توشہ خانہ کا سیاسی مقدمہ
توشہ خانہ کی ان تفصیلات کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ کے لالچ اور ہوس کی کوئی حد نہیں
پاکستان میں سیاست، جمہوریت، آئین اور قانون کی حکمرانی کا سیاسی مقدمہ بہت کمزور ہے۔ عموما یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ہم ابھی ارتقائی عمل سے گزررہے ہیں اور ہمیں بہت کچھ سیکھنا اور بہتر بنانا ہے۔
سیاسی حکومتوں کا بنیادی مقصد شفافیت کے نظام کو قائم کرنا ہوتا ہے ۔ یہی سوچ لوگوں کے درمیان باہمی تعلق کو مضبوط بنانے کا سبب بنتی ہے ۔لیکن حال ہی میں توشہ خانہ کے تناظر میں 2001-22تک یعنی اکیس برس پر محیط یہ کہانی منظر عام ٖپر آئی ہے ۔یہ کہانی ثابت کرتی ہے کہ کس طرح حکمران طبقات، خاندان، ریاستی نمایندے، اعلیٰ افسران نے قومی خزانے کو ذاتی سمجھ کر لوٹا۔
قیمتی گھڑیاں، بیش قیمتی آرائشی سامان، گاڑیاں، زیوارت بیرون ملک سے تحائف کی صورت میں ملنے والی نادر اشیاء، ایک لمبی فہرست ہے جو برائے نام آدائیگی کرکے ذاتی ملکیت میں شامل کرلی گئی ہیں جب کہ ایک بڑی تعداد میں ایسے تحائف بھی ہیں جن کے لیے قانونی ضابطوں یا آدائیگیوں کی زحمت بھی گوارا نہیں کئی گئی۔ یعنی دیکھا، پسند کیا، رکھ لیا۔
توشہ خانہ کی ان تفصیلات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کیسے ہمارے حکمران طبقات ان اہم دستاویزات کو '' حساس معلومات'' قرار دے کر جاری کرنے سے گریز کرتے چلے آرہے تھے ۔ عمومی خیال یہ ہے کہ یہ ریکارڈ موجودہ حکومت کی کاوشوں سے ممکن ہوا ہے۔
اول موجودہ حکومت بھی پی ٹی آئی حکومت کی طرح آخرتک ان معلومات کو دینے سے گریز کرتی رہی ۔ عدالت میں حکومتی موقف یہ ہی تھا کہ یہ حساس معلومات ہیں جو نہیں دی جاسکتی اوراس سے ہمارے دوسرے ممالک سے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں ۔عمران خان حکومت بھی حساس معلومات نہ دینے کی پالیسی پر گامزن رہی۔
26نومبر2015میں بھی نواز شریف حکومت نے توشہ خانہ سے ملنے والے تحائف پر ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا کہ ان دستاویزات کو پبلک نہ کیا جائے ۔مگر اب ان تفصیلات کو جاری کرنے کا فیصلہ عدالتی ہے ۔ عدالت نے یہ نقطہ بھی اٹھایا ہے کہ 1985سے2001کی معلومات بھی دی جائیں۔
جب 1985سے 2001 کی معلومات سامنے آئیںگی تو مزید لوگوں کو اندازہ ہوگا کہ طاقت ور حکمران ، ان کے خاندان اور حواریوں کو کیسے فائدہ پہنچایا جاتا رہا ہے ۔یہ کہانی کسی ایک حکمران کی نہیں سیاسی یا فوجی حکمران ہوں یا ان کے دور میں موجود طاقت ور افراد جو ریاستی یا حکومتی عہدوں پر تھے مستفید ہوئے۔
سال 2001-22کے توشہ خانہ ریکارڈ کے مطابق کل 4367تحائف کا ریکارڈ موجود ہے ۔تحائف میں ایک کتاب، ٹائی، شرٹ سے لے کر مرسڈیز اور بی ایم ڈبیلوکارے , ہیرے جواہرات کے سیٹ کئی نادر یکتا قسم کے تحائف شامل تھے۔ ان تفصیلات میں سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ 2415 تحائف ایسے ہیں جو بغیر کسی ادائیگی کے اور قانونی تقاضوں کو پورا کیے بغیر حاصل کیے گئے ہیں۔
اگر آپ توشہ خانہ کی تفصیلات کو دیکھیں تو اس میں ایک بدنیتی یہ بھی سامنے آئی ہے کہ تحائف شرمناک حد تک کم قیمت پر خریدے گئے ۔ان تفصیلات میں عمران خان نے 111, نواز شریف نے 65, آصف علی زرداری نے 181, ڈاکٹر عارف علوی نے 151اور سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے 885تحائف وصول کیے۔
یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کے سابقہ زلزے متاثرین کی مدد کے لیے جو تحائف دیے گئے تھے ان کو بھی توشہ خانوں سے کم قیمت پر حکمران طبقات نے اپنے پاس رکھ لیا ۔سب سے اہم بات کہ حکمران طبقہ نے خود ہی نہیں لوٹا بلکہ اپنی اولادوں , بیویوں, بیٹوں او ربیٹیوں سمیت سب کو ہی نوازا۔
466صفحات پر مشتمل یہ دستاویزات ایسے ملک کی ہیں جو عملا ڈیفالٹ اور بدترین سیاسی،معاشی، انتظامی بحران سے گزررہا ہے ۔یہ بات سمجھنی ہوگی کہ جو تحائف دوسرے ممالک سے ملتے ہیں وہ کسی کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ اس عہدے کے لیے ہوتے ہیں جو ایک طور پر ریاست کے تحائف ہوتے ہیں لہٰذا یہ تحائف ریاست کے ہیں اور ہماری قومی دولت کا حصہ ہیں۔
ان پر حکمرانوں اور ان کے حواریوں کا کوئی حق نہیں۔ ان دستاویزات کے سامنے آنے سے ہماری حکمران اشرافیہ کی ساکھ بری طرح متاثرہوئی ہے ، دنیا کو پتہ چلا ہے کہ یہ لوگ قومی خزانے کی کیسے لوٹ مار کرتے ہیں ۔
توشہ خانہ کی ان تفصیلات کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ کے لالچ اور ہوس کی کوئی حد نہیں۔ایسے لگتا ہے کہ جیسے ہماری طاقت ور اشرافیہ بھکاری اور جنم جنم کی بھوکی ہے ۔
توشہ خانہ کا یہ سارا مقدمہ ہماری سیاسی اخلاقیات اورتربیت کے معیار کو ظاہر کرتا ہے کہ ہم کس حد تک اخلاقی پستی کا شکار ہیں ۔سیاست دان ہوں , ججز ہوں , فوجی افسران ہو یا بیوروکریٹ , میڈیا , صنعت کار , تاجر سب ہی اخلاقی زوال کا شکار ہوگئے ہیں ۔ یہ سب ارب پتی لوگ ہیں مگر لالچ میں اندھے ہوچکے ہیں۔