے ایک ڈیپارٹمنٹ میں معاون کی حیثیت سے کام شروع کیا تھا اس وقت ان کی عمر پندرہ برس تھی۔ انھوں نے مذکورہ فیکٹری میں ہی اپنی ملازمت برقرار رکھی جہاں انھیں ترقیاں ملتی گئیں اور وہ مراحل طے کرتے گئے لیکن ملازمت وہیں رہی۔ والٹر نے 19 اپریل 2022 کو اپنی سو سالہ زندگی کا کیک کاٹا۔
گھریلو معاشی مسائل نے والٹر کو اپنے گھر میں مدد کرنے کے جذبے نے کام کرنے پر مجبور کیا پہلی بار وہ اپنی والدہ کے ساتھ نوکری کے لیے اپلائی کرنے آئے تھے اور اپنی اچھی جرمن زبان کے باعث کمپنی میں ملازمت حاصل کی جہاں وہ ساری زندگی ملازمت کرتے رہے، والٹر کا کہنا تھا کہ :''1930 میں بچوں سے یہ امید کی جاتی تھی کہ وہ اپنے خاندان کی مدد کے لیے کام کریں۔
پانچ بچوں میں سے سب سے بڑا ہونے کی حیثیت سے میری والدہ مجھے لے کر نوکری کی تلاش میں اس وقت نکلی جب میری عمر محض 14 برس تھی۔'' والٹر نے اپنا ہی 81 سالہ ملازمت کا ریکارڈ توڑا ، جو انھوں نے 2019 میں قائم کیا تھا۔
برازیل کے والٹر ارتھ مین کی کہانی حقیقی دنیا میں بسنے والے لوگوں اور اداروں کے لیے ایک سبق ہے۔ انتھک محنت اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے کام سے محبت ہی وہ جذبہ ہے جو کسی بھی انسان کو آگے بڑھتے رہنے پر مائل کرتا ہے۔
صرف انسان ہی نہیں بلکہ ادارے بھی اپنے کام کرنیوالوں کی ہمت بڑھاتے اور بہتر سے بہترین کام کرنے کے جذبے کو سراہتے ہیں بلکہ سچ تو یہی ہے کہ کسی بھی ادارے میں مستقل کام کرنے کا جذبہ دراصل ادارے کے لیے بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔ ادارے ایسے ہی سینئر حضرات کے تجربات سے مزید نکھرتے ہیں اور نئے آنیوالوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوتے ہیں۔
والٹر جس کمپنی میں ملازم رہے وہ یقینا اپنے کام کرنیوالوں کے لیے ایسے حالات مہیا کرتی رہی جو کسی بھی شخص کو اس سے جڑے رہنے پر مجبور کر دے۔ صرف والٹر ہی نہیں بلکہ کیپرہیوٹ نامی ایک صاحب نے اس عمارت میں 63 سال کام کیا۔
پاکستان میں کام کرنے کے انداز اور طریقے کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے بہت مختلف اور خاصے تکلیف دہ ہیں۔ یہ صورت حال سرکاری اداروں کے مقابلے میں نجی اداروں میں خاصی دل گرفتہ ہے۔ ایسے حالات میں ایک کارکن کس طرح اپنی خدمات بہتر انداز سے انجام دے سکتا ہے جب اس کو تحفظات بھی ہوں۔
آئے دن اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں، فلاں بلڈنگ پر کام کرتا مزدور تیسری منزل سے گر کر جاں بحق ہو گیا ، فلاں کان میں مزدور دم گھٹنے سے موت کا شکار ہوگئے۔ اس درجے سے اوپر صاحب لوگ بھی کم دشواریوں کا شکار نہیں ہیں لیکن نامساعد حالات کے باوجود زندگی کی گاڑی کو چلانا ضروری ہے۔پاکستان میں کام کرنیوالے افراد بہت سے مسائل کا شکار ہیں۔
اس کے باوجود ملک میں کام کرنے والوں کی بدولت زندگی رواں دواں ہے گو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں پھر بھی باہمت لوگ اپنے کاموں میں جتے ہیں۔ مستجاب علی خان ایک باہمت کارکن جو کم عمری میں ہی قیام پاکستان سے قبل ہمدرد سے منسلک ہوگئے تھے۔
پاکستان کے قیام کے بعد مہاجرین نے یہاں کا رخ کیا لیکن دہلی میں پیدا ہونیوالے مستجاب علی خان نے جن کی شادی بھی کم عمری میں ہوچکی تھی وہیں قیام کو ترجیح دی اور اسی کمپنی کے لیے خدمات انجام دیتے رہے۔ وہ سب سے پہلے ورکر کی حیثیت سے بھرتی ہوئے تھے۔
زمانہ طالبعلمی میں آپ فٹ بال کے اچھے کھلاڑی تھے ایک گول کیپر کی حیثیت سے غیر منقسم ہندوستان میں کئی بڑے میچز بھی کھیلے۔ نوکری کے وقت ان کی عمر غالباً 16 ، 17 سال تھی۔
حکمت کا شعبہ برصغیر میں مسلمان اطبا کے حوالے سے بہترین شہرت رکھتا تھا ، ایسے میں اس ادارے سے منسلک ہونا ایک نوجوان کے لیے اعزاز کی حیثیت رکھتا تھا۔
کیونکہ ان کی لکھائی بہت اچھی تھی لہٰذا حکیم محمد سعید اور حکیم عبدالمجید اور دیگر کے پرانے نسخوں کی نسخہ بندی یعنی ترتیب سے نسخے ان سے لکھوائے گئے۔ ان کے ساتھ اس کام میں کچھ اور لوگ بھی شامل تھے۔
پاکستان بننے کے بعد 1952 میں پہلی بار وہ پاکستان آئے تھے اور اس کے بعد ان کا آنا جانا لگا رہا لیکن اپنی فیکٹری سے ان کا ناتا برقرار رہا۔آج ہمارے ہاں اداروں میں تعلیمی اسناد، شناختی کارڈ کے علاوہ دیگر تصدیقی اسناد بھی درکار ہوتی ہیں اس کے علاوہ میڈیکل فٹنس کے مراحل الگ لیکن پہلے زمانے میں اس طرح کے کاغذات اور جانچ پڑتال کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔
محنتی اور جفاکش افراد کو مواقع ملتے جاتے تھے اور کچھ ایسا ہی مستجاب علی خان کے ساتھ بھی ہوا جن کے پاس اعلیٰ تعلیمی اسناد تو نہ تھیں لیکن ان کے اندر بے شمار صلاحیتیں چھپی تھیں۔ اعلیٰ ذہنی معیار کی بدولت انھوں نے ایک ہی ادارے میں ایک عام سے ورکر سے لے کر کائنگ جیسے اہم شعبے کے ساتھ انچارج فیکٹری کے بھی امور انجام دیے۔
برازیل کے والٹر ارتھ مین اور مستجاب علی خان میں بہت فرق ہے والٹر ایک اچھی صحت اور ماحول کے ساتھ 100 کا ہندسہ بھی بخوبی عبور کرگئے اور اپنا ہی طویل نوکری کا ایک ہی کمپنی کے لیے ریکارڈ توڑ ڈالا جب کہ مستجاب علی خان آج کے دور کے لیے صرف ایک مثال ہیں کہ اگر حالات سازگار ہوں تو والٹر ارتھ مین جیسے نہ سہی مستجاب علی خان جیسے باہمت لوگ بھی ہیں جو غیر مساعد حالات میں بھی کام کرتے رہے۔
پاکستان میں مستقل منتقلی کے بعد بھی وہ اپنے ادارے سے جڑے رہے آج ان کی طویل نوکری کا دورانیہ اندازاً 70, 78 سال ہے جو ایک ادارے کے لیے یقینا قابل فخر بات ہے۔ہم ہمیشہ احساس کمتری کے تحت اپنے اردگرد نظر ہی نہیں دوڑاتے۔ ہمارے آس پاس نہ جانے کتنے ایسے ہیرے چھپے ہیں جو خاموشی سے اپنی روشنی سے اپنے اداروں کے لیے دعا بن جاتے ہیں۔
ہم مغرب کی تقلید میں بھول جاتے ہیں کہ ہمارا تعلق اب کس نوعیت کے حالات کا شکار ممالک کی فہرست میں ہوتا ہے۔ یہ مضمون مستجاب علی خان اور ان جیسے تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں طویل عرصے سے اپنی خدمات جاں فشانی سے انجام دینے والے خواتین و حضرات کے لیے ایک خراج تحسین ہی ہے۔
مستجاب علی خان آج 92 سال کے ہوچکے ہیں حال ہی میں لڑکھڑا کر گرنے کے باعث ان کی ہڈی فریکچر ہوگئی تھی۔ اس معمولی سے حادثے نے ان کی صحت اور یادداشت پر کافی اثر ڈالا ہے۔ امید ہے کہ ہمارے یہاں ایسے وفادار کام کرنے والوں کو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل تو نہیں کیا جاسکتا لیکن ملکی سطح پر ان کی خدمات کا اعتراف تو کیا جاسکتا ہے۔