ایران سعودی عرب تعلقات میں مثبت پیش رفت
چین کی ثالثی میں بیجنگ میں پانچ روزہ مذاکرات ہوئے جس میں باضابطہ معاہدہ طے پایا گیا ہے
www.facebook.com/shah Naqvi
گزشتہ ہفتے کی تاریخ ساز خبر یہ رہی جس نے پوری دنیا کو حیرت میں مبتلا کر دیا وہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کا اعلان تھا جسکا خیر مقدم کیا گیا۔
چین کی ثالثی میں بیجنگ میں پانچ روزہ مذاکرات ہوئے جس میں باضابطہ معاہدہ طے پایا گیا ہے جس کی رو سے ایران سعودی عرب نے دو ماہ کے اندر تعلقات بحال کرنے اور سفارت خانے کھولنے پر اتفاق کر لیا ہے۔ جس کے تحت دونوں ملک ایک دوسرے کی خود مختاری کا احترام اور عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند رہیں گے۔
نہ صرف یہ بلکہ سیکیورٹی معاشی تعاون کے اس معاہدے پر بھی عمل درآمد ہوگا جو 25سال پہلے دونوں ملکوں کے درمیان طے پا چکا تھا جسکا دائرہ کار سرمایہ کاری،تجارت ،ٹیکنالوجی، سائنس، کلچر، اسپورٹس اور یوتھ تک محیط ہے۔
سعودی عرب ایران تعلقات معمول پر لانے کا خیر مقدم کرتے ہوئے پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان کو پختہ یقین ہے کہ یہ اہم سفارتی پیش رفت خطے اور اس سے باہر امن و استحکام میں معاون ثابت ہوگی۔ یعنی اس کا اثر صرف عرب خطے پر نہیں پڑے گا بلکہ پوری دنیا پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان یقینی طور پر ان ممالک میں شامل ہے جسکو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔
ویسے بھی پاکستان ایران دونوں ہمسایہ مسلم ممالک سعودی عرب ایران میں اچھے تعلقات نہ ہونے سے ماضی میں آزمائش سے دو چار رہے کہ کس طرح ان دونوں برادر مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھے۔
سوال یہ بھی ہے کہ آخر کار دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آخر کار کیا امریکا ایران تعلقات کو نارملائزیشن کی طرف لے جائے گی۔ کیونکہ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ امریکا بیجنگ میں ہونے والے ڈائیلاگ سے آگاہ تھا کیونکہ سعودی عرب نے اس بارے میں ہمیں آگاہ رکھا ہوا تھا۔
صرف یہ ہوا کہ ہم اس ڈائیلاگ میں براہ راست شامل نہیں تھے یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکا بھی اس ڈائیلاگ میں بالواسطہ طور پر شامل تھا۔
ایران سعودی عرب کے درمیان پیش رفت کیا پاکستان بھارت کے درمیان مثال بن سکتی ہے اس کا جواب ہے یقیناً ۔ اب بھارت اور پاکستان پر دنیا کا دباؤ بڑھے گا۔ کیونکہ پاک بھارت تعلقات نارمل نہ ہونے سے جنوبی ایشیا کا امن خطرے میں پڑا ہوا ہے۔ ایٹمی خطرے کی تلوار برصغیر کے عوام پر مسلسل لٹک رہی ہے۔
بھارت کے 80سے90کروڑ عوام غربت میں مبتلا ہیں جب کہ پاکستان کی دوتہائی کے قریب آبادی موجودہ معاشی حالات کی وجہ سے بدترین غربت کا شکار ہے۔
75سال سے زائد عرصہ ہو چکا برصغیر کے عوام کے لیے امن ایک ایسا خواب بن کر رہ گیا جسکی تعبیر ہی نہیں نکل پا رہی۔ عوام دشمن استحصالی قوتیں، مختلف اشکال کے مافیاز اور جنونی دہشت گرد قوتیں مضبوط سے مضبوط تر ہو کر عوام کی زندگیاں پچھلے چالیس برسوں سے مسلسل اجیرن کر رہی ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ ان سے حساب کتاب چکتاکیا جائے۔ خلیج میں امن ہونے سے یہ دہشت گرد قوتیں آخر کار فنا کے گھاٹ اتر جائیں گی اب سعودی عرب ایران مل کر ان قوتوں کا صفایا کریں گے۔ امریکا جس نے اپنے مفادات کے لیے دہشت گردوں کو تخلیق کیا، پالا پوسا اب یہی اس کے ایجنڈے کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئے ہیں۔ ماضی میں انھوں نے امریکی سامراجی ایجنڈے کا آلہ کار بن کر بڑے مزے کیے ۔اقتدار، بے پناہ دولت اور سادہ لوح عوام کی ایک بڑی تعداد کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا۔یمن میں امن اب یقینی ہے۔
ولی عہد محمدبن سلمان کے آنے کے بعد اب سعودی عرب ماضی کا سعودی عرب نہیں رہا اب وہ ہر لحاظ سے تبدیل ہو رہا ہے۔ سعودی عرب امریکی دباؤ سے باہر نکل رہا ہے۔ ماضی کی طرح وہ امریکی ڈکٹیشن کا روادار نہیں چاہے اسرائیل سے تعلقات ہوں یا اسے تسلیم کرنے کا معاملہ۔
گزشتہ برس امریکی صدر جوبائیڈن کے سعودی عرب کے دورے کے موقع پر ولی عہد محمد بن سلمان نے یہ امریکی مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا کہ سعودی عرب تیل کی پیداوار میں اضافہ کرے۔ روس ، یوکرین جنگ کے حوالے سے وہ نہیں کیا جو امریکا چاہتا تھا۔
امریکی ناپسندیدگی کے باوجود بھی سعودی عرب کے چین سے تعلقات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ پاکستان ماضی میں افغانستان میں امریکا کے لیے فرنٹ لائن اسٹیٹ بنا بلکہ عرب دنیا میں بھی امریکا کے کہنے پر اس نے یہی کردار ادا کیا۔ اس کے بے شمار نقصانات ہوئے۔
سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ برصغیر میں امن نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان دنیا سے 75سال پیچھے رہ گیا۔ کیا المیہ سا المیہ ہے۔ پاکستان اور خطے کے عوام شدت پسندی دہشت گردی کے سیلاب میں ایسے ڈوبے کہ اس سے نکلنا ناممکن ہو گیا۔
سعودی عرب ایران سفارتی تعلقات کی بحالی کو اسرائیلی اپوزیشن لیڈر نے اسرائیلی خارجہ پالیسی کی مکمل اور خطرناک ناکامی قرار دے دیا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ امریکا نے ایسا معاہدہ کیوں ہونے دیا جس سے اسرائیل کو تباہ کن نقصان پہنچا۔
44 سال بعد10مارچ کو ستارے ایسی پوزیشن پر آئے جس نے اس ناممکن کو ممکن بنا دیا۔