نگاہِ آئینہ ساز میں
ایک واقعہ صرف ایسا تھا کہ جس میں بڑے پیمانے پر لوگ مارے گئے تھے
تاریخ کے نام پر ہم جو کچھ پڑھتے ہیں وہ دراصل حقیقت کا محض ایک رخ ہوتا ہے۔ ایک تاریخ وہ تھی جو بادشاہ لکھوایا کرتے تھے یا ان کے زمانے میں لکھی جاتی تھی۔
ایسے مؤرخ جو درباروں سے وابستہ نہیں ہوتے تھے ان کی لکھی ہوئی تاریخ میں بھی اس دور کے حکمرانوں اور اشرافیہ سے متعلق واقعات اور کہانیاں بیان کی جاتی تھیں۔ سما ج کو آگے بڑھانے اور تاریخ ساز واقعات رقم کرنے میں عام انسان کا کلیدی کردار ہوتا ہے جسے ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔
مشہور مؤرخ تھامپسن کا کہنا ہے کہ ہم نے اب تک تاریخ کو طبقہ اشرافیہ کی نظر سے دیکھا ہے۔ ضرورت اس کی ہے کہ تاریخ کو معاشرے کی نچلی سطح سے دیکھا جائے کیونکہ عام لوگ ہی معاشرے کی تعمیر اور تاریخ کے ارتقاء میں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس تناظر میں ''زبانی تاریخ'' کے حوالے سے تاریخ نویسی کا ایک نیا پہلو سامنے آیا ہے۔
پچھلے دنوں ایک کتاب ''نگاہ آئینہ ساز میں'' نظروں سے گزری جس میں ہمارے مہربان اور مربی رشاد محمود نے ایسے تاریخی واقعات بیان کیے ہیں جو ان کی یادوں میں محفوظ ہیں۔ انھوں نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ زبانی تاریخ نویسی کا ایک بڑا اعلیٰ نمونہ ہے۔ زیادہ تفصیل میں جائے بغیر آئیے ایسے چند تاریخی واقعات کا ذکر ہوجائے جو رشاد محمود نے زبانی طور پر لکھوائے ہیں۔ تحریک آزادی کے دور سے لے کر آج تک برصغیر کسی نہ کسی حوالے سے فرقہ وارانہ تقسیم کی کیفیت سے باہر نہیں نکل سکا ہے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں۔
ہندو، مسلم، ملک، سماج، معاشرے کی اس تقسیم کو ذہن ہمارا آج تک قبول نہیں کرپایا۔ مجھے یاد ہے جب فساد ہوا تھا اس دن فائرنگ سے دو لوگ مارے گئے تھے۔ ان کی لاش لے کر قصائی محلے سے مسلمانوں کا جلوس نکلا تو ان لاشوں کو باقاعدہ جلوس کے ساتھ مجمع میں ہتھیاروں سے لبریز ہوکر گزارا گیا۔
قبرستان ہندوئوں کے محلے میں تھا تو وہاں جانے کے لیے جلوس میں موجود لوگ بے دردی سے چلتے لوگوںکو چھروں اور خنجروں سے زخمی کرتے آگے بڑھتے چلے جارہے تھے۔ اس جلوس کے ساتھ ہم بھی تھے اور جب یہ بھگدڑ مچی تو ہم نے اپنی جان بچانے کے لیے وہاں واحد بینک، حبیب بینک جو کہ محمد علی روڈ پر تھا، اس کے شٹر کھلے ہوئے تھے جس میں ہم جاگھسے اور تین چار گھنٹے بعد جب امن ہوا تب ہمیں وہاں سے گارڈ نے نکالا۔
یہ سب صورتحال ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی جس میں بے گناہوں کو مارا گیا۔ عیسائی، ہندو سب مارے جارہے تھے۔ فسادات اور تقسیم کے وقت ہم پارٹی کے دفتر جاتے تھے اور وہاں کرشن چندر کا فسادات پر افسانوں کا مجموعہ ''ہم وحشی ہیں'' پڑھا۔ پھر ''شاہد'' پرچہ جو نکلتا تھا اس کے ایڈیٹر عادل رشید نے ''درندے'' کے نام سے افسانے لکھے، وہ پڑھے اور فسادات پر راما نند ساگر کا ناول ''اور انسان مرگیا'' بھی پڑھی۔
فسادات میں صرف پولیس ہی ملوث رہی، کوئی فوج نہ تھی۔ ایک واقعہ صرف ایسا تھا کہ جس میں بڑے پیمانے پر لوگ مارے گئے تھے۔ ۱۹۴۶ء کی بغاوت کے بعد، دو سابق فوجی جو مشین گن لے کر ہندوئوں کے محلے میں جو کالبا دیوی روڈ پر تھا، وہاں سے فائرنگ کرتے ہوئے اس محلے میں داخل ہوئے۔ وہ محلہ ایک ڈیڑھ میل کے فاصلے پر ختم ہوتا تھا۔
آزاد میدان چوک پر جو دھوبی تالاب بھی کہلاتا تھا یہ فوجی وہاں تک فائرنگ کرتے ہوئے گئے اور اس میں ڈیڑھ دو سو آدمیوں کو مارا گیا۔ یہ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ قتل ان فوجیوں نے کیا ہے۔
فسادات میں یہ بات عیاں تھی کہ یہ سب کھلی سرکاری سرپرستی میں ہورہا ہے جب حکومت انگریزوں کی تھی اور وہ فرقہ واریت کو ہوا دے رہی تھی۔ اس دوران میں ترقی پسند تنظیموں اور لوگوں نے جو امن پسند اور سیکولر تھے، انھوں نے بھی بھرپور کردار ادا کیا۔
خواجہ احمد عباس، بلراج سا ہنی، پرتھوی راج، دلیپ کمار اور دیگر بہت سے ادیب، شاعر اور اداکاروں کی رہنمائی میں بمبئی کے فساد زدہ علاقوں میں امن مارچ نکالا گیا جس کو عوام میں پذیرائی ملی۔
اپنی سیاسی زندگی کے تجربوں کا ذکر وہ ان الفاظ میں کرتے ہیں۔ ۱۹۴۹ء میں مجھے پارٹی کا کارڈ مل چکا تھا۔ ۱۹۵۳ء میں ہمیں پارٹی نے آل ٹائمر رکھ دیا تھا تو اس دوران جہاں جلسے ہوتے تھے وہاں پارٹی کے جھنڈے لگانا، پوسٹر لگانا اور دیگرانتظام ہمارے ذمے ہوتے تھے۔ انقلاب چین کے دوران بھی کمیونسٹ پارٹی کی سرگرمیوں میں ہم فعال رہے۔ ہم نے انقلاب چین کے دوران بمبئی کی گلیوں میں نظمیں گائیں۔
ہندوستان میں انقلابی نظموں کے شاعر نیاز حیدر نے بے شمار نظمیں لکھیں۔ اصل بات یہی ہے کہ وہ تحریک کے فن سے وابستہ تھے، نرگسیت نہ تھی، انقلابی رومانیت نہ تھی اور عمل سے وابستہ تھے۔ کیفی اعظمی نے ہمارے ساتھ گلیوں میں اخبار بھی فروخت کیا ہے۔ ان سے ہمارا پانچ سال تک تعلق رہا ہے۔ اسٹالن کی موت پر کیفی اعظمی ایک بہت بڑا جلوس لے کر نکلے تھے۔
کراچی آنے سے پہلے لاہور میں انھوں نے کچھ وقت گزارا۔ اس خوبصورت شہر کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں لاہور کا ہمیں ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ ملکہ الزبتھ اور فلپ لاہو رکے دورے پر آئے تھے جب ان کی شادی ہوئی تھی۔ فلپ کو پولو کھیلنے کا شوق تھا لہٰذا ان کے لیے کھیل کا بندوبست کیا گیا۔
کھیل کے دوران انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ ایک شہنشاہ ہند یہاں ہوا کرتا تھا جن کی پولو کے کھیل دوران جان چلی گئی، ہمیں اس کی قبر پر لے جایا جائے۔ میرا کام انار کلی بازار میں تھا تو صبح و شام ان کی قبر کے پاس سے ہمارا گزر ہوتا تھا۔ وہ شہنشاہ قطب الدین ایبک تھے جن کی قبر ایک چھوٹے سے کمرے میں تھی جس کے اوپر بلڈنگ بنی ہوئی تھی، اس پر گندے نالے کا پانی بہتا تھا اور کوٹھے پر سے سب غلاظت آتی تھی۔
جب ہم نے یہ خبر پڑھی تو ہم نے سوچا کہ یہ اس گندگی میں کیا دکھائیں گے۔ دوسرے دن بھگدڑ مچ گئی اور صفائیاں شروع ہوگئیں لیکن وہاں مکان تھے اور دکانیں تھیں تو سب خالی کروانا مشکل تھا مگر کسی صورت انھوں نے فلپ کے آنے کا انتظام کردیا تھا۔ فلپ جب وہاں کا دورہ کرچکا تو اسی کے طفیل سے وہاں ترقیاتی کام ہوا۔ وہ بلڈنگ تڑوائی گئی اور اس کا احاطہ بنایا گیا۔ اس احاطہ میں قطب مینار کی طرز کے ستون بنوائے گئے اور اس طرح اس یادگار کو محفوظ کیا گیا۔
ایک اور واقعہ ملکہ الزبتھ کے حوالے سے مجھے یاد ہے جس میں، میں براہ راست شریک رہا۔ ہم ''صدیقی گلاس ٹریڈنگ'' کے شوروم میں شیشے کا کام کرتے تھے۔ ایوب کا مارشل لاء لگا ہوا تھا۔ ایک روز مارشل لاء کے جھنڈے کے ساتھ گاڑی آکر رکی جس میں سے تین چار بیگمات اتریں۔ ان میں سے ایک منظور قادر کی والدہ تھیں اور ایک جنرل برکی کی بیگم تھیں۔ وہاں گرلز گائیڈ کے نام سے ایک ادارہ تھا وہ وہاں آئی تھیں۔
انھوں نے مجھے الزبتھ کی ایک تصویر دی کہ اس کا فریم بنادو۔ وہ فریم جب ہم نے تیار کرلی تو وہ دو تین روز بعد آئیں اور اسے لے کر چلی گئیں۔ آٹھ روز بعد وہ بیگمات ملٹری پولیس کے ساتھ دوبارہ وہاں آکر کھڑی ہوگئیں۔ انھوں نے کہا کہ جو تصویر آپ نے ہمیں فریم بناکر دی ہے، وہ یہ تصویر نہیں ہے جو ہم نے آپ کو دی تھی اور ملکہ الزبتھ کی جو تصویر اس زمانے میں انھوں نے جتنے لوگوں کو دی ہے اس میں ملکہ الزبتھ کے دستخط ہوا کرتے تھے۔
ہم نے جواباً کہا کہ آپ نے ہمیں جو تصویر دی تھی ہم نے اسی کو فریم بناکر دیا ہے۔ انھوں نے وہاں بہت تماشہ لگایا اور ہمیں دھمکایا گیا، جس پردکان کے مالک صدیقی صاحب بھی باہر آگئے مگر وہ بیگمات کسی طرح خاموش نہ ہورہی تھیں اور ہم بھی اپنی بات پر اَڑے رہے۔ وہ ہر چند روز بعد آکر تماشہ کھڑا کردیتی تھیں۔
ایک روز ہماری دکان کے مالک نے برٹش کاؤنسل کو خط لکھا کہ گرلز گائیڈ کی عہدیدار اس طرح ہمیں الزام دے رہی ہیں اور دھمکارہی ہیں جس کے جواب میں برٹش کاؤنسل سے خط موصول ہوا اور کہا گیا کہ ایسا واقعہ اور بھی بہت سی جگہوں پر ہورہا ہے جہاں ملکہ الزبتھ کی بغیر دستخط کے تصاویر بھیجی جارہی ہیں۔ وہ دن تھا اور اس کے بعد وہ بیگمات ہمیں کہیں نظر نہیں آئیں۔ یہ واقعہ ہم سے کسی طور فراموش نہیں ہوپاتا اور ہمارے ذہن پر نقش ہے۔
رشاد محمود صاحب کے انٹرویوز پر مبنی اس کتاب کی ترتیب و تدوین ڈاکٹر جعفر احمد نے کی ہے۔ امید ہے وہ زبانی تاریخ نویسی کے اہم کام کو آیندہ بھی جاری رکھیں گے۔