خائن
دنیا کے مہذب، باوقار اور بااصول ملکوں میں حکمرانوں کو ملنے والے تمام تحائف کو سرکاری میوزیم میں رکھا جاتا ہے
تاریخ عالم اور تہذیب آدم کا مطالعہ کرتے وقت ہمیں دو قسم کے لوگ نظر آتے ہیں، گمنام اور نامور۔ اپنی سادہ دلی میں مست رہنے والے گمنام لوگ معاشرے، نسلیں، قومیں اور ملتیں بناتے رہتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو نام وروں اور نامیوں کو پیدا کرتے ہیں اور خود شہرت و ناموری کے شوق سے یکسر بے نیاز اپنی ہی دنیا میں مگن، مصروف اور سرشار رہتے ہیں۔
یہ عظیم، بڑے اور نامور لوگوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں اور ان کے تذکرے، قصے اور کہانیاں پڑھ پڑھ کر محظوظ ہوتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ان کی دل فریب باتوں کو بڑے غور سے سنتے ہیں، انھیں اپنا ہمدرد اور خیر خواہ سمجھتے ہیں۔
ان کے خیالات ونظریات سے جلد متاثر ہو جاتے ہیں اور ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان کی اطاعت و فرماں برداری پر خوشی خوشی راضی ہو جاتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو بغیر کسی شور و غوغا کے زندگی بسر کرتے ہیں اور اپنی موت پر بھی کسی رونمائی اور جلوس جنازہ کی نمائش و تام جھام کے بغیر خاموشی سے رخصت ہو جاتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں کہ کب اس دنیائے آب و گل میں آئے، کیا کیا دکھ اٹھائے، کیسے کیسے صدمات جھیلے، اپنی کن کن آرزوؤں، چاہتوں اور خواہشوں کا خون کیا اور کس طرح قطرہ قطرہ زندگی کاٹی اور کب خاموشی کا کفن اوڑھے کب جہان فانی سے گزر گئے، کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔
یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے ماحول کے ظالم حصار میں رہتے ہیں، اپنی تنکا تنکا بنی جھونپڑیوں میں ، اپنے روز و شب کی تلخیوں میں ، اپنی بدحالی میں مست ، اپنی غریبی اور غریب الوطنی میں مجبور ، اپنے سکڑتے سمٹتے خاردار دائروں میں مقید ، کسی شہرت ، ناموری اور دولت مندی کے تصور سے آزاد ، کسی تاریخ کا حصہ بننے کے لیے داغ دار کردار ادا کرنے کے جذبے سے لاتعلق، زندگی کے دھکے اور تھپیڑے کھاتے کھاتے اور مصائب و آلام کا سامنے کرتے کرتے اس فانی دنیا کی قید و بند روح کے شکستہ پنجرے سے آزاد ہو کر ہمیشہ کی نیند سو جاتے ہیں۔
انھیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیوں اس دنیائے آب و گل میں آئے، ان کا مقصد حیات کیا تھا، ان کا کب، کہاں، کیسے، کس کس نے اور کیوں استعمال کیاگیا، وہ کب اور کیوں غلام بنائے گئے اور کن کن قوتوں نے کس کس طرح ان کے حقوق غصب کیے، ان کا استعمال کیا اور جب ان کا کام نکل گیا تو ٹیشو پیپر کی طرح مسل کر پھینک دیا۔ یہ لوگ مطلب پرستوں کی خواہشوں کا ایندھن بنتے اور ان کی ضرورتیں پوری کرتے کرتے ہی پورے ہوگئے۔
یہ وہ لوگ ہیں ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگتے بھاگتے اپنی زندگی تمام کر گئے اور اپنے پیچھے اپنے عیال کے لیے مجبوریوں، محرومیوں، مایوسیوں، ناکامیوں، نارسائیوں اور مشکلوں و مصیبتوں کی ایک کبھی نہ ختم ہونے والی دنیا چھوڑ جاتے ہیں۔ بھیڑ بکریوں کے ایسے ہجوم کو عرف عام میں ''عوام الناس'' کہتے ہیں، جن کے مقدروں میں صرف قربانی دینا لکھا ہوتا ہے۔
دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو ہر صورت اپنی ذات، شخصیت اور انا کو تسکین دینے کے لیے اپنے چہروں پر اپنے نام کی مہریں ثبت کرتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ ایک الگ طرح کی زندگی رکھتے ہیں، وہ اپنے آپ کو خواہشات کے پتھروں میں چنواتے رہتے ہیں، دولت جمع کرنے کی خواہش اور گننے کا مشغلہ ہی ان کی تباہی کا پیش خیمہ بن جاتا ہے، جو شخص صرف جمع کرتا ہے وہ پیسہ اس کے کام نہیں آتا اور نہ اس کی عیال کے۔
وہ صرف پرایا مال جمع کرتا ہے، وہ صرف نگران ہوتا ہے کسی اور کے مال کا، جس طرح ایک اژدھا کسی کے مال کی حفاظت کرتے کرتے اپنی تمام عمر بسر کردیتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ انسان چاہتا ہے کہ اس کے پاس مال و دولت کی کثرت ہو، وہ طاقت و اختیارات پر قابض ہو، اس کا مال زیادہ سے زیادہ بڑھتا جائے اور اختیارات وسیع سے وسیع تر ہو۔ مال و دولت پر اترانے والا اختیارات کا بے دریغ و بے جا استعمال کرنے والا ان کے نقصانات سے ناآشنا اور اس کے عبرت ناک انجام سے بے خبر انسان تاریخ پر نظر نہیں دوڑاتا کہ فرعون مال و دولت کے خزانوں کا مالک اور طاقت و اختیارات پر قابض حکمران دین و دنیا ہر دو جگہ برباد اور نیست و نابود ہو جاتا ہے، مال و دولت کے سہارے حکومتیں کرنیوالا آخر کار رسوائیوں اور ندامتوں کے حوالے کردیے جاتے ہیں۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ دولت عزت پیدا نہیں کرتی ہے بلکہ خوف پیدا کرتی ہے اور خوف پیدا کرنیوالا انسان معزز نہیں ہو سکتا۔ یہ حرص و ہوس اور دولت پرست لوگ نہیں جانتے کہ پیسہ انسان کو نہیں بچا سکتا ، بدنامیوں سے ، بے عزتیوں سے، دشمنیوں سے، ذلت اور رسوائیوں سے، تذلیل اور توہین سے اور الزامات در الزامات سے، پھر پیسا کیا کرتا ہے؟
جی! یہ صرف نگاہ کو آسودہ کرتا ہے اور یہی آسودگی اس کے دل کو مردہ کردیتی ہے، بے حس بنا دیتی ہے اور انسان کثرت مال کے باوجود تنگ خیالی میں مبتلا ہو کر اذیت ناک انجام سے دوچار ہو جاتا ہے، ناپسندیدہ شخص بن جاتا ہے بلکہ قابل نفرت گردانا جاتا ہے۔ پھر سرے محل، ایون فیلڈ اور توشہ خانہ جیسی بدنامیاں اور رسوائیاں اس کا قبر تک پیچھا نہیں چھوڑتیں۔
پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں ایوان انصاف سے لے کر ایوان نمایندگان تک جس جانب بھی نظر دوڑائیں عالمی اداروں کی ترتیب دی ہوئی فہرست میں ہم نچلے ترین درجے پر نظر آئیں گے جب کہ بدنامی و رسوائی میں ہمارے ارباب اقتدار اور سرکار کے دیگر منصب دار سب سے اوپر دکھائی دیں گے۔ توشہ خانہ کی تازہ کہانیاں اس کی زندہ و تابندہ مثال ہیں۔
بیس سالہ ریکارڈ کے مطابق اعلیٰ ترین منصب پر فائز حاکموں اور سرکاری منصب داروں نے بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔ حکمرانوں کے ہاتھ توشہ خانہ کی لوٹ مار میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے طفیل توشہ خانہ کی بیس سالہ تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ اول دن سے آج تک کی تمام تفصیلات بھی طشت ازبام ہونی چاہئیں تاکہ قوم کو اپنے حاکموں کے '' اصل چہروں'' کا پتا چل سکے۔
دنیا کے مہذب ، باوقار اور بااصول ملکوں میں حکمرانوں کو ملنے والے تمام تحائف کو سرکاری میوزیم میں رکھا جاتا ہے ، جب کہ ہمارے ہاں برسر اقتدار حکمران اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کی نرمی سے فائدہ اٹھا کر بیرون ملک سے ملنے والے قیمتی تحائف '' کوڑیوں '' کی قیمت ادا کرکے گھر لے جاتے رہے ہیں۔
اسی حوالے سے ماضی میں احتساب عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی جائیداد و اثاثوں کی ضبطگی کا حکم دیا تھا، جب کہ آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی و دیگر چار ملزمان پر فرد جرم بھی عائد کی گئی تھی۔
عمران خان پر یہ الزام ہے کہ انھوں نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے بہ طور ہدیہ ملنے والی قیمتی گھڑی و دیگر تحائف کو بیرون ملک فروخت کردیا۔ الیکشن کمیشن نے ان کے خلاف ریفرنس میں الزامات ثابت ہونے پر انھیں نااہل قرار دینے کے ساتھ ساتھ فوجداری مقدمہ درج کرنے کا حکم بھی دیا، یہ کیس اسلام آباد کی ضلعی عدالت میں زیر سماعت ہے۔