قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلیے مزید قرضے لینے کا فیصلہ

سرکاری اداروں کاخسارہ پورا کرنے اور دیگراخراجات کیلیے 1.5ٹریلین کا قرضے لیاجائیگا


Salman Siddiqui March 12, 2023
آئی ایم ایف پروگرام میں ٹی۔بلز اور پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز سے قرض لینے کی ممانعت۔ فوٹو: فائل

حکومت نے خسارے میں جانے والے سرکاری اداروں کے ملازمین کو ماہانہ تنخواہوں کی ادائیگی اور دوسرے اخراجات پورے کرنے کے علاوہ پہلے سے لیے گئے قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلیے مارچ سے مئی2023ء کے تین مہینوں کے دوران 1.5ٹریلین روپے کے مزید قرضے لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

حکومت نے مجموعی طور پر لیے جانے والے قرضوں کا ہدف سات ٹریلین روپے مقررکیا ہے ،ان قرضوں کے بڑا حصہ یعنی 5.5 ٹریلین روپے مالیاتی اداروں سے لیے گئے پہلے قرضوں پر سود کی مد میں ادا کردیا جائے گا۔

عارف حبیب لمیٹڈکے ہیڈ آف ریسرچ طاہر عباس کے مطابق آئی ایم ایف قرضہ پروگرام کی بحالی میں تاخیر کے سبب حکومت پاکستان پر اندرونی قرضوں کا بوجھ بڑھتا جارہاہے۔ حکومتی اخراجات میں سب سے بڑا حصہ اب قرضوں پر سود کی ادائیگی ہوتا ہے۔

دوہفتے قبل موڈیز کا اپنی رپورٹ میں کہنا تھا کہ پاکستان مالی سال 2023ء میں اپنی آمدنی کے نصف سے زیادہ صرف سود کی ادائیگی پر صرف کریگا۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے مارچ میں پالیسی ریٹ 300 بیسز پوانٹس بڑھا کرشرح سود کو20 فیصد کردیا ہے جس سے حکومت کیلئے کمرشل بینکوں سے مزید قرضہ لینا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ اس سال تک حکومت ہی نے کمرشل بینکوں سے سب سے زیادہ قرضے لے رکھے ہیں۔ملک کے دفاعی اخراجات کے علاوہ سبسڈیز اور سوشل اخراجات بھی بڑا درد سربن چکے ہیں۔

الفا بیٹا کورہیڈ آف ریسرچ خرم شہزاد نے کہا روپے کی قدر میں حالیہ کمی کے بعد بیرونی قرضوں کے حجم مزید کوئی نئے قرضے لیے بغیر ہی بڑھ گیا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں ملکی کرنسی کی قدر میں 10روپے کمی سے ملک پر قرضوں کا بوجھ 1.3 ٹریلین روپے بڑھ جاتا ہے۔یوں جولائی 2022ء سے جنوری 2023ء تک قرضوں میں 55 ٹریلین روپے کا اضافہ ہوچکاہے۔

حکومت پاکستان کمرشل بینکوں سے اب نئے قرضے ٹی۔بلز اور پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز(PIBs)کی فروخت سے حاصل کریگی۔لیکن آئی ایم ایف اپنے 6.5 ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام کی بحالی کیلیے ایسے قرضوں کی ممانعت کرچکا ہے۔حکومت نے ٹیکسوں میں اضافہ کرکے اپنی آمدنی بڑھائی ہے لیکن پبلک سیکٹر ترقیاتی پروگرام میں بھاری کٹوتی کے باوجود بجٹ اخراجات پر قابو نہیں پایا جارہا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں