کامریڈ جمال الدین بخاری ایک سچا انقلابی
خطہ کی کمیونسٹ تحریک پر ایک جامع کتاب تحریر کر کے سید جمال الدین بخاری کے بیٹے کا حق ادا کردیا
سید جمال الدین بخاری متحدہ ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی کے ابتدائی رہنماؤں میں تھے۔ وہ بھارت کی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد میں 1900میں پیدا ہوئے۔
جمال بخاری کا انتقال 1984 میں لاڑکانہ میں ہوا۔ جمال الدین بخاری نے زندگی کا ایک طویل عرصہ انگریز سرکاری کی جیلوں اور پھر ہندوستان کے بٹوارہ کے بعد آزاد ہونے والے نئے ملک پاکستان کی جیلوں میں گزرا۔ انھوں نے کمیونسٹ پارٹی کی ایک کارکن سے شادی کی اور اس جوڑے نے زندگی کے مشکل حالات اور اچھے حالات ساتھ گزرے۔ جمال الدین بخاری کے تمام صاحبزادے ہونہار اور محنت کرنے والے ہیں۔
ان کے صاحبزادے مکرم سلطان بخاری کا شمار حکومت سندھ کے اچھی شہرت رکھنے والے افسروں میں ہوتا تھا۔ انھوں نے طویل عرصہ تحقیق اور جستجو کے بعد ایک کتاب '' کامریڈ سید جمال الدین بخاری شخصیت اور سیاسی جدوجہد '' تحریر کی ۔ انھوں نے سائنٹیفک تحقیق کے بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے والد کے بارے میں تمام حقائق قلم بند کیے۔
کمیونسٹ پارٹی 1947کے بعد انتہا پسندانہ رجحانات کا شکار ہوئی۔ جمال الدین صاحب کو فروعی الزامات پر مبنی چارج شیٹ دی گئی۔ مکرم سلطان الدین بخاری نے اس چارج شیٹ کو بھی اپنی اس کتاب کا حصہ بنایا۔ بعد میں کمیونسٹ پارٹی نے اپنے اس فیصلہ کو واپس لیا تھا۔ بخاری تعلیم کے لیے علی گڑھ گئے اور علی گڑھ سے فراغت کے بعد احمد آباد آئے اور گھر سے کچھ رقم لے کر سمرقند چلے گئے۔ جمال بخاری سمرقند سے کابل آئے۔ وہاں ان کی ملاقات مولانا عبداﷲ سندھی کے ایک شاگرد شیخ عبدالرحیم سے ہوئی۔
شیخ صاحب بھی ہندوستان میں غیر ملکی تسلط کا خاتمہ چاہتے تھے۔ ان کا بھی خیال تھا کہ ہندوستان کی آزادی بیرونی طاقتوں کی مدد سے حاصل کی گئی۔ وہ کابل میں کچھ عرصہ قیام کے بعد تاشقند اور پھر بخارا چلے گئے۔ بخاری نے آگے جانے کی ٹھانی اور ماسکو کی جانب روانہ ہوئے۔ انقلاب کو قریب سے دیکھا ، وہ کچھ عرصہ قیام کے بعد وطن واپس روانہ ہوئے۔
بخاری نے سترہ سال کی عمر ہی سے سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ انھیں اپنے والدین زین العابدین بخاری کی تعلیمات سے بڑی مدد ملی۔ وہ ایک تو مولانا محمد علی جوہر سے متاثر تھے دوسرے مولانا حسرت موہانی سے جن کی اتباع نے انقلابِ اکتوبر کو علمی استحصال اور سرمایہ دارانہ جبر و استعداد کے خاتمہ کا نقیب جانا۔ انقلاب اکتوبر نے انھیں دوآشتہ کیا۔ جمال الدین بخاری کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بانیوں میں شمار ہوتے تھے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے خدوخال ابھارنے میں کامریڈ سید جمال بخاری کا اہم اور بنیادی کردار تھا۔
1925 بخاری کی جدوجہد کا آغاز تھا۔ اب تک بخاری اکیلے کام کرتے چلے آرہے تھے۔ اب انھیں یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ کارکنوں کی مدد اور پمفلٹ چھاپنے کا کام بغیر پیسوں کے ممکن نہیں ہے۔ بخاری ایک بیمہ کمپنی سے وابستہ ہوگئے۔ اس دوران وہ نارتھ ویسٹرن ریلوے یونین کراچی ڈویژن کے صدر منتخب کر لیے گئے ۔ انھوں نے آزادی کے نام سے ایک اردو روزنامہ نکالنا شروع کیا ، اسے وہ خود ہی چھاپتے تھے۔
1927 کا سال تھا جب بخاری نے سندھ میں مزدور کسان پارٹی قائم کی۔ دسمبر 1928 میں کلکتہ کانگریس کے تحت مزدور کسان آل انڈیا کانفرنس ہوئی۔ کلکتہ میں کچھ دوستوں نے ورکرز پیزنٹ (مزدور کسان) پارٹی بنانے کے لیے ایک اجلاس منعقد کیا جس میں ماسکو سے بھی بخاری کے کچھ ساتھیوں نے شرکت کی۔ بخاری کا خیال تھا کہ پارٹی کا نام ورکنگ کلاس پارٹی ہونا چاہیے مگر بخاری کے دوستوں کے سروں پر ایم این رائے کا بھوت سوار تھا ۔
بہرحال ایم ایم رائے کے کہنے پر 1928 میں ورکرز پرنٹ پارٹی بن گئی۔ جواہر لعل نہرو نے بھارت کی آزادی کے لیے قائم نہرو کمیٹی میں سندھ سے بخاری کو ممبر نامزد کیا تھا۔ 1928 میں جمال بخاری نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر بکھرتے ہوئے کمیونسٹ گروہوں کو یکجا کرنے کا آغازکیا ، بعد میں بخاری ممبئی چلے گئے۔ 1930کے آغاز میں بخاری نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ایک بنیادی رکن کی حیثیت سے بھرپور سرگرمیاں جاری رکھیں۔ مصنف کی تحقیق کے مطابق یکم مئی 1930 کو ہڑتال کے لیے کلکتہ گئے۔
ان کی کوششوں کے نتیجہ میں یکم مئی کو پورے کلکتہ میں مکمل طور پر ہڑتال ہوئی۔ بخاری گرفتاری سے بچنے کے لیے ایک رشتہ دار کے گھر چلے گئے۔ ایک روز فٹ پاتھ پر پڑے سو رہے تھے کہ گرفتار کر لیے گئے۔ بخاری پر ایک ہفتہ تشدد کے بدترین طریقے آزمائے گئے۔ 1818 میں ریگولیشن کے ذریعہ انھیں بھوٹان جیل بھیج دیا گیا۔ جیل میں بھی وہ اپنے نظریات کا پرچار کرتے رہے ۔ 1935میں یوم مئی آگیا۔ اس موقع پر بخاری نے تقریر کی۔ حسب معمول گرفتار کرلیے گئے۔ اس سال اپریل 1940 میں انھیں پھر گرفتار کرلیا گیا۔
وہ اگست 1942 تک نظر بند رہے۔ 1937 میں محمد امین کھوسو نے سندھ میں کمیونسٹ پارٹی کے قیام کا اعلان کیا جس میں ان کے علاوہ قادر بخش نظامانی اور کامریڈ عبدالقادر حسن بھی شامل تھے۔ امین کھو سو سے تعلقات کی وجہ سے اس وقت کے وزیر اعلیٰ اﷲ بخش سومرو کمیونسٹ پارٹی کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔
نظامانی سندھ کے وزیر اعلیٰ اﷲ بخش سومرو سے قریب تھے۔ 1942 میں کمیونسٹ پارٹی سے پابندی ختم ہونے کے بعد کمیونسٹ پارٹی آف سندھ کا سیکریٹری مقرر کیا گیا۔ مارچ 1945 میں احمد آباد میں ایک مزدور کانفرنس کے اختتام پر بخاری نے ایک ٹیکسٹائل ورکر شانتا سے شادی کرلی۔ بخاری کا تعلق اگرچہ ایک جاگیردار خاندان سے تھا مگر انھوں نے ایک مل ورکر سے شادی پر ہمیشہ فخر کیا۔ شانتا کا اسلامی نام زیب النساء رکھا گیا۔ کامریڈ بخاری کو پیلس ہوٹل کی ہڑتال کے بعد سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔
پارٹی پر پابندی لگ گئی۔ کئی کارکن جس میں سوبھوگیان چندانی ، ہیگل اور کامریڈ شوکت علی وغیرہ گرفتار ہونے والوں میں شامل تھے۔ قاضی فضل اﷲ اور آغا غلام نبی پٹھان نے انھیں مارچ 1948 میں ضمانت پر رہا کروایا مگر کراچی کی حدود میں رہنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ قاضی فضل اﷲ جمال بخاری کو لاڑکانہ لے گئے۔ کامریڈ بخاری کو حکومت سے سازباز کرنے کا الزام لگایا اور یہ بھی الزام لگا کہ بخاری اپنے اخراجات کے لیے پارٹی کے دشمنوں سے چندہ لیتے رہے۔
بعد میں رونما ہونے والے واقعات نے بخاری پر لگائے گئے الزامات کو غلط ثابت کیا۔ 1974 کو جب جمال بخاری کوئٹہ میں بغرض علاج مقیم تھے کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری امام علی نازش عیادت کے لیے اسپتال آئے۔ انھوں نے معذرت بھرے لہجہ میں کامریڈ بخاری سے کہا کہ پارٹی نے انھیں نکال کر غلطی کی تھی۔ اس پر بخاری صاحب نے فقط اتنا کہا کہ اس بات کو چھوڑیئے کوئی اور بات کہیے۔
ذوالفقار علی بھٹو اپنی تعلیم مکمل کر کے 1954کو پاکستان آئے۔ انھیں سیاسی طور پر متعارف کرانے میں بخاری نے بنیادی کردار ادا کیا۔ بھٹو کو پہلا سیاسی پلیٹ فارم اس وقت ملا جب کامریڈ بخاری کی تجویز اور قاضی فضل اﷲ کی حمایت سے انھیں لاڑکانہ ڈسٹرکٹ آباد کار ایسوسی ایشن کا صدر بنایا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے 1970کے الیکشن کے دوران کامریڈ بخاری سے مشورہ کیا۔ بخاری نے کہا کہ انھیں شہر سے ووٹ نہیں ملیں گے۔ بخاری نے تجویز دی کہ بھٹو خان صاحب دوست محمد ہکڑو کو بلائیں اور ان کے ذریعہ محبوب علی خان قائم خانی کو کہلوائیں کہ بھٹو کے اعزاز میں ایک ظہرانے کا انتظام کریں۔
اس ظہرانے میں تین سو سے زیادہ شہریوں نے شرکت کی۔ 1960 میں اپنے بھائی کی وفات پر بھارت کے شہر احمد آباد گئے تو انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ بخاری نے اپنے پرانے دوست پنڈت نہرو کو خط لکھا کہ ان کے خلاف کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔
بخاری نے خود مقدمہ لڑا اور رہا ہوئے۔ مکرم سلطان بخاری نے اس کتاب کو تحریر کرنے سے پہلے ہندوستان اور پاکستان میں کمیونسٹ تحریک کے بارے میں شایع ہونے والی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے والد پر نہیں بلکہ اس خطہ کی کمیونسٹ تحریک پر ایک جامع کتاب تحریر کر کے سید جمال الدین بخاری کے بیٹے کا حق ادا کردیا۔ کتاب کے مطالعہ کے دوران بعض اوقات واقعات کی طوالت اور دھرانے کا تاثر ملتا ہے۔ یہ کتاب بیک وقت اردو اور سندھی زبان میں شایع ہوئی ہے۔