سیاسی اور عسکری مزاحمت میں فرق رکھیں
سیاسی مزاحمت میں قانون ہاتھ میں لینا شامل نہیں جب کہ عسکری مزاحمت شروع ہی قانون ہاتھ میں لینے سے ہوتی ہے
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اسلام آباد کی عدالت کی جانب سے بلا ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد پولیس کو گرفتاری دینے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ مزاحمت بھی کی۔ عمران خان کی جانب سے کی جانے والی مزاحمت کو سیاسی مزاحمت سمجھا جا سکتا ہے یا یہ عسکری مزاحمت ہے۔
سیاسی مزاحمت میں قانون ہاتھ میں لینا شامل نہیں جب کہ عسکری مزاحمت شروع ہی قانون ہاتھ میں لینے سے ہوتی ہے۔ سیاسی مزاحمت میں بات دلیل سے کی جاتی ہے جب کہ عسکری مزاحمت میں بات طاقت سے کی جاتی ہے۔ اس لیے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ عمران خان نے زمان پارک میں قانون نافذ کرنے والوں کے ساتھ جومزاحمت کی ہے وہ سیاسی ہے یا عسکری۔
یہ بات اہم نہیں کہ مقدمہ سچا ہے یا جھوٹا۔ یہ بات بھی اہم نہیں کہ مقدمہ انتقامی بنیادوں پر قائم کیا گیا ہے یا نہیں۔ سوال یہ اہم ہے کہ کیا اس ملک میں عدالتوں کا احترام ہے کہ نہیں۔ کیا عدالتی احکامات کے خلاف بغاوت کی جا سکتی ہے۔ میں پاکستان کے عدالتی نظام کا کوئی خاص مداح نہیں ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا عدالتی نظام عام آدمی کو انصاف دینے میں ناکام ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ عمران خان کو بھی عدالت سے انصاف نہ مل سکے۔ لیکن پھر بھی جب تک یہ عدالتی نظام قائم ہے ہمارے پاس کوئی متبادل نہیں۔ ہمیں انھی عدالتوں پر انحصار کرناہے۔
یہ کہہ کر عدالتوں کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ مجھے ان عدالتوں پر اعتبار نہیں۔ آپ کو اعتبار ہے کہ نہیں۔ آپ کو انھی عدالتوں کے سامنے سرنڈر کرنا ہے، اگر آج کوئی ان عدالتوں کو مسترد کرے گا تو کل سب ہی ان عدالتوں کو مسترد کر دیں گے۔ پھر ملک میں کوئی عدالتی نظام رہے گا ہی نہیں۔ بغیر عدالتی نظام کے کسی ملک کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔
یہ دلیل بھی کیسے قبول کی جا سکتی ہے کہ میں بہت مقبول ہوں ۔ اس لیے میری مقبولیت کو قانون میں افضل حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ مقبولیت آپ کو قانون سے افضل نہیں کر دیتی بلکہ مقبولیت آپ کو زیادہ ذمے دار بناتی ہے۔ مقبولیت آپ کو زیادہ قانون پسند بناتی ہے قانون سے مبرا نہیں بناتی۔ مزاحمت کی بھی حدود قیود ہوتی ہیں۔
اگر سیاسی مزاحمت قانون کے دائرے سے باہر نکل جائے تو وہ سیاسی مزاحمت نہیں رہتی۔ آپ سے اگر نا انصافی بھی ہو رہی ہو پھر بھی آپ کو قانون کے دائرے کے اندر ہی جدو جہد کرنا ہوتی ہے۔ نا انصافی کرنے والی عدالتوں سے ہی انصاف مانگنا ہوتا ہے۔ قانون توڑنا سیاسی مزاحمت کے زمرے میں نہیں آتا۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ عمران خان اتنی مزاحمت کیوں کررہے ہیں۔ یہ بات ناقابل فہم ہے۔ کیا انھیں اندازہ ہے کہ آج تک جس بھی سیاسی رہنما نے عسکریت کا راستہ اپنایا ہے اس کا انجام اچھا نہیں ہوا۔ بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ وہ بھی عمران خان کی طرح مقبولیت کے زعم میں مبتلا تھے۔ وہ بھی ریاست کے اندر ریاست بنا لیتے تھے ۔
نائن زیرو کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جیسے آج زمان پارک سے عسکری مزاحمت کی گئی ہے ویسے ہی نائن زیرو سے عسکری مزاحمت کی جاتی تھی۔ نائن زیرو کو بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے نو گو ایریا بنا دیا گیا تھا۔ جیسے آج زمان پارک کوقانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے نو گو ایریا بنا دیا گیا ہوا ہے۔
نو گو ایریاز کی سیاست نے نہ کل پاکستان کی کوئی خدمت کی تھی اور نہ ہی یہ آیندہ پاکستان کے مفاد میں ہے۔ قانون کی پاسداری اور قانون کے احترام میں ہی پاکستان کا مفاد ہے۔ سیاست میں عسکریت کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ اصول توڑنے والوں کو ہمیشہ نقصان ہوا ہے۔
کون کہہ سکتا ہے کہ عمران خان کو عدالت میں پیش نہیں ہونا چاہیے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ جان کو خطرہ کا بیان عدالت میں پیش نہ ہونے کا کوئی جائز جواز ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ عدالت میں پیش نہ ہونے کی کوئی بھی وجہ قابل قبول ہو سکتی ہے۔ عمران خان کے کوئی پہلی دفعہ عدالت نے وارنٹ جاری نہیں کیے۔ بلکہ ان کے متعدد وارنٹ جاری ہوئے۔
انھوں نے بعد میں اعلیٰ عدالتوں سے ان وارنٹس کو معطل کروایا۔ انھیں عدلیہ سے کئی مواقع پر غیر معمولی ریلیف بھی ملا ہے۔ جو ریلیف عام شہری کو نہیں ملتا وہ انھیں ملا ہے۔ عدالتوں نے ان کے ساتھ بہت نرم رویہ رکھا ہے۔ لیکن تمام تر ریلیف کے باجود عمران خان توشہ خان کیس میں پیش نہیں ہوئے۔ ایک عمومی رائے یہی ہے کہ فرد جرم عائد ہونی ہے۔ اس لیے وہ پیش نہیں ہو رہے۔
عمران خان پاکستان کی سیاست کو کس طر ف لے کر جا رہے ہیں۔ انھوں نے پہلے ہی ملک میں سیاسی تقسیم اس قدربڑھا دی ہے کہ کوئی ان سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ملک سے سیاسی ڈائیلاگ ختم ہوگیا ہے۔اختلاف کو برداشت کرنے کا کلچر ختم ہو گیا ہے۔
سیاست کو دشمنی میں بدل دیا گیا ہے۔ پارلیمان کو بے اثر کر دیا گیا ہے۔ عمران خان نے ملک کے پارلیمانی نظام کو اپنے سیاسی ایجنڈے کے لیے بے اثر کر دیا ہے۔ کبھی استعفیٰ دیتے ہیں کبھی واپس لے لیتے ہیں۔ کبھی عدالت کو کہتے ہیں استعفے قبول کیے جائیں کبھی عدالت کو کہتے ہیں کہ استعفے نہ قبول کیے جائیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ میں اسمبلی پر لعنت بھیجتا ہوں کبھی کہتے ہیں کہ میں نے اسی پارلیمان میں واپس جانا ہے۔
ان کی سیاست کا واحد مقصد ملک میں سیاسی عدم استحکام قائم رکھنا ہے۔ عمران خان کل سے بین الاقوامی میڈیا پر یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس 18تاریخ تک ضمانت ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ خان صاحب کے ناقابلَ ضمانت وارنٹ ایک دوسرے کیس میں نکلے ہوئے ہیں۔ یہ وہ کیس ہے ہی نہیں جس میں خان صاحب کے پاس ضمانت ہے۔
کیا عمران خان پہلے پارٹی قائد ہیں جو گرفتار ہونے جارہے ہیں۔ بھٹو' بے نظیر' نواز شریف' آصف زرداری' سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی' شاہد خاقان عباسی اور بہت سے وزرا تک جیل گئے ہیں اور عدالتوں کا سامنا کیا ہے۔ پھر اتنی مزاحمت کیوں؟
عمران خان مسلسل رینجرز کی لاہور میں تعیناتی پر اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ کیا انھیں یہ نہیں معلوم کہ رینجرز وزارتِ داخلہ کے ماتحت کام کرتی ہے اور خود عمران خان اپنے دور میں متعدد بار رینجرز کا استعمال کرتے رہے ہیں۔
سندھ میں بھی رینجرز تعینات رہی' کے پی میں بھی ایف سی اور جب جب ٹی ایل پی نے اسلام آباد کا رخ کیا۔ تب عمران خان نے اپنے ماتحت وزارتِ داخلہ کے ذریعے رینجرز تعینات کروائی۔ اس وقت یہ اقدام درست تھا تو آج غلط کیسے ہے؟کراچی میں رینجرز مستقل تعینات ہیں۔ اس لیے عمران خان کا رینجرز کی تعیناتی پر اداروں کے خلاف بیانیہ درست نہیں۔
عمران خان کی گرفتاری اہم نہیں۔ اہم قانون کی عملداری ہے۔ سیاسی جماعت اور سیاسی قیادت کو سیاسی اصولوں کے تحت ہی جدوجہد کرنی چاہیے۔ سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین پر اچھے برے وقت آتے جاتے رہتے ہیں۔
اقتدار بھی آتا جاتا رہتا ہے۔ جمہوریت ختم بھی ہو جاتی ہے آمریت بھی آجاتی ہیں،لیکن پھر بھی جدو جہد قانون کے دائرے میں ہی کی جاتی ہے۔ آمریت بھی جدو جہد قانون کے دائرے میں ہی کی جاتی ہے، پھر ایسی مزاحمت کو کیسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔اس سے لاقانونیت بڑھتی ہے۔ جو خطرناک ہے۔