ان دُھتکارے ہوئے لڑکوں نے رکھ لی وطن کی لاج

اندھیروں میں زندگی گزارتے بچوں نے پاکستان کا نام روشن کردیا


سید بابر علی April 15, 2014
اسٹریٹ چائلڈ فٹبال ورلڈ کپ میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے والی پاکستانی ٹیم سے ملیے۔ فوٹو : فائل

ہمارے معاشرے میں سڑکوں پر زندگی بسر کرنے والے بچوں کو کبھی بھکاری کے نام سے پکارا جاتا ہے تو کبھی آوارہ کہا جاتا ہے، لیکن ان کی زندگی بدلنے اور اشک شوئی کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔

کراچی کی روش سڑکوں پر تاریکی میں زندگی گزارنے والے کچھ بچے اب طبقۂ اشرافیہ سمیت پورے ملک کی آنکھ کا تارہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ وہ ہی بچے ہیں جو کبھی گاڑیاں دھونے یا ایسے ہی چھوٹے موٹے کام کرتے تھے، لیکن ایک غیر سرکاری تنظیم کے توسط سے ان بچوں نے ثابت کر دکھایا کہ اگر ''اسٹریٹ چلڈرن'' کو مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ نہ صرف کسی بھی شعبے میں کام یابی حاصل کرسکتے ہیں بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کا نام بلند کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

آزاد فاؤنڈیشن نامی تنظیم نے ان معصوم بچوں کو اپنے خرچ پر برازیل میں ہونے والے دوسرے ''اسٹریٹ چائلڈ فٹ بال ورلڈ کپ'' میں بھیجنے کا انتظام کیا تھا۔ اور گلیوں کی خاک سمجھے جانے والے یہ بچے پاکستان کے ہیرو بن کر واپس لوٹے ہیں۔ ہم نے اس ٹیم کے ارکان اور آزاد فاؤنڈیشن کے عہدے دار عتفان مقبول سے ملاقات کرکے ٹیم کا حصہ بنے والے بچوں کی زندگی اور ٹیم کے تشکیل کے مراحل کے بارے میں ان سے بات کی، جس کی تفصیل قارئین کے لیے پیش کی جارہی ہے۔



آزاد فاؤنڈیشن کے مطابق ان مقابلوں میں شرکت کرنے کے لیے ان بچوں کو دعوت دی جاتی ہے، جن کا بچپن سڑکوں پر گزرا ہو۔ اس فٹ بال ورلڈ کپ میں شرکت کا معیار یہ مقرر تھا کہ اس مقابلے میں وہ بچے شرکت کر سکتے ہیں، جو بحال ہونے کے بعد معاشرے میں شامل ہو چکے ہوں۔

28 مارچ سے شروع ہونے والے بچوں کے اس عالمی فٹ بال کپ میں پاکستان کے علاوہ 19 دیگر ممالک کے 230 بچوں نے شرکت کی۔ خود کو منوانے کے لیے پْرجوش ان بچوں نے بہت محنت کی اور یہ جیتنے کے لیے بھی پُرعزم تھے۔ فٹ بال کے اِس عالمی کپ کا آغاز 28 مارچ کو برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں ہوا۔

ریوڈی جنیرو میں کھیلے گئے ابتدائی راؤنڈ کے میچ میں پاکستانی بچوں نے دفاعی چیمپیئن، بھارت کو تگنی کا ناچ نچایا اور پے درپے گول کرکے مخالف ٹیم کو اپنے شکنجے میں کس لیا۔ اور ریوڈی جنیرو کی سرزمین پر پاکستان نے بھارت کو ایک کے مقابلے میں 13 گول سے شکست دے کر سبز ہلالی پرچم سر بلند کیا۔

متواتر کام یابی حاصل کرکے ٹیم سیمی فائنل تک جا پہنچی۔ اگرچہ سیمی فائنل میں سخت محنت کے باوجود یہ بچے ناکام رہے، لیکن انہیں نہ صرف وہاں موجود ٹیموں سے زبردست پزیرائی اور عزت ملی، بلکہ دنیا بھر میں موجود فٹ بال کے پرستاروں نے بھی ٹیم کی کارکردگی کو سراہا۔

تیسری پوزیشن کے لیے ان کا مقابلہ امریکی ٹیم سے تھا۔ کانٹے کے مقابلے کے بعد پینالٹی ککس پر پاکستان فاتح ٹھہرا اور تیسری پوزیشن اپنے نام کر لی۔ اِس میچ میں پاکستانی گول کیپر نے اپنی صلاحیتوں کا شان دار مظاہرہ کیا۔ نوعمر پاکستانی گول کیپر محمد شعیب نے امریکیوں کی کوششیں ناکام بنا دیں۔ اور فتح پاکستان کے نام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

آزاد فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر امپلی مینٹیشن عتفان مقبول کا کہنا ہے کہ آزاد فاؤنڈیشن گذشتہ دس سال سے اسٹریٹ چلڈرن پر کام کر رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں سب سے پہلے میں آپ کو یہ بتادوں کہ ''اسٹریٹ چلڈرن'' ہیں کیا۔



اسٹریٹ چلڈرن کو ہم چار قسموں میں تقسیم کرتے ہیں پہلی سڑکوں پر رہنے والے، دوسری سڑکوں پر کام کرنے والے، تیسری اسکول سے بھاگنے والے اور چوتھی قسم بھکاری بچوں کی ہے۔ بھکاری بچے ''اسٹریٹ چلڈرن'' کی وہ واحد قسم ہے جو کسی نہ کسی مافیا کے دباؤ میں رہتی ہے، لیکن بقیہ تینوں اقسام کسی کی نظروں میں نہیں ہیں۔ اور نہ ہی یہ کسی مافیا کے دباؤ میں ہیں۔ اس ٹیم میں اِن تینوں اقسام کی کیٹیگری سے تعلق رکھنے والے شامل ہیں۔

عتفان مقبول کہتے ہیں کہ کراچی یونیورسٹی کے طلبا نے ''آزاد فورم'' کے نام سے ایک فورم بنایا تھا، جس کے تحت بیت بازی، تقریری مقابلے اور سیاسی و غیر سیاسی مباحثے ہوا کرتے تھے۔ یہ فورم آگے جا کر آزاد فاؤنڈیشن میں تبدیل ہوا۔ 1999/2000 میں ہم نے بچوں پر ایک تحقیق کی جس سے ہمیں پتا چلا کہ ''بے گھر بچے'' معاشرے کا ایک ایسا حصہ ہیں، جسے بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے، انہیں مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔

کوئی انہیں ''بھکاری'' کہتا ہے۔ کوئی انہیں ''یتیم'' کہتا ہے، لیکن درحقیقت یہ بچے ''اسٹریٹ چلڈرن'' ہیں جو ''غربت''، ''گھریلو تشدد'' اور دیگر عوامل کی وجہ سے گھروں سے بھاگ کر سڑکوں کو اپنا مسکن بنالیتے ہیں۔

تحقیق کے بعد اس بات کا انکشاف بھی ہوا کہ ان بچوں میں ''میڈیکل سیکنگ بی ہیویر'' (طبی امداد حاصل کرنے کی خواہش کا فقدان) نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ بچے نشے کی انتہا پر پہنچ کر بلیڈ یا کسی تیز دھار آلے سے اپنے جسم کے مختلف حصوں کو کاٹتے ہیں۔



عتفان مقبول بتاتے ہیں کہ 2012 میں ہمیں بین الاقوامی سطح پر 2010 سے شروع ہونے والے ''اسٹریٹ چائلڈ فُٹ بال ورلڈ کپ'' کے بارے میں چلا، جس کا اہتمام انگلینڈ کی ایک آرگنائزیشن ''امُوس ٹرسٹ'' کرتی ہے۔ ہم نے ''امُوس ٹرسٹ'' سے رابطہ کیا تو اُنہیں یقین ہی نہیں تھا کہ پاکستان میں ''اسٹریٹ چلڈرن'' کا مسئلہ موجود ہے، کیوں کہ 2011 میں ہونے والی کانفرنس میں ''اسٹریٹ چلڈرن'' کے مسائل پر150 ممالک کی جانب سے تجاویز پیش کی گئی تھیں، ان ممالک میں پاکستان شامل نہیں تھا۔ اُنہوں نے ہمیں کہا کہ آپ کے ملک میں تو یہ مسئلہ موجود ہی نہیں ہے تو پھر آپ یہ ''ورلڈکپ'' کیسے کھیل سکتے۔ پھر تین مختلف ممالک کی غیرسرکاری تنظیموں نے اُنہیں یقین دلایا کہ اسٹریٹ چلڈرن کا مسئلہ پاکستان میں موجود ہے۔

ستمبر 2012 میں اس ورلڈ کپ کے بانی رکن ''کرس روز'' پاکستان آئے۔ انہوں نے کراچی پریس کلب میں ذرایع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ مارچ 2014 میں ہونے والے دوسرے ''اسٹریٹ چائلڈ فُٹ بال ورلڈ کپ'' میں پاکستان کی طرف سے ٹیم شرکت کرے گی۔

عتفان مقبول کہتے ہیں کہ 2013 میں ہم نے بھرپور طریقے سے اپنی مہم کا آغاز کیا۔ ہماری کوشش تھی کہ ہم ''قومی سطح '' پر ایک ٹیم لے کر جائیں۔ ہم سب سے پہلے اسلام آباد گئے اور وہاں بچوں کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ''ساحل'' کے ساتھ ''ایم او یو'' (مفاہمتی یادداشت) پر دستخط کیے۔ اس کے بعد خیبر پختون خواہ میں ''دوست فاؤنڈیشن'' کے ارکان سے ملے اور اُنہیں اپنا مقصد بتایا۔



انہوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ انتہا پسندوں کی جانب سے دھمکیوں کے بعد ہم نے اپنے سارے پروگرام بند کر دیے ہیں۔ یہاں سے ناکامی کے بعد ہم نے پنجاب میں ''چائلڈ پروٹیکشن بیورو'' سے رابطہ کیا۔ بعد میں اُن کی جانب سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔ یہاں سے مایوس ہونے کے بعد آزاد فاؤنڈیشن نے بلوچستان میں اسٹریٹ چلڈرن کے لیے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم ''سحر فاؤنڈیشن '' کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے۔

کھلاڑیوں کے انتخاب کے لیے ہم نے ایک کیمپ کوئٹہ اور ایک کیمپ کراچی میں لگایا۔ کوئٹہ سے دو بچے منتخب ہوئے اور کراچی میں سو میں سے 24 بچوں کا انتخاب کیا گیا، جن میں سے زیادہ تر بچوں کا تعلق لیاری سے تھا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں فُٹ بال کا معیار زیادہ اچھا نہیں رہا ہے، چناں چہ بعض لوگوں نے ان بچوں کی حوصلہ شکنی کی۔ کسی نے کہا،''برازیل تو کیا یہ لوگ نواب شاہ تک نہیں جاسکیں گے۔'' کچھ لوگوںنے اُن بچوں سے کہا،''ہوسکتا ہے یہ تمہیں یہیں پر بے وقوف بنا کر چھوڑ دیں۔'' اِن سب باتوں کی وجہ سے بچے کیمپ سے جاتے رہے۔ آخر میں کوئٹہ سے ایک اور کراچی سے آٹھ بچوں کا حتمی طور پر انتخاب کیا گیا۔

شرافی گوٹھ کورنگی اسٹیڈیم میں ان بچوں کا ایک فائنل کیمپ لگایا گیا۔ یہ تین مہینے کا کیمپ تھا، جس میں ایک مہینے رہائش بھی دی گئی تھی۔ ٹیم کے نام کا اعلان ہونے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ اِن بچوں کی دستاویزات مکمل کرنا تھا۔ آپ یقین نہیں کریں گے کہ کچھ بچے تو ایسے تھے جن کے والدین تک کے شناختی کارڈز نہیں بنے ہوئے تھے۔ ہم نے پہلے اُن کے والدین کے شناختی کارڈ بنوائے اور پھر ان بچوں کے ''بے فارم'' اور ''پاسپورٹ'' بنوائے۔ عتفان کا کہنا ہے،''ان بچوں کی دستاویزات مکمل کرنے میں جس کرب کا سامنا کرنا پڑا وہ میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔ دستاویزات جمع کرنے میں چھے ماہ اور اُن کی تیاری میں پورے تین ماہ کا عرصہ لگا۔ دو بچوں کے پاسپورٹ تو ہمیں فلائٹ سے ایک دن پہلے ملے، کیوں کہ ان بچوں کو پاکستانی ماننے تک سے انکار کردیا گیا تھا۔ بچوں کے کاغذات کے حصول سے لے کر اُن کے سفری اخراجات تک حکومتی سطح پر ہماری کسی قسم کی مدد نہیں کی گئی۔''

اپنے اس سفر کی کہانی سناتے ہوئے عتفان مقبول کہتے ہیں کہ ایک نیم سرکاری ادارے کے ''ڈائریکٹر مارکیٹنگ'' نے سات بچوں کو اسپانسر کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔ تاہم انھوں ے مقابلے سے ایک مہینے قبل بچوں کو اسپانسر کرنے سے معذرت کرلی، جس کے بعد ہم نے اپنے بین الاقوامی پارٹنرز اور برطانیہ کی ایک تنظیم ''مسلم ہینڈز'' سے رابطہ کیا اور تعاون کی درخواست کی۔ مسلم ہینڈز نے ہماری بہت مدد کی اور اُن کے تعاون سے ہی پاکستانی جھنڈا برازیل میں لہرایا جا سکا۔ ان کے علاوہ ''یونیسیف''،''برٹش کونسل'' اور صوبائی وزیر سماجی بہبود وخواتین روبینہ سادات قائم خانی کا بھی تعاون ہمیں حاصل رہا۔



اُنہوں نے کہا کہ ٹیم میں شامل ہر بچہ ہمارا اثاثہ اور دوسرے بچوں کے لیے رول ماڈل ہے۔ 2015 سے ہم 2018میں روس میں ہونے والے تیسرے ''اسٹریٹ چائلڈ فُٹ بال ورلڈکپ'' کے لیے پورے پاکستان میں مہم کا آغاز کریں گے۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ 2018کا فٹ بال ورلڈ کپ پاکستان ہی جیت کر آئے گا۔ عتفان کا کہنا ہے کہ ہم نے رنگ و نسل، مذہب اور لسانیت کو پس پُشت ڈال کر خالصتاً میرٹ پر اِن بچوں کا انتخاب کیا تھا۔ ہماری ٹیم میں چار بلوچ ایک ہزارے وال، ایک سندھی ہے، دو اردو بولنے والے ہیں۔ نئی ٹیم کی تشکیل کے لیے ہم ان بچوں کے ساتھ پاکستان کے دس شہروں کا دورہ کریں گے اور وہاں اس مسئلے پر کام کرنے والے اداروں کے معاہدے کریں گے۔

ٹیم کے کپتان سمیر احمد نے اپنے بارے میں بتایا،''میری رہائش ماری پور میں ہے۔ کام دھندا نہ کرنے پرگھر والے ناراض ہوتے تھے۔ گھر چھوڑنے کے بعد سات ماہ کراچی کی مختلف سڑکوں پر رہا۔ دو تین مہینے ایک کمپنی میں بھی کام کیا۔'' سڑکوں پر گزرے شب و روز اور لوگوں کے رویوں کے حوالے سے سمیر کا کہنا ہے،''سڑک پر رہنے والے بچوں کے ساتھ کوئی بھی اچھا سلوک نہیں کرتا۔'' اس نے اپنے بارے میں مزید بتایا،''میں نے تعلیم حاصل نہیں کی۔ میرے بڑے بھائی اور والد صاحب فُٹ بال کے کھلاڑی رہے۔''

سمیر نے اسٹریٹ چائلڈ فُٹ بال ٹیم کے لیے انتخاب کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا،''انتخاب کچھ اس طرح ہوا کہ چار پانچ مہینے پہلے میں دوسرے لڑکوں کے ساتھ میدان میں فُٹ بال کھیل رہا تھا۔ ماری پور میں ایک فٹ بال کلب ہے، اُن لوگوں نے میرا کھیل دیکھ کر مجھ سے پوچھا، پاکستان کے لیے برازیل میں فٹ بال کھیلوں گے۔ مجھے فُٹ بال کھیلنے کا بہت شوق تھا، میں فوراً حامی بھرلی۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ کل دو تصویریں لے کر آجاؤ۔ دوسرے دن میں نے انہیں اپنی تصویر اور دیگر چیزیں فراہم کردیں۔ انہوں نے بہت پیار سے ساری بات سمجھائی۔ مجھے تو یہ سب خواب لگ رہا تھا۔ برازیل میں ہمارا بہت شان دار استقبال کیا گیا۔ انگریزی تو آتی نہیں لہذا وہاں صرف 'اوکے، اوکے' ہی کرتے رہتے تھے۔ اُن لوگوں نے ہمیں بہت محبت دی۔''

تعلیم کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں سمیر نے کہا،''تعلیم حاصل کرنے کا شوق تو بچپن ہی سے تھا، لیکن اب اور زیادہ ہوگیا ہے۔ مستقبل میں فٹ بالر بن کر پاکستان کا نام روشن کرنا چاہتا ہوں۔''

ٹیم میں فارورڈ کی حیثیت سے کھیلنے والے 15 سالہ اویس علی اپنی زندگی کی کہانی کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں،''شاید 5 یا 6 سال کی عمر میں گھر چھوڑ کر سڑکوں سے دوستی کرلی تھی۔ نشے کی لت میں بھی مبتلا ہوگیا تھا۔'' سڑک پر گزرے دنوں سے اویس کی بہت سی تلخ یادیں وابستہ ہیں۔ وہ کہتا ہے،''سڑکوں رہنے والے بچے یا تو کسی نہ کسی گینگ کا حصہ بن جاتے ہیں یا پھر انہیں 'ہفتہ' دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ میں بھی صدر کے علاقے میں 'اسٹریٹ چلڈرن' پر مشتمل ایک گینگ کے عتاب کا سامنا کر چکا ہوں۔ اس طرح کے گینگ پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں، یہ بچوں کے پیسے چھین لیتے ہیں اُنہیں مار پیٹ کرتے ہیں یا اُن سے ہفتہ لیتے ہیں۔''

اُس کا کہنا ہے،''دس سال کی عمر میں آزاد فاؤنڈیشن میں آگیا تھا۔ باپ کی شفقت کیا ہوتی ہے کبھی احساس ہی نہیں ہوا۔ ماں کے ساتھ رابطہ رہتا ہے۔ ایک بھائی ساتھ رہتا تھا ، لیکن دو، تین سال سے اُس کا بھی کچھ پتا نہیں ہے۔ بھائی کی بہت یاد آتی ہے۔ اُسے ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن کچھ پتا نہیں چلا۔'' اس نے کہا،''فٹ بال میرا شوق ہے، اسے صرف شوق کی حد تک رکھوں گا۔ پڑھ لکھ کر آزاد فاؤنڈیشن کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں، اپنے جیسے بچوں کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔''

ٹیم کا ایک کھلاڑی اور نویں کلاس میں کمپیوٹر سائنس کے طالب علم اویس علی اپنی زندگی کے دکھ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے،''سڑک پر زیادہ تر لوگ ہمیں دھتکارتے، کبھی کبھار کوئی ایک بندہ ایسا مل جاتا جو ہمیں سمجھاتا کہ گھر والوں کے ساتھ رہو، نشہ چھوڑو، لیکن ایسا بہت ہی کم ہوتا۔ اگر ہم کسی کی جگہ پر بیٹھ جا تو وہ ہمیں لات مار کر وہاں سے اٹھا دیتا۔ پولیس الگ تنگ کرتی۔ صدر میں کافی عرصہ گزارا ، کبھی لوگوں کی گاڑیاں دھوئیں، تو کبھی کاٹھ کباڑ جمع کرلیا، کبھی بھیک مانگ لیتے تھے۔''

ٹیم میں شامل کوئٹہ کے فیضان فیاض گھر چھوڑنے کی وجہ کچھ طرح بیان کرتے ہیں،''دوستوں کی صحبت نے بگاڑ دیا تھا۔ اسکول سے بھاگ جاتا تھا۔ والد صاحب اسی بات پر پٹائی کرتے تھے، جس سے تنگ آکر گھر چھوڑ دیا۔ کچھ عرصہ سڑکوں پر گزارہ۔ زندگی کا سب سے تلخ تجربہ سڑک پر رہ کر حاصل ہوا۔ لوگ ہمیں گالیاں بکتے تھے، گندی نظروں سے دیکھتے تھے۔ وہیں پر نشے کی لت بھی لگ گئی تھی، لیکن پھر ''سحر فاؤنڈیشن'' چلا گیا جہاں نشے کی لت چھُٹ گئی۔''

برازیل میں گزرے یادگار دنوں کے بارے میں فیضان کا کہنا ہے،''جہاز میں بیٹھ کر میں سوچ رہا تھا کہ کہیں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہا۔ سب یہی کہتے تھے کہ پاکستانی ہیں وہاں جا کر ''سلپ'' ہو جائیں گے۔ وہاں ہمارا شان دار استقبال کیا گیا ہم سب کے دل میں ایک ہی بات تھی کہ بس پاکستان کے لیے جیت کر جانا ہے اپنے ملک کا پرچم اونچا کرنا ہے۔ انڈیا کو ہرا کر سب سے زیادہ خوشی ہوئی۔''

''واپسی میں لوگوں نے ہمارا جس طرح استقبال کیا وہ زندگی کا سب سے یادگار لمحہ ہے۔''

نویں کلاس کے طالب علم فیضان فیاض اپنے روشن مستقبل کے لیے بہت پُر امید ہیں۔ ڈاکٹر بن کر اپنے ہی جیسے دوسرے بچوں کی خدمت کے لیے پُرعزم ہے۔



سڑک پر رہنے والے بچوں کے نام اپنے پیغام میں فیضان کا کہنا ہے،''اگر وہ کوئی بھی نشہ کرتے ہیں، یا کوئی بھی غلط کام کرتے ہیں تو اسٹریٹ چلڈرن کے لیے بنائے گئے اداروں کے پاس جائیں۔ اُن سے کچھ سیکھیں جس طرح ہم سیکھ رہے ہیں۔''

کراچی کی مختلف سڑکوں پر چھے سال سے زاید عرصہ گزارنے والے ٹیم کے فارورڈ سلمان حسین کا کہنا ہے،''آزاد فاؤنڈیشن میں آنے سے پہلے میں نشے میں دھت رہتا تھا، کسی چیز کا ہوش نہیں ہوتا تھا۔ سڑکوں پر ہونے والا ہر نشہ کیا۔ آزاد فاؤنڈیشن کے موٹی ویٹرز نے مجھے سمجھایا کہ نشہ مت کیا کرو یہ اچھی بات نہیںہے۔ زندگی کا کوئی مقصد ہونا چاہیے بلامقصد یا نشے میں دھت زندگی گزارنا فضول ہے۔ اُن کے سمجھانے کے بعد میں آزاد فاؤنڈیشن آگیا۔ یہاں آکر نشہ چھوڑا، دوسری کلاس کے بعدتعلم ادھوری چھوڑ دی تھی۔ اب تعلیم حاصل کر کے اپنے جیسے بچوں کی زندگی سنوارنی ہے۔''

سڑکوں پر رہنے والے دوسرے بچوں کے لیے سلمان کا کہنا ہے،''میں سب بچوں سے یہی درخواست کروں گا کے کہ گھر نہ چھوڑیں، تعلیم حاصل کرکے خود کو اتنا کام یاب بنائیں کہ لوگ انہیں اُن کے نام کے ساتھ جانیں۔''

سلمان کہتا ہے،''صدرِ پاکستان کے ساتھ ملنا بہت اچھا لگا۔ واپسی پر قوم نے جس طرح استقبال کیا وہ زندگی بھر یاد رہے گا۔ برازیل جاتے وقت بہت ڈر لگ رہا تھا، لیکن وہاں پہنچ کر ہمیں پتا چلا کہ 'عزت' کسے کہتے ہیں۔ برازیل کے لوگ بہت اچھے ہیں، ہم سے بھی کوئی غلطی ہونے پر خود ہی سوری بولتے تھے۔ خود ہم بھی اس بات کا خیال رکھتے تھے کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے ہمارے ملک کی بدنامی ہو۔''

ٹیم کی کام یابی میں اہم کردار کوچ عبدالراشد کا رہا، جن کی ان تھک محنت اور لگن نے بچوں میں آگے بڑھنے کا، کچھ کر دکھانے کا حوصلہ پیدا کیا۔ ان بچوں کی کارکردگی پر عبدالراشد کا کہنا ہے،''ٹیم میں شامل ہر بچے نے بھرپور محنت کی ہے۔ انہوں نے میری ہر بات مانی اور اسی ٹیم اسپرٹ کا مشاہدہ آپ نے ان بچوں کے کھیل میں بھی کیا ہوگا۔''

ٹیم پاکستان میں شامل ہر بچہ ایک با عزت زندگی گزارنے کا خواہش مند اور پڑھ لکھ کر اپنے جیسے دوسرے بچوں کو معاشرے کا ایک کارآمد شہری بنانا چاہتا ہے۔ ان بچوں کی طرح سڑکوں پر زندگی گزارتے دیگر بچے بھی ہماری توجہ کے مستحق ہیں، جانے وہ دن کب آئے گا جب یہ سارے بے گھر بچے عزت اور شناخت حاصل کرپائیں گے۔

اسٹریٹ چائلڈ ورلڈ کپ کی تاریخ

''اسٹریٹ چائلڈ ورلڈ کپ'' کاآغاز برطانیہ میں انسانی حقو ق کے لیے کام کرنے والے فلاحی ادارے ''امُوس ٹرسٹ'' نے ''سیو دی چلڈرن'' کے اشتراک سے کیا۔ لڑکے اور لڑکیوں کے لیے اس ورلڈکپ کے الگ الگ ٹورنامنٹ منعقد کیے جاتے ہیں۔ اس ٹورنامنٹ کا مقصد دنیا بھر میں ''اسٹریٹ چلڈرن'' کے بارے میں قائم منفی تاثر کو ختم کرنا اور انہیں معاشرے کا مہذب شہری بنانا تھا۔

اسٹریٹ چائلڈ ورلڈ کپ پہلی بار مارچ 2010 میں جنوبی افریقا کے شہر ڈربن میں منعقد ہوا۔ پہلے ورلڈ کپ میں ''برازیل''،''جنوبی افریقا''،''نکارا گوا''، ''یوکرائن''، ''انڈیا''، ''فلپائن'' اور ''تنزانیہ'' کی ٹیموں نے حصہ لیا۔



پہلے ورلڈ کپ میں انڈیا کی ٹیم نے سخت مقابلے کے بعد ''تنزانیہ کو ہرا کر ٹورنامنٹ اپنے نام کر لیا تھا جب کہ '' فلپائن کو ''شیلڈ'' اور ''یوکرائن '' کو ''فیئر پلے ایوارڈ '' سے نوازا گیا تھا۔

27 مارچ 2014 کو اس سلسلے کے دوسرے دس روزہ ٹورنامنٹ کا آغاز ہوا، جس میں دنیا بھر کے 19 ملکوں سے تعلق رکھنے والے 230 سے زاید بچوں نے حصہ لیا۔ ان بچوں کی اس ورلڈ کپ میں شمولیت سولہ ممالک میں ''اسٹریٹ چلڈرن'' کے لیے کام کرنے تنظیموں کی بدولت ممکن ہوسکی۔ ''اسٹریٹ چائلڈ فُٹ بال ورلڈ کپ''2014 کی فتح تنزانیہ کے بچوں نے اپنے نام کی۔ جب کہ لڑکیوں کے ورلڈ کپ کی فاتح برازیلین ٹیم رہی۔

''اسٹریٹ چائلڈ ورلڈ کپ 2018 کا انعقاد روس میں کیا جائے گا۔

کون ہوتے ہیں یہ بچے، کہاں سے آتے ہیں

اسٹریٹ چلڈرن کی اصطلاح ایسے بے گھر بچوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو سڑکوں پر زندگی بسر کرتے ہوں۔ سڑکوں پر زمانے کے سرد و گرم کا سامنا کرنے والے یہ معصوم بچے نہ صرف زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہوتے ہیں بلکہ انہیں معاشرے میں ''اچھوت '' سمجھا جاتا ہے۔ بے گھر بچوں کا تعلق دنیا کی کسی ترقی یافتہ ملک سے ہو یا کسی پس ماندہ ملک سے، اُن کو ہر جگہ ایک ہی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سڑکوں پر رہنے والے زیادہ تر بچے ذہنی، جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنتے رہتے ہیں بعض اوقات انہیں قتل تک کردیا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ''یونیسیف'' کے مطابق دنیا بھر بے گھر بچوں کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا ناممکن ہے، لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سڑکوں پر زندگی بسر کرنے والے بچوں کی تعداد دس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔

یونیسیف کے مطابق صرف ایشیا میں چالیس لاکھ بچوں کا مسکن سڑکیں ہیں۔ پاکستان میں سڑکوں کی خاک چھاننے والے بچوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق بارہ سے پندرہ لاکھ ہے، جن میں سے ایک لاکھ سے زاید بچے صرف کراچی کی سڑکوں پر زندگی گزا رہے ہیں۔

اسٹریٹ چائلڈ فٹ بال ورلڈ کپ 2014 میں شامل پاکستانی ٹیم

عبدالراشد،کوچ
سمیر احمد، کپتان
محمد شعیب، اسٹاپر
اورنگزیب، مڈ فیلڈ
رازق، سینٹرفارورڈ
مہر علی، لیفٹ بیک
رجب علی، رائٹ بیک
اویس علی، فارورڈ
سلمان علی، فارورڈ
فیضان فیاض، فارورڈ

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں