ام ورقہ بنت نوفل اور حقوق نسواں
آج ہمیں عورتوں کا دن منانے اور ان کے حقوق کو اجاگر کرنے کی قطعی ضرورت پیش نہ آتی
عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر مختلف جگہوں پر اہم تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ اسی حوالے سے تعلیمی و فلاحی تنظیم ''سیوا'' نے بھی ''حقوق نسواں'' کے موضوع پر ایک شان دار محفل مقامی ہوٹل میں سجائی جس کی صدارت راقم الحروف اور مہمان خصوصی ممتاز شاعرہ عنبرین حسیب عنبرین نے انجام دی۔
پروگرام کی منتظم انیلہ قیوم جوکہ فلاحی اور سماجی کاموں کے حوالے سے اپنی خصوصی شناخت رکھتی ہیں اور ان کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہر دل عزیز ہیں، ان کی کاوشوں کا نتیجہ تھا کہ پروگرام کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ نیز یہ کہ فلاحی تنظیم ''سیوا'' کے صدر نسیم احمد شاہ ایڈووکیٹ کا کردار مثبت سرگرمیوں کے حوالے سے ہمیشہ فعال رہا ہے۔ مذکورہ پروگرام میں بھی ان کی حیثیت مسلم تھی۔
اگر پاکستان اسلامی قوانین پر عمل پیرا ہوتا تو آج ہمیں عورتوں کا دن منانے اور ان کے حقوق کو اجاگر کرنے کی قطعی ضرورت پیش نہ آتی، اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے ہی خواتین کو وہ عزت و مقام عطا فرما دیا تھا جس کی نظر دنیا بھر کے مذاہب میں نظر نہیں آتی ہے۔
عورت کو تمام حقوق اور اس کی جائز آزادی اسے ودیعت کردی گئی ہے، وہ ماں، بہن، بیٹی، بیوی کے مقدس رشتوں میں بندھی ہوئی ہے اسے وراثت میں بھی حصہ دار بنایا ہے، اس کی تنظیم و تکریم، اس سے محبت و شفقت اور اس کے تحفظ کو اسلام نے لازم قرار دیا ہے، اگر مرد گھر کا سربراہ ہے تو عورت گھر کی ملکہ ہے، اس کی ہی سلطنت میں تمام امور انجام دیے جاتے ہیں، بچوں کی پرورش سے لے کر گھر کی تمام ذمے داریاں وہ بہ خوبی انجام دیتی ہے۔
شوہر کا ادب و احترام اس کی سرشت میں شامل ہے کہ مذہب اسلام نے اسے یہی درست قرار دیا ہے اس نے اپنے گھر میں اپنی ماں کو اسلام کی بیٹی کے روپ میں دیکھا ہے، لیکن فی زمانہ زمانے نے کروٹ بدلی، اسلامی تعلیمات سے منہ موڑ کر مغرب کی نقالی ان کے رسم و رواج کو اپنانے میں اپنی دنیا اور عاقبت کو برباد کر بیٹھے جس کا نتیجہ معاشرے کے زوال کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
ہمارے سامنے اسلام کے حوالے سے بے شمار مثالیں موجود ہیں خصوصاً ازواج مطہرات اور صحابیاتؓ کی بہادری، شجاعت کے واقعات تاریخ اسلام کے صفحات کو جگمگا رہے ہیں انھوں نے جنگوں میں حصہ لیا، زخمیوں کی عیادت کے ساتھ ان کے زخموں پر مرہم لگایا اور کفار کا مقابلہ کرتے ہوئے شجاعت کا پیکر بن گئیں اور دشمن کو للکارتے ہوئے بہادری سے مقابلہ کرنے اور جنگوں میں حصہ لینے کی طالب رہیں۔
آج کے خصوصی دن سیدہ ام ورقہ بنت نوفلؓ کا واقعہ یاد آ گیا ہے، جنھیں شہید کیا گیا اور پھر انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے قاتلوں کو عبرت ناک سزا سے ہمکنار کیا۔
سیدہ ام ورقہؓ انصار کی جلیل القدر خواتین میں شمار ہوتی ہیں۔ یہ نہایت پرہیزگار، روزے رکھنے اور رات کو قیام کرنے والی تھیں۔ آپؓ حافظ قرآن تھیں۔ جس وقت قریش مکہ نے مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کا ارادہ کیا تو رسول پاک ﷺ منادی کے ذریعے تمام مسلمانوں کو مشرکین مکہ کے لیے جہاد کرنے کے لیے بلا رہے تھے، مسلمانوں نے لبیک کہا اور جماعت در جماعت تن تنہا میدان جنگ کی طرف دوڑتے چلے گئے۔ ام ورقہؓ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق چلی آئیں۔ ترجمہ: ''اے پیغمبرؐ! کافروں اور منافقوں سے لڑو، اور ان پر سختی کرو، اور ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔ اور وہ بری جگہ ہے۔'' (التوبہ:73)
نبی اکرمؐ ہر جمعہ والے دن ام ورقہ کے گھر تشریف لے جاتے تھے، انھوں نے غزوہ بدر کے دن اپنی یہ خواہش ظاہر کی تھی، اللہ کے نبیؐ! اگر آپؐ کی اجازت ہو تو میں جہاد پر جانا چاہتی ہوں۔ میں بیماروں کی دیکھ بھال اور زخمیوں کا علاج کروں گی۔ ہو سکتا ہے اللہ مجھے شہادت کے مرتبے سے نواز دے۔ رسول پاکؐ نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ یقینا تمہیں شہادت کا اعزاز عطا فرمائے گا، اس کے بعد ہی ان کے نام کے ساتھ شہیدہ کا اضافہ ہو گیا، لوگ انھیں سیدہ ام ورقہ شہیدہ پکارنے لگے۔
رسول پاکؐ نے انھیں گھر میں رہنے کی تاکید کی تھی۔ وہ گھر کے بجائے جنگ بدر میں حصہ لینا چاہتی تھیں لیکن آقائے دو جہاں، خاتم النبین کے حکم کو ٹالنا ناممکنات میں سے تھا، سورہ نساء 80 کی یہ آیت ان کے سامنے تھی۔ ترجمہ: ''جو شخص رسول اللہؐ کی فرمانبرداری کرے گا تو بے شک اس نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی اور جو نافرمانی کرے تو اے پیغمبر! تمہیں ہم نے ان کا نگہبان بنا کر نہیں بھیجا ہے۔''
میدان جنگ میں حضورپاکؐ اپنے رب کریم سے دعا فرما رہے ہیں کہ وہ اپنے وعدے کو پورا کرتے ہوئے مومنین کو نصرت فرمائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کی دعا قبول فرمائی اور سیدہ ام ورقہؓ کی دعا کو بھی شرف قبولیت بخشا۔ آج قریش مکہ کے 70 سرکش لوگ واصل جہنم ہوئے اور 70 مسلمانوں کی قید میں تھے۔ سیدہ ام ورقہؓ بہت خوش ہیں اور رسول اکرمؐ کے فرمان کے مطابق اپنی شہادت کی منتظر۔
سیدہ ام ورقہؓ اللہ کے حکم پر عمل پیرا ہیں، عبادت گزار اور متقی ہیں، وہ رات کو اٹھتیں اور بلند آواز سے قرآن پاک کی تلاوت کرتیں اور جب عمر بن خطابؓ نماز فجر کے لیے جاتے تو ان کے دروازے سے گزرتے ہوئے ان کی تلاوت سن کر بہت خوش ہوتے اور فرماتے یہ میری خالہ ام ورقہؓ کی آواز ہے۔ اری خالہ! تیرا قیام مبارک ہو اور تیری تہجد اور تیری تلاوت تیرے لیے باعث سعادت ہو اور تو خوش خبری سن لے کہ تیرا پروردگار تجھے ضرور اس کی جزا دے گا۔ وہ کسی کا نیک عمل ضایع نہیں کرتا ہے۔
تلاوت قرآن نے ام ورقہؓ کی روح کو روشن کر دیا تھا، ان کے دل میں دوسروں کے لیے شفقت اور محبت در آئی تھی، وہ اپنے ہاں نماز کے لیے آنے والی تمام مہاجر اور انصار خواتین کی عزت و محبت میں کمی نہ آنے دیتیں۔ ذمے داریوں کا بوجھ اس بات کا متقاضی تھا کہ کوئی ان کا مدد گار ہو، لہٰذا انھوں نے ایک غلام اور ایک کنیز کو رکھ لیا۔
انھوں نے ان دونوں کو یہ خوش خبری بھی سنا دی کہ بعد میرے مرنے کے تم دونوں آزاد ہو جاؤ گے۔ ان دونوں نے اپنی کم ظرفی اور چھوٹے پن کو اس طرح ظاہر کیا کہ ایک رات ان کے منہ پر گدا رکھ کر انھیں جان سے مار دیا۔ اور اپنی آخرت برباد کرلی۔ اور جب حضرت عمر بن خطابؓ کا وہاں سے گزر ہوا، تو وہ تلاوت کی سحر انگیز آواز سے محروم تھے۔
نماز سے واپسی پر اپنے ساتھیوں سے ذکر کیا، صحابہ کرام اور حضرت عمرؓ جب ان کے گھر پہنچے تو منظر ہی بدلا ہوا تھا، جسے دیکھ کر وہ سب غم سے نڈھال ہوگئے، غلام اور کنیز کو حاضر ہونے کا حکم دیا، ان دونوں نے اپنا جرم قبول کرلیا۔ حضرت عمرؓ نے انھیں پھانسی پر چڑھانے کا حکم دیا۔ یہ دو پہلے افراد تھے جنھیں مدینے کے دروازے پر پھانسی دی گئی تاکہ دوسرے عبرت کا نشان بن جائیں۔ اگر ہمارا قانون انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے تو یہ گل گلزار ہوجائے۔ ایک اسلامی ملک کے سربراہ کو سچا مسلمان ہونا چاہیے، تاکہ سب کو برابر کے حقوق حاصل ہوں۔