توشہ خانہ ریکارڈ احسن اقبال کی قابلِ تقلید مثال
بعد ازاں عمران خان کی نہایت قیمتی گھڑیوں اور دیگر بیش قیمت غیر ملکی تحائف کے جو اسکینڈلز سامنے آئے
ہر جانب توشہ خانہ ریکارڈ کی اشاعت کا غلغلہ مچا ہُوا ہے۔ عوام میں یہ ڈنکا بھی بج رہا ہے کہ توشہ خانہ کے انتہائی قیمتی مال سے ہمارے سبھی مقتدر سیاستدان، ہر قسم کے حاکموں، بیوروکریٹوں اور بعض صحافیوں نے مفادات سمیٹے ہیں۔
وزیر اعظم جناب شہباز شریف کی اتحادی حکومت کو شاباش دینی چاہیے جس نے دل کڑا کرکے توشہ خانہ کے حوالے سے پچھلے20برسوں کا ریکارڈ قوم کے سامنے پیش کر دیا ہے۔
چونکہ یہ انکشاف خیز ریکارڈ اب آن لائن بھی دستیاب ہے، اس لیے ہر کوئی اِس کا تحقیقی، احتسابی اور تنقیدی جائزہ لے سکتا ہے ۔ سوشل میڈیا پر اِس توشہ خانہ ریکارڈ بارے کئی بے بنیاد اور غیر حقیقی خبریں اور تبصرے بھی کیے جا رہے ہیں۔ ایسا ہونا ہی تھا۔ توشہ خانہ کو بنیاد بنا کر محترمہ مریم نواز، پر الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
عمران خان کے سابق وزیر اور حالیہ ترجمان نے جو مریم نواز مخالف ٹویٹ کیا ہے، مریم نواز نے اُن کے خلاف نالش کر دی ہے ۔
اب مبینہ طور پر ایف آئی اے مذکورہ وزیر کے تعاقب میں ہے۔ پی ٹی آئی کا جارح اور توانا سوشل میڈیا توشہ خانہ کے مذکورہ ریکارڈ کی اشاعت کی اساس پر نون لیگی اور پیپلز پارٹ قیادت پر جھپٹ کر حملہ آور ہے ۔پیپلز پارٹی کی قیادت اور عشاق تو، حسبِ معمول، خاموش ہی ہیں ، مگر نون لیگی سوشل میڈیا پی ٹی آئی کے لشکریوں کا جواب دینے کی مقدور بھر کوشش و سعی کررہا ہے ۔
وطنِ عزیز کے اُس جری اخبار نویس کی تحسین کی جانی چاہیے جس نے جناب عمران خان کے دَورِ وزارتِ عظمی کے دوران مرکزی حکومت کو درخواست دی تھی کہ توشہ خانہ ریکارڈ منظرِ عام پر لایا جائے۔
یہ درخواستی مطالبہ ماننا خان صاحب کی حکومت کے لیے ناممکن تھا؛ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ خان صاحب کے وزیر اطلاعات، چوہدری فواد حسین،اِس بارے انکار کرتے رہے اور اصرار کرتے رہے کہ '' توشہ خانہ ریکارڈ کا منظر عام پر لانے سے اُن ممالک سے سفارتی تعلقات بگڑ سکتے ہیں جنہوں نے توشہ خانہ کے لیے یہ تحائف دیے ۔''
بعد ازاں عمران خان کی نہایت قیمتی گھڑیوں اور دیگر بیش قیمت غیر ملکی تحائف کے جو اسکینڈلز سامنے آئے ، انھوں نے ثابت کیا کہ عمران حکومت توشہ خانہ ریکارڈ منظر عام پر لانے سے محترز اور منکر کیوں تھی؟ خان صاحب کی حکومت توشہ خانہ ریکارڈ سامنے لائے جانے کے مطالبے سے اسقدر نالاں اور ناراض تھی کہ توشہ خانہ ریکارڈ عوام کے سامنے پیش کرنے کا مطالبہ کرنے والے اخبار نویس کو مبینہ طور پر مسلسل دھمکیاں بھی دی جاتی رہیں اور بالآخر اُسے ملازمت سے بھی نکلوا دیا گیا ۔
توشہ خانہ کے مذکورہ ریکارڈ کے منظر عام پر لائے جانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہُوا ہے کہ عوام کو واضح طور پر معلوم ہُوا ہے کہ توشہ خانہ کے حمام میں ہمارے سب حکمران اور حاکم ننگے ہیں۔
نواز شریف بھی توشہ خانہ سے مستفید ہُوئے اور آصف علی زرداری بھی۔ دیگر کئی وزرائے اعظم، وفاقی وزرا اور طاقتور سفرا بھی۔ افسوس کا مقام ہے کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری ایسے انتہائی دولتمند اور امیر کبیر اشخاص نے بھی اس قدر لالچی اور لوبھی ثابت ہُوئے ہیں کہ توشہ خانہ کی انتہائی قیمتی اشیا کو انتہائی سستے داموں ہتھیانے سے گریز نہیں کیا ۔
حالانکہ یہ لوگ خود بھی ، اپنی جیب سے، بی ایم ڈبلیوں اور لیکسس گاڑیاں خرید سکتے تھے، لیکن انھوں نے چھ چھ، سات سات گنا کم قیمت پر توشہ خانہ میں جمع یہ گاڑیاں''خرید'' لیں ۔ کروڑوں روپے کی دیگر اشیاء بھی لاکھوں روپے میں ذاتی جیب میں ڈال لی گئیں ۔عوام پر یہ ظلم عوام کے ووٹوں پر منتخب ہونے والے عوامی نمایندگان نے ڈھائے ہیں ۔
ہمارے دوست، مزمل سہروردی صاحب، نے ایک نجی ٹی وی پر توشہ خانہ انکشافات پرتبصرہ کرتے ہُوئے بجا کہا ہے کہ '' توشہ خانہ سے مستفید ہونیوالے سبھی سیاستدانوں کو تاحیات نااہل کر دنیا چاہیے ۔ اگر نواز شریف اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر تاحیات نااہل ہو سکتے ہیں تو توشہ خانہ پر پِل پڑنے والوں کو نااہل کیوں نہیں کیا جا سکتا؟'' یہ مطالبہ بے جا نہیں ،بلکہ عین عوامی اُمنگوں کے مطابق ہیں ۔
توشہ خانہ ریکارڈ کے منصہ شہود پر آنے سے کئی انہونی باتیں بھی ہو رہی ہیں ۔ نون لیگ نے عمراں خان کے خلاف توشہ خانہ کی انتہائی قیمتی گھڑیاں اونے پونے داموں لے کر بازار میں ''کروڑوں روپے'' میں فروخت کرنے کا جو بیانیہ بنایا تھا، وہ توشہ خانہ کے رپورٹ نے دبا سا دیا ہے کہ اب عمران خان سمیت سبھی مقتدرین توشہ خانہ کے حمام میں ننگے ہو گئے ہیں۔
یہ بھی افسوس کا مقام ہے کہ توشہ خانہ سے مستفید ہونے والوں میں نواز شریف کے ایک صاحبزادے بھی شامل ہیں۔ موصوف نے لاکھوں کی گھڑی توشہ خانہ سے کوڑیوں کے بھاؤ لی اور اب موصوف مبینہ طور پر کہہ رہے ہیں کہ ''مَیں چونکہ اب پاکستان کا شہری ہی نہیں ہُوں۔
اس لیے اِس بات کا جواب نہیں دے سکتا۔'' توشہ خانہ ریکارڈ کے بپا کردہ طوفان میں وزیر اعظم، شہباز شریف،کے ایک صاحبزادے نے سابق وزیر اعظم، شاہد خاقان عباسی ، کا نام لیے بغیر شدید طنز کیا ہے ۔
اِس کے جواب میں شاہد خاقان عباسی نے دُکھے دل سے کہا ہے :''یہ صاحب میرا مذاق اُڑائیں یا مجھ پر طنز کریں، وہ وزیر اعظم کے بیٹے ہیں، چاہیں تو میرے اوپر کیس کر دیں۔''شاہد خاقان عباسی اور اُن کی اہلیہ محترمہ کا نام بھی توشہ خانہ سے ''مستفید'' ہونے والوں کی فہرست میں شامل ہے ۔ اِس بارے جب موصوف سے ایک نجی ٹی وی کے اینکر نے سخت اور چبھتے ہُوئے سوال کیے تو شاہد خاقان عباسی کو ئی اطمینان بخش جواب نہ دے سکے ۔
توشہ خانہ ریکارڈ کی اِس اندھیر نگری میں ایک مثال وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور نارووال سے منتخب ہونے والے قومی اسمبلی کے رکن ، پروفیسر احسن اقبال، کی بھی ہے۔احسن اقبال اور اُن کی اہلیہ محترمہ کا نام بھی توشہ خانہ سے2قیمتی اشیائ( مردانہ و زنانہ رولیکس گھڑیاں) سستے داموں( اور حکومت کے طے کردہ اصولوں کے مطابق) حاصل کرنے والوں میں شامل ہیں ۔ ان دونوں گھڑیوں کی قیمت مبینہ طور پر22لاکھ روپے سے اوپر تھی ۔
احسن اقبال صاحب نے مگر ساڑھے چار لاکھ روپے توشہ خانہ میں جمع کروا کر دونوں گھڑیاں حاصل کی تھیں ۔ اب اگلے روز جب توشہ خانہ کا ریکارڈ منظر عام پر آیا ہے تو احسن اقبال نے ایک جنٹلمین کی مثال قائم کرتے ہُوئے رضا کارانہ طور پر باقی اور اصل رقم(19لاکھ 91ہزار روپے) بھی سرکار کے خزانے میں جمع کروا دی ہے ۔
اِس ضمن میں اُنہوں نے بجا کہا ہے: ''مجھے اپنے کردار اور ساکھ کا تحفظ سب سے زیادہ عزیز ہے ۔'' یوں احسن اقبال اپنے ضمیر ، عوام اور سرکار کے سامنے سرخرو ہو گئے ہیں ۔ جناب احسن اقبال نے توشہ خانہ کے حوالے سے جو مستحسن مثال قائم کی ہے، توشہ خانہ سے استفادہ کرنے والے باقی سب مقتدرین اور طاقتوروں کو بھی اِس شاندار مثال کی تقلید کرنی چاہیے ۔
یہ مستحسن مثال عین اُس وقت قائم کی گئی ہے جب یہ خبریں آ رہی تھیں کہ پروفیسر احسن اقبال نے اپنے حلقے اور علاقے میں دو بڑے گرلز کالجز قائم کرکے اُن کا خود افتتاح بھی کر دیا ہے ۔ ماشاء اللہ ۔