14مارچ پنجاب کا یومِ ثقافت
14مارچ کو ’’پنجاب کلچر ڈے‘‘ منانا واقعتاً ایک شاندار اور قابلِ تحسین و تعریف فیصلہ ہے
کل 14مارچ2023کو پنجاب میں یومِ ثقافت (Pujab Culture Day) منایا جا رہا ہے۔ حکومتِ پنجاب نے اِس بارے اعلان تو کر دیا ہے لیکن الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اِس بارے کوئی اشتہاری اور آگاہی مہم نہیں چلائی گئی۔
اگرچلائی بھی گئی ہے تو نیمِ دروں، نیمِ بروں ۔ نہ ہونے کے برابر ۔ وجہ یہ ہے کہ پنجاب کی نگران حکومت کے وزیر اعلیٰ ، جناب محسن نقوی، کسی لاگ لپیٹ کے بغیر، ترنت کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس پیسے ہی نہیں ہیں؛ چنانچہ وہ سرکاری تجوری سے پنجاب میں جشنِ بہاراں اور میلوں ٹھیلوں کے لیے کوئی پیسہ نکالنے کے لیے تیار ہیں نہ راضی ۔اُن کی اِس مالی احتیاط اور حقیقت پسندی میں پنجاب کے نگران وزیر اطلاعات و ثقافت جناب عامر میر بھی شریک ہیں۔
سرکاری فنڈز کے حوالے سے محسن نقوی صاحب کی جز رسی اب ایک مقولہ سا بنتی جا رہی ہے ۔ سرکاری خزانے کو شیرِ مادر سمجھ کر ہڑپ کر جانے والے ہمارے سابقہ تمام حکمران بھی اگر ایسی ہی مالی احتیاط اور کفائت شعاری کا مظاہرہ کرتے رہتے تو آج ہمارے قومی ہاتھوں میں شرمناک کشکول نہ ہوتا۔
پنجاب کے یومِ ثقافت کے انعقاد کا اعلان واقعی ایک مستحسن اور قابلِ تعریف اقدام اور فیصلہ ہے ۔ ہم سب پنجابیوں کو اِسے کامیاب بنانے میں اپنا اپنا مقدور بھر کردار ادا کرنا چاہیے۔ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ اور وزیراطلاعات کو بھی ذاتی حیثیت میں اِس کا حصہ بننا چاہیے۔
ایسا نہ ہو کہ پنجاب بھر کے باسی تو پنجاب کے یومِ ثقافت کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے ہوں اور پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ صاحب اپنی سرکاری مصروفیات میں اِسے نظر انداز کر دیں۔آجکل ویسے بھی عمران خان کی سیاسی سرگرمیوں نے پنجاب کی نگران حکومت اور پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کے لیے ذہنی تناؤ کی فضا پیدا کررکھی ہے ۔
راقم نے راولپنڈی ایسے گیریژن سٹی کی اہم شاہراہوں پر چند ایسے کلر فل بینرز لہراتے ہُوئے دیکھے ہیں جن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ پنجاب کے یومِ ثقافت کی مناسبت سے آویزاں کیے گئے ہیں ۔
مجھے اپنے ڈاکٹر صاحب کو ملنے لاہور جانا ہُوا تو بھی ایسے ہی کئی رنگین بینرز لاہور کی مال روڈ پر بھی نظر نواز ہُوئے۔ خبروں میں بھی بتایا گیا ہے کہ 14 مارچ کو راولپنڈی اور لاہور میں،پنجاب سرکار کی زیر سرپرستی، پنجاب کلچر ڈے کے حوالے سے ڈرامے اور ٹیبلوز پیش کیے جائیں گے۔ اور یہ کہ پنجاب کی ثقافت سے مناسبت رکھنے والے کھانوں کی نمائش بھی ہوگی۔
اچھی بات ہے ، سوال مگر یہ ہے کہ کیا راولپنڈی اور لاہور ہی پنجاب کا نام ہے ؟ کیا سرکاری ہالز اور تھیٹروں میں چند ڈرامے اور چند مخصوص اور گھسے پٹے ٹیبلوز پیش کرنا ہی پنجابی ثقافت ہے ؟ آبادی کے لحاظ سے پنجاب ، پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے ۔پاکستانی اقتدار میں پنجاب کے سیاسی کردار کو غالب اور مرکزی حیثیت حاصل ہے، اگرچہ چاروں اکائیاں یکساں احترام اور طاقت کی حامل کہی جاتی ہیں ۔
سوال مگر یہ ہے کہ جس پنجاب میں کوئی ایک اخبار بھی پنجابی زبان میں شایع نہ ہو رہا ہو ۔ جس پنجاب میں کوئی ایک بھی بڑا پنجابی ٹی وی چینل عوامی مقبولیت نہ رکھتا ہو، اُس پنجاب میں پنجاب کلچر ڈے منانا کیا معنی اور مقام رکھتا ہے ؟
14مارچ کو ''پنجاب کلچر ڈے'' منانا واقعتاً ایک شاندار اور قابلِ تحسین و تعریف فیصلہ ہے۔پنجاب کی آبادی ، پاکستان کی کُل آبادی کا52فیصد ہے ۔ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ پنجابی گھروں میں کتنے بچے آجکل پنجابی زبان بول، سمجھ اور پڑھ رہے ہیں؟ اِس سوال کا جواب حوصلہ شکن ہے ۔ خود میرے بچے پنجابی زبان روانی سے بول سکتے ہیں نہ پڑھ سکتے ہیں ۔
پنجابی لکھنا اور پڑھنا تو بہت دُور کی بات ہے ؛ چنانچہ اِن بچوں کے لیے پنجاب کلچر ڈے منانا کیا معنی رکھتا ہے ؟ سچی بات یہ ہے کہ میرے بچے جب میرے ساتھ پنجابی نہیں بولتے ہیں تو مجھے رُوحانی طور پر اذیت ہوتی ہے۔ پنجابی زبان ہی نہیں ، ہم تو پنجابی لباس سے بھی دُور ہو چکے ہیں۔ چند ہفتے قبل مَیں دو دن کے لیے اپنے آبائی گاؤں گیا۔
دونوں دن گاؤں کی مسجد میں سب نمازیں ادا کیں ۔ مَیں نے مشاہدہ کیا کہ میرے گاؤں کے کسی نمازی نے تہمد یا دھوتی نہیں پہنی ہُوئی تھی ۔ سب شلوار قمیض میں ملبوس تھے۔ سوتی دھوتی، لَڑ والا تہمد اور ریشمی لاچا تو پنجابی ثقافت و لباس کی اہم نشانیاں ہُوا کرتی تھیں۔ اب یہ بھی تقریباً معدوم ہو چکی ہیں۔
اب تو ہماری پنجابی فلموں میں بھی یہ پنجابی لباس نظرنہیں آتا۔ گزشتہ روز لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک نون لیگی ایم این اے نے قومی اسمبلی میں شکوہ کیا کہ جب مَیں نے دھوتی پہن کر اسلام آباد کے ایک کلب میں داخل ہونا چاہا تو مجھے اندر نہیں جانے دیا گیا۔
ایسے میں پنجاب کلچر ڈے منانا چہ معنی دارد؟کئی ایسے مناظر یاد آ رہے ہیں جو تکلیف کا باعث بھی ہیں ۔ مجھے جس اسپتال میں مجبوراً ہر ہفتے دو بار باقاعدہ جانا پڑتا ہے ، وہاں ڈاکٹرز ، میل و فی میل نرسز اور صفائی کے عملے کو بھی پنجابی میں بات کرتے کم کم سُنا ہے۔
ایک دن راقم اسپتال میں بَیڈ پر لیٹا تھا کہ ساتھ والے بَیڈ پر لیٹے مریض کو ڈرپ لگاتی نرس پنجابی میں بات کررہی تھیں کہ اچانک کچھ دُور کھڑی ہیڈ نرس دوڑ کر آئیں اور نرس کو ڈانٹ کر کہا:'' پنجابی میں بات مت کرو۔''سُن کر مَیں تو سُنّ ہو کر رہ گیا۔
پنجاب میں ایسے افراد کے لیے پنجاب کلچر ڈے منانا شاید کوئی معنی اور اہمیت نہیں رکھتا۔ ایسے پنجابیوں کے سامنے وارث شاہ ، بابا بھُلے شاہ ، بابا فرید ، شاہ حسین ،میاں محمد بخش ، سلطان باہو کا کلاسیکی کلام پڑھنا بھینس کے آگے بِین بجانے کے مترادف ہے۔اب تو پنجابی نوجوان نسل بابا فضل گجراتی، احمد راہی، نجم حسین سید، شاکر شجاع آبادی، شریف کنجاہی، اُستاد دامن اور اختر حسین لاہوری کی پنجابی شاعری سے بھی آشنا نہیں ۔
آج پنجابیوں کی اکثریت افضل احسن رندھاوا، مقصود ثاقب، سعید بھٹہ، پروفیسر ریاض احمد شاد اور فرخندہ لودھی ایسے عظیم پنجابی فکشن رائٹرز سے آگاہ ہیں نہ ہمارے پنجابی'' تخلیق''،'' پنچم''اور'' ترنجن'' ایسے پنجابی جرائد پڑھ رہے ہیں۔ پنجابی کلچر تو پنجابی لوک داستانوں، افسانوں، ناولوں ، ڈراموں ہی میں ملتا ہے ۔
اگر پنجابی زبان ہم اور ہمارے بچوں کے لیے عزت اور ذریعہ معاش کا باعث نہیں بنتی تو کون پنجابی زبان لکھے، پڑھے اور بولے گا؟افسوس آج ہمارے درمیان سید سبط الحسن ضیغم ایسا کوئی ایک بھی قوم پرست پنجابی نہیں ہے جس نے پنجابی زبان اور پنجابی کلچر کا پرچم ببانگ دہل اُٹھا رکھا ہو۔
یاد رکھنے والی بات مگر یہ بھی ہے کہ اگر کوئی اپنے سیاسی مفادات کے لیے'' جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نُوں لگ گیا داغ'' کا نعرہ لگاتا ہے تو یہ پنجابی شاونزم ہے، تعصب ہے اور پنجابی کلچر سے دشمنی ہے۔
افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ پنجاب ہی کے ایک معروف مذہبی رہنما کہہ چکے ہیں کہ پنجابی گالیوں کی زبان ہے۔ اِس گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب ہی سے تعلق رکھنے والے عالمی شہرت یافتہ ناول نگار، عبد اللہ حسین، یہ بھی کہہ چکے ہیں:'' کاش میرا سارا ادبی کام پنجابی زبان میں ہوتا''۔یہ دراصل پنجابی زبان کی عظمت اور آفاقیت ہے۔