اسرائیلی امداد رکوانے کی عالمی مہم
فلسطینیوں کے لیے ایک خوش خبری ہے۔ دنیا اسرائیل کے خلاف ایک تاریخی کام کرنے کے لیے متحد ہو چکی ہے
فلسطینیوں کے لیے ایک خوش خبری ہے۔ دنیا اسرائیل کے خلاف ایک تاریخی کام کرنے کے لیے متحد ہو چکی ہے۔ اس لیے کہا جانا چاہیے کہ 15 اپریل 2014ء فلسطین پر ناجائز قبضہ جما کر قائم کی جانے والی نسل پرست یہودی (یعنی صہیونی ) ریاست اسرائیل کے خلاف ایک تاریخی دن ہو گا کیونکہ دنیا کے کئی ممالک میں امریکی سفارتخانوں اور قونصلیٹس کے سامنے Stop U.S.-aid to Israel کے تحت امریکی امداد برائے اسرائیل رکوانے کا عالمی دن منایا جائے گا۔ یہ دن ہی کیوں، اس مقصد کے لیے کوئی اور دن کیوں نہیں؟ اس سوال کا جواب اس دن کی اپنی تاریخی حیثیت ہے کیونکہ اس دن امریکی شہری سالانہ آمدنی ٹیکس جمع کرواتے ہیں۔ اور اسی عوامی ٹیکس کی ایک خطیر رقم اسرائیل کو امداد کے نام پر دے دی جاتی ہے۔ صہیونی ریاست کا ناجائز قیام دوسری جنگ عظیم کے بعد عمل میں آیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا کی طرف سے جتنی امداد اسرائیل کو دی گئی، دنیا میں کسی اور کو نہیں دی۔
صرف یہی ایک خوش خبری نہیں ہے۔ اس مہم کے علاوہ بھی 15 بین الاقوامی سطح کی تنظیموں کا اتحاد Stop $ 30 billion to Israel Coalition to موجود ہے۔ امریکا و یورپ کے اعلی تعلیمی اداروں اور وہاں اساتذہ کی صفوں میں بھی ایسے باضمیر افراد پائے جاتے ہیں۔ یہ افراد اور ان کی تنظیمیں اسرائیل کا تعلیمی بائیکاٹ کرتے ہیں۔ اقتصادی بائیکاٹ کے لیے بھی بعض گروہ اور نامور شخصیات سرگرم ہیں۔ لیکن پرامن و مہذب احتجاج کے باوجود امریکی و یورپی حکمرانوں کی بے حسی برقرار ہے۔
صہیونی جریدے دی مارکر کی تحقیق کے مطابق امریکا نے اسرائیل کے قیام سے پچھلے سال تک اسرائیل کو 233.7 بلین ڈالر کی امداد فراہم کی ہے۔ امریکی صدر بش کے دور صدارت میں اسرائیل کو دس سال میں 30 بلین ڈالر کی امداد منظور کر لی تھی۔ امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے اراکین سینیٹرز کیلی ایوٹ اور جو ڈونلی نے حالیہ دورہ مقبوضہ یروشلم میں وہ سالانہ 3 بلین ڈالر فوجی امداد 2017ء کے بعد بھی جاری رکھنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ صہیونی وزیر جنگ نے امریکی صدر کی تذلیل کرنے کے لیے ایک طنز آمیز بیان دیا لیکن امریکی حکومت تا حال اس کی جانب سے معذرت کا ختم نہ ہونے والا انتظار کر رہی ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بنجامن نیتن یاہو کی پہلی وزارت عظمیٰ کے دور میں امریکی یہودی مارٹن انڈائک صہیونی ریاست میں امریکی سفیر تھے۔ ان سے ناراض ہو کر نیتن یاہو نے اس یہودی امریکی سفیر کو گالی دیتے ہوئے کہا تھا کہ You are a son of a bitch.
لیکن امریکا کی ڈھیٹ حکومت کے کان پر نہ تب کوئی جوں رینگی تھی اور نہ ہی اب۔ اسرائیل اور نیتن یاہو آج بھی امریکیوں کا پسندیدہ ترین، قریب ترین قابل اعتماد اتحادی ہیں۔ امریکا کی اس بے جا اور خود کو قربان کر کے صہیونی ریاست کا دفاع کرنے کی پالیسی کے خلاف امریکی ٹیکس ادائیگی کے دن 15 اپریل کو دنیا بھر میں امریکی سفارتخانوں اور قونصلیٹوں کے سامنے احتجاج کے لیے دنیا بھر میں فلسطین کے حامی متحرک ہو چکے ہیں۔ ان امریکیوں اور یورپی شہریوں کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک میں بھی یہ دن منانے کے لیے احتجاج کے پروگرام مرتب کیے جا رہے ہیں۔ دنیا کے مختلف خطوں میں آباد مختلف رنگ و نسل و زبان کے انسانوں میں یہ عدیم النظیر اتفاق رائے قابل ستائش ہے۔ ان سب کی متفقہ رائے ہے کہ صہیونی ریاست اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب ہے۔ وہ دیگر انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا بھی مرتکب ہے۔
عالمی رائے عامہ یہ سمجھتی ہے کہ فلسطینی مظلوم ہیں۔ ان کے بنیادی انسانی حقوق پامال کیے گئے ہیں اور بدستور کیے جا رہے ہیں۔ اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے والے اور امریکی امداد بند کروانے کا مطالبہ کرنے اور اس کے لیے احتجاج کرنے والے یہ انسان سمجھتے ہیں کہ دنیا کا ہر وہ ملک، ادارہ اور شخصیت جو کسی بھی طریقے سے اسرائیل کی مدد کرتا ہے، اسے تقویت پہنچاتا ہے وہ اس بے لگام صہیونی ریاست کے ان انسانیت سوز مظالم اور جنگی جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ انسان امریکی شہریوں کے خون پسینے سے حاصل ہونے والے ٹیکس کی آمدنی دنیا کی تاریخ کی فرعون و شداد صفت صہیونی حکومت کے دوام اور استحکام پر خرچ ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے۔
امریکی حکومت، سیاستدان و دیگر اہم شخصیات خواہ یہودی ہوں یا غیر یہودی، ان کی اکثریت صہیونی ہو چکی ہے۔ امریکی سینیٹ، ایوان نمایندگان کے الیکشن ہو ں یا صدارتی الیکشن، میدان سیاست و اقتصادیات کا ہو یا ذرایع ابلاغ کے کا اندھا استعمال کر کے لڑی جانے والی تبلیغیاتی جنگ (میڈیا وار)، ہر محاذ پر صہیونیوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ اس ظالمانہ سامراجی صہیونی تسلط میں جکڑی ہوئی دنیا میں اگر فلسطینیوں کے حق میں کوئی آواز یورپی ممالک او ر امریکا میں بلند ہوتی ہے تو اسے دبا دیا جاتا ہے۔ آزادی اظہار رائے کے زمرے میں صہیونیت اور اسرائیل نہیں آتے۔ امریکی رکن ایوان نمایندگان پال فنڈلے نے ان حقائق کو اپنی دو کتابوں They dared to speak out اورDeliberate Deception میں بیان کیا ہے۔ لیکن ان حرکتوں کے بعد انھیں کس کرب کے عالم سے گزرنا پڑا یہ وہی جانتے ہیں۔
لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پال فنڈلے بھی اسرائیل کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرنے لگے ہیں حالانکہ اپنی کتاب میں انھوں نے خود صہیونیوں کی جعلسازی و فریب کاری کا پردہ چاک کیا تھا۔
جنگ عظیم دوم کی سیاسی و فوجی تاریخ پر اسپیشلائزیشن کے حامل برطانوی مورخ اور مصنف ڈیوڈ ارونگ کو جیل میں قید کر کے تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ انھوں نے صرف ہولوکاسٹ کے وقوع پذیر ہونے کے بارے میں کچھ سوالات اٹھائے تھے۔ اقوام متحدہ کے رچرڈ فاک بھی اسرائیل پر تنقید کی وجہ سے معتوب قرار پائے۔ لہٰذا 15 اپریل کو احتجاج کرنے والے باضمیر انسانوں کی کامیابی کے امکانات کم ہیں لیکن ان کا یہ عمل پوری دنیا کے لیے قابل تقلید ہے۔ وہ انسانی ضمیر کی عدالت میں کامیاب قرار پائیں گے۔ امریکا سمیت دنیا کے کسی ملک کا ڈالر، پونڈ یا ریال اسرائیل کے دفاع و تحفظ میں خرچ نہیں ہونا چاہیے۔ اس 15 اپریل کے احتجاج کی حمایت میں پاکستان میں بھی Stop U.S.-aid to Israel کے مطالبے کے ساتھ یہ یوم احتجاج منایا جانا چاہیے۔