توشہ خانہ پالیسی ۔ ویلڈن شہباز شریف
شہباز شریف کی جانب سے نئی توشہ خانہ پالیسی کے بعد اب مہنگے تحائف ملنے کا سلسلہ بھی ختم ہو جائے گا
وزیر اعظم شہباز شریف نے توشہ خانہ کا بائیس سالہ ریکارڈ پبلک کر دیا ہے۔پی ٹی آئی والے عمران خان کو بری الذمہ قرار دینے کے لیے جواز پیش کرتے ہیں کہ دیکھیں 'فلاں نے بھی لیا ہے، فلاں نے بھی لیا ہے۔
لیکن کون انھیں سمجھائے کہ عمران خان پھر بھی بری نہیں ہوتے، ان کا جرم قائم رہے گا، وہ قانون کے سامنے جوابدہ رہیں گے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے توشہ خانہ کی نئی پالیسی بھی جاری کر دی ہے۔جس کے تحت مہنگے تحائف لینے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
صرف تین سو ڈالر تک کے تحائف کی اجازت دی گئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں شہباز شریف نے سارے پنڈورا بکس کو ختم کر دیا ہے۔اس وقت ملک میں پراپیگنڈہ کا جو شور ہے، اس میں کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔ جھوٹ کی اس قدر آمیزش ہے کہ سچ ڈھونڈنا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
خود کو بے گناہ ثابت کرنے کا آسان طریقہ یہ ڈھونڈ لیا گیا ہے کہ دوسروں پر جھوٹے الزامات لگائے جائیں۔عمران خان کے حامی عمران خان کے توشہ خانہ اسکینڈل کو جائزقرار دینے کے لیے عمران خان کے مخالفین کے نام توشہ خانہ لسٹ میں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کرنکال رہے ہیں۔
تاکہ عمران خان کی چوری کو جائز قراد دیا جا سکے لیکن وہ یہ نہیں سمجھ رہے کہ اس سے ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ نقصان ہی ہوگا۔ جھوٹ چند دن میں ختم ہو جائے گا۔
میں نے بھی توشہ خانہ کی لسٹ پڑھی ہے۔ بائیس سالہ ریکارڈ میں شہباز شریف نے توشہ خانہ سے ایک روپے کا گفٹ بھی نہیں لیاہے۔حالیہ وزارت عظمیٰ میں بھی ایک روپے کا گفٹ توشہ خانہ سے نہیں لیا ہے۔ شہباز شریف دس سال مسلسل پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔
ان دس سالوں میں بھی انھیں غیرملکی دوروں کے دوران جتنے بھی تحائف ملے انھوں نے تمام کے تمام توشہ خانہ میں جمع کروا دیے تھے۔
اور کوئی بھی تحفہ نہیں لیا۔ اس طرح شہباز شریف کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے آج تک توشہ خانہ سے کوئی تحفہ نہیں لیا۔ قوم کا مال قوم کے خزانہ میں جمع کرایا، اس لیے شہباز شریف ہی توشہ خانہ سے تحائف لینے پر پابندی لگا سکتے ہیں،ان کا دامن بے داغ ہے۔
شہباز شریف نے آج تک جتنے بھی غیر ملکی دورے کیے ہیں، ان میں تمام اخراجات بھی اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں۔ ہوٹل کا بل بھی اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں۔ بطور وزیر اعلیٰ وہ جب وہ غیر ملکی دورے پر جاتے تھے تو ٹکٹ بھی جیب سے لیتے تھے۔
اسی لیے ان کے ہٹنے کے بعد تحریک انصاف کے ایک رکن نے جب پنجاب اسمبلی میں یہ سوال پوچھا کہ شہباز شریف کے غیر ملکی دوروں پر کتنے پیسے خرچ ہوئے تو تحریک انصاف کی حکومت نے پنجاب اسمبلی میں جواب جمع کرایا کہ شہباز شریف نے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب جتنے بھی غیر ملکی دورے کیے ان پر قومی خزانے سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا گیا۔
جب یہ جواب پنجاب اسمبلی میں دیا گیا۔ تب شہباز شریف نیب کی تحویل میں تھے ،یہ جواب آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے۔
آج کل گھڑیوں کا بہت شور ہے۔ایسا لگتا ہے کہ سارا ملک ہی مہنگی گھڑیوں کا لالچی ہے اور تو اور شاہد خاقان عباسی نے بھی مہنگی گھڑیوں اور مہنگے تحفوں سے ہاتھ دھوئے ہیں۔
یہ لالچ ہی ایسا ہے کہ دل بے ایمان ہو ہی جاتا ہے۔ عمران خان جو کہتے تھے میرے پاس سب کچھ ہے، میں سیاست میں کچھ لینے نہیں آیا، انھوں نے تو ایک تحفہ بھی نہیں چھوڑا۔ آپ دیکھیں کہ انھیں جو مہنگے تحائف ملے ہیں ،انھوں نے وہ شوکت خانم کو بھی نہیں دیے بلکہ خود رکھے ہیں۔
اگر آپ کو کچھ نہیں چاہیے تو یہ مہنگی گھڑیاں اور دیگر تحائف کا لالچ اور ہوس کیوں؟ آپ کو تو سب سے پہلے انھیں سرکاری خزانے میں جمع کرانا چاہیے تھا۔ ایک طرف آپ کرپشن کا راگ الاپتے تھکتے نہیں دوسری طرف آپ نے بھی بہتی گنگا سے خوب ہاتھ دھوئے۔
شا ید کم لوگوں کو علم ہو کہ شہباز شریف مہنگی گھڑیوں کے شوقین ہی نہیں ہیں۔ انھوں نے آج بھی اپنے والد کی گھڑی اپنے ہاتھ پر باندھی ہوئی ہے۔ یہ ایک عام گھڑی ہے جو لمبے عرصے تک ان کے والد نے اپنے ہاتھ پر باندھی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ جس جس نے توشہ خانہ سے جو بھی تحائف لیے ہیں، سب کو رضاکارانہ طور پرواپس کر دینے چاہیے۔شاید واحد عمران خان ہیں جنھوں نے آگے فروخت کر دیے ہیں ورنہ سب کے پاس موجود ہیں۔ ایمل ولی خان نے ا یک جلسہ میں کہا کہ ان کے والد کو جو ایک گھڑی ملی تھی، وہ آج بھی ان کے پاس موجود ہے۔
یہ نایاب تحائف ہوتے ہیں ،کم ہی کسی نے فروخت کیے ہیں۔ جہاں شہباز شریف واحد وزیر اعظم ہیں جنھوں نے توشہ خانہ سے کوئی تحائف نہیں لیے وہاں عمران خان واحد وزیر اعظم ہیں جنھوں نے آگے بیچ دیے۔ یہ ممتاز مقام بھی صرف عمران خان کو ہی حاصل ہے۔ احسن اقبال نے نئی توشہ خانہ پالیسی آنے کے بعد اپنی گھڑیوںکی مکمل قیمت ادا کر دی ہے، ۔یہ بھی اچھی روایت ہے۔
بہر حال شہباز شریف نے ایک جرات مندانہ کام کیا ہے۔ انھوں نے توشہ خانہ سے تحائف لینے کا سلسلہ ختم کر دیا ہے۔ اب کوئی نہیں لے سکتا۔ مجھے لگتا ہے کہ اب کوئی حکمران ہمارے حکمرانوں کو مہنگے تحفے نہیں دے گا۔
اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ شہباز شریف کی جانب سے نئی توشہ خانہ پالیسی کے بعد اب مہنگے تحائف ملنے کا سلسلہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اب روایتی معمولی تحائف ہی ملیں گے۔ جیسے دیگر ممالک کے حکمران ایک دوسرے کو دیتے ہیں۔ یہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔