خوش آئند معاہدہ
سعودی عرب اور ایران 2016 سے منقطع سفارتی تعلقات کو بحال کرنے پر آمادہ ہوگئے
نومبر 2022میں سعودی عرب نے امریکا سے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ایران سعودی عرب پر حملہ کر نے والا ہے۔ پھر حالات میں تیزی سے تبدیلی آئی اور صرف چار ماہ بعد 10 مارچ 2023 کو بیجنگ میں ایک بہت اہم معاہدہ ہوا۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان انقلاب ایران کے وقت سے تعلقات اچھے نہیں رہے۔ بات بگڑتے بگڑتے 2016 میں دونوں ممالک کے درمیان اس وقت سفارتی تعلقات منقطع ہوگئے جب تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملہ ہوا۔
ان تعلقات کی بحالی کے لیے 2021میں بغداد میں اعلیٰ سطح وفود کے درمیان بات چیت کے پانچ دور ہوئے۔ بغداد کے بعد گفتگو کا یہ سلسلہ سلطنتِ عمان منتقل ہوگیا۔ گزشتہ سال دسمبر میں چین کے صدر جناب شی نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ جناب شی کے دورے سے ہر طرف چہ مہ گوئیاں ہونے لگیں کہ آخر کس اہم معاملے پر بات ہو رہی ہے۔ پچھلے مہینے ایران کے صدر نے چین کا دورہ کیا تو تب بھی ان ہی مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کی کوششوں پر بات ہوئی۔
بیجنگ میں 6مارچ سے 10مارچ تک سعودی عرب کے وفد جس کی سربراہی وزیرِ مملکت، وزرا کونسل کے ممبر اور قومی سلامتی کے مشیر مسعد بن محمد العیبان جب کہ ایرانی وفد کی سربراہی ایڈمرل علی شیخانی سیکریٹری سپریم سیکیورٹی کونسل کے درمیان چین کی اعلیٰ قیادت کی موجودگی میں مذاکرات ہوئے۔ تینوں ممالک کے نمایندوں نے 11مارچ کو ایک انتہائی خوش آیند معاہدے کا اعلان کیا جس میں کہا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان ایک مضبوط معاہدہ طے پا گیا ہے۔
بیجنگ معاہدے کے مطابق سعودی عرب اور ایران 2016 سے منقطع سفارتی تعلقات کو بحال کرنے اور دو ماہ کے اندر اندر ریاض اور تہران میں اپنے سفارت خانے کھولنے پر آمادہ ہیں۔ دونوں وفود نے عراق اور سلطنت عمان کا پچھلے دو ڈھائی سال میں مذاکرات کی میزبانی کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ وفود نے عوامی جمہوریہ چین کی بے حد تعریف کی۔
اس معاہدے میں ریاستوں کی خود مختاری کے احترام اور ریاستوں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کا عزم کیا گیا ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دونوں اطراف کے وزرائے خارجہ جلد ملاقات کر کے معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں گے۔دونوں ممالک نے سیکیورٹی تعاون کے اس معاہدے پر کام کرنے کاوعدہ کیا جس پر 2001میں دستخط ہوئے تھے۔اس طرح معیشت، تجارت،سرمایہ کاری،ٹیکنالوجی ،سائنس،ثقافت اور کھیل کے شعبوں میں تعاون بھی شامل ہے۔
چین، ایران اور سعودی عرب نے علاقائی اور بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے مشترکہ کوششیں کرنے کا عندیہ دیا ہے۔اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آیندہ دونوں ممالک آپسی اختلافات کو بات چیت اور سفارتکاری کے ذریعے حل کریں گے۔ دونوں ممالک کی سرکاری خبر رساں ایجنسیوں نے بھی معاہدے اور اس کے نتیجے میں سفارتی تعلقات کی بحالی کی تصدیق کی ہے۔
یہ معاہدہ کئی حوالوں سے اہم اور دور رس نتائج کا حامل ایک بریک تھرو ہے۔اگر اس معاہدے پر عمل در آمد ہونا شروع ہو جاتا ہے تو خطے کی سیاست بالکل بدل سکتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ دونوں اسلامی ممالک نے ایک دوسرے کی علاقائی سلامتی کی ضرورتوں کو مان کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن معاہدے میں ایران کے لیے کافی فوائد ہیںجب کہ سعودی عرب کی سلامتی کو درپیش خطرات میں خاصی کمی آئے گی۔
دونوں ممالک یمن میں اپنا اپنا اثرو رسوخ بڑھانے میں کوشاں تھے۔ سعودی عرب اور یمن کی ایک لمبی مشترکہ سرحد ہے۔ یمن میں متحارب گروہوں میں سے ایک کو سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی حمایت حاصل ہے جب کہ دوسرے متحارب گروہ حوثی قبائل کو ایران مدد دے رہا ہے۔
حوثی قبائل نے یمن کے دارالحکومت سمیت خاصے بڑے علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے اور وہ گاہے بگاہے سعودی عرب پر میزائل حملے کرتے رہتے ہیں۔ان کے چند میزائل نے سعودی تیل تنصیبات کو نشانہ بناتے ہوئے خاصا نقصان پہنچایا ہے۔
اگر یہ معاہدہ روبعمل ہو جاتا ہے تو امید رکھنی چاہیے کہ یمن کا محاذ کافی سرد پڑ جائے گا۔یمن کے عوام نے اس چپقلش میں بہت نقصان اُٹھایا ہے۔یمن کی کل آبادی کا ایک بڑا حصہ قحط سالی اور انتہائی غربت کا شکار ہو چکا ہے۔خدا کرے اس معاہدے سے یمن کے عوام امن اور خوشحالی کی نعمت سے فیض یاب ہوں۔
ایران نے شام ،لبنان اور عراق کے علاقوں میں کئی گروہوں کی گزشتہ لمبے عرصے سے مدد کی ہے۔ شام اور لبنان اسی چپقلش اور اسرائیل دشمنی میں برباد ہو چکے ہیں۔شام میں بشارالاسد حکومت کے ماتحت بڑے علاقے ہیں لیکن ترکی،روس اور امریکا نے بھی اپنے اپنے زیرِ اثر علاقے بنا رکھے ہیں۔
لبنان میں حزب اﷲ کو ایران کی کھلم کھلا حمایت حاصل ہے۔لبنان میں کچھ عرصے سے صدر منتخب نہیں ہو سکا جس کی وجہ بھی علاقائی قوتوں کے درمیان چپقلش ہے۔
اگر سعودیہ اور ایران کے درمیان تعاون کو فروغ ملتا ہے تو لبنان، شام،عراق اور یمن میں امن و سلامتی کو موقع ملنے اور ایک نیا سنہری دور آنے کی امید کی جا سکتی ہے۔ خلیجی ممالک میں بھی سلامتی بڑھے گی۔
ایک امریکی اہلکار نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان اس صلح کو سراہا ہے۔یہ بھی کہا ہے کہ پیش رفت سے ہمیں مسلسل آگاہ رکھا گیاجب کہ ایک اور اہلکار نے کہا کہ ہمیں اس کی بھنک تک نہیں پڑنے دی گئی۔ امریکا اور اسرائیل ایران کو تباہ اور بہت کمزور کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ایسے میں امریکا کی طرف سے معاہدے کا خیر مقدم حیران کن ہے۔
یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ بین الاقوامی امور امریکا کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں۔یونی پولر ورلڈ میں ثالثی کا تمام اختیار امریکا کے پاس تھا۔یہ تو نا ممکن ہے کہ اسرائیل اور امریکا کی خواہش ہو کہ ایران اور سعودیہ میں صلح ہو جائے۔
مغربی سفارتکار یہ توقع کر رہے تھے کہ امریکا اور ایران کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہو جائے گا ۔وہ معاہدہ تو ابھی نہیں ہوا البتہ ایران اور سعودی عرب جھگڑا چھوڑ کر بغل گیر ہونے پر راضی ہو گئے۔ یہ معاہدہ اسرائیل اور امریکا کی پشت پناہی میں ابراہم اکارڈ کے لیے بڑا دھچکا ہے۔
اس معاہدے کا سب سے بڑا اور اہم پہلو چین کا بڑھتا اثر و رسوخ ہے۔عالمی منظر نامے پر چین پہلی دفعہ اس رول میں نظر آیا ہے جس پر اس سے پچاس سال پہلے تک امریکا کی اجارہ داری تھی۔
اس سے پہلے امریکا کے ساتھ روس بھی کسی حد تک اسی حیثیت کا حامل تھا کہ ملکوں کے درمیان مصالحت کروا سکے۔اس معاہدے سے پاکستان کے اندر بھی فرقہ وارانہ کھچاؤ کم ہو گا۔خدا کرے یہ خوش آیند صلح نامہ جلد ا از جلد رو بعمل آئے اور خطے کے ممالک اس کے ثمرات سے فائدہ اُٹھا سکیں۔