حقائق کا ادراک
پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی حکومت کی نج کاری پالیسی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔۔۔۔
پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری نے گڑھی خدا بخش میں پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی 35 ویں برسی کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے اقدامات و پالیسیوں اور ان کے منفی اثرات پر کھل کر اور کڑی تنقید کی۔ بلاول کا کہنا تھا کہ آنکھوں والے مذاکرات کے نام پر اندھوں سے راستہ پوچھ رہے ہیں، حکومت نے ملک کو پیشہ ور بھکاری بنا دیا ہے اور نجکاری کے نام پر ہمارا گھر بیچنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اس موقعے پر سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے خطاب میں ملک کو امن و امان کے حوالے سے درپیش خطرات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو فرقہ واریت سے بچانا ہو گا۔
درحقیقت بلاول بھٹو کا پرجوش خطاب ملک و قوم کے درپیش امکانی خطرات کے تناظر میں عوام کے دلوں کی آواز ہے اور عوام کے ذہنوں میں جنم لینے والے سوالات، خدشات، تحفظات اور جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ انھوں نے شدت پسند عناصر کے خلاف جرأت مندانہ موقف کا کھل کر اظہار کیا ہے اور ان عناصر کو بے نقاب کیا ہے جو مذہب و مسلک کے نام پر بندوق کی نوک پر اپنا مخصوص ایجنڈا نافذ کرنا چاہتے ہیں اور ہر مخالفانہ آواز کو دبانے کے خواہاں ہیں، ایسے ہی جنگجوؤں نے بلاول کو اپنا مجوزہ دورہ پنجاب دھمکیاں دے کر ملتوی کرنے پر مجبور کیا۔ ملک کا معروف میڈیا گروپ ایکسپریس بھی خبروں کی جرأت مندانہ اشاعت و ترویج کے باعث ان کے نشانے پر ہے۔ کراچی کے بعد لاہور میں بھی ایکسپریس کے اینکر پرسن رضا رومی کی کار پر فائرنگ کر کے انھیں خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئی اور ایکسپریس کے معروف اینکر اور سیفما کے سیکریٹری جنرل امتیاز عالم کو بھی قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔
بلاول ان ہی زمینی حقائق کو طشت ازبام کر رہے ہیں جن سے ملک و قوم کو خطرات لاحق ہیں۔ بلاول بھٹو کی والدہ شہید بے نظیر بھٹو بھی شدت پسندوں کا شکار بنیں۔ بلاول ایسے عناصر کے حقیقی عزائم سے پوری طرح آگاہ ہیں جب کہ حکمراں ان کی منفی سرگرمیوں کو سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ تجزیہ نگار اور مبصرین بلاول کے خطاب کو ایک متوازن، اور حالات سے ہم آہنگ قرار دے رہے ہیں، حالات پر گہری نظر رکھنے والے اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ شدت پسند عناصر جنگ بندی اور مذاکرات کے درمیان میں خود کو پھر سے متحد و منظم کرنے کی تیاری کر رہے ہیں اور فریقین میں ایک دوسرے کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی حکمت عملی طے کی جا رہی ہے۔ چند دنوں کے ''آرام'' کے بعد آگ و خون کا کھیل پھر سے شروع ہو جائے گا۔ کاش کہ ارباب حل و عقد بھی حالات کی سنگینی کا ادراک کر لیں۔
بلاول نے درست کہا ہے کہ نج کاری کے نام پر ہمارا گھر (قومی ادارے) بیچنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ وطن عزیز میں غربت، بے روزگاری، مہنگائی، مفلسی، بیماری اور ناداری میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے 50 فیصد سے زائد آبادی خط غربت سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ گرانی کے طوفان اور بیروزگاری کے باعث عام آدمی کے لیے سادہ زندگی بسر کرنا بھی عذاب جاں بن گیا۔ خودکشیوں اور اپنے اعضا کی فروخت کرنے کے رجحانات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بے روزگار نوجوان نوکریوں کی تلاش میں دھکے کھاتے کھاتے غیر اخلاقی، غیر سماجی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہو رہے ہیں۔ کرائمز مافیا کے کرتا دھرتا ایسے نوجوانوں کو پیسوں کا لالچ دے کر اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ملک کے طول و ارض بالخصوص کراچی جیسے بڑے صنعتی و تجارتی مرکز میں دہشت گردی، اسٹریٹ کرائمز، اغوا، چوری، ڈکیتی، منشیات فروشی ، ٹارگٹڈ کلنگ جیسی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف انتخابی مہم کے دوران کیے گئے اپنے وعدوں کے مطابق ملک سے غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور مفلسی کے خاتمے، صحت و تعلیم کے فروغ اور روزگار کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرتے، معاشی ترقی، وسائل کی فراہمی، بیرونی سرمایہ کاری اور روزگار کے نئے ذرایع پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کی جاتی تا کہ تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان باعزت روزگار حاصل کر کے عزت کی زندگی بسر کرتے ملک سے غربت و بے روزگاری کا خاتمہ ہوتا لیکن وزیر اعظم الٹا نج کاری کے نام پر قومی اداروں کو ''حسب منشا'' افراد کو فروخت کرنے کی افسوسناک منصوبہ بندی کر رہے ہیں ۔ نجکاری کے حوالے سے عالمی مالیاتی ادارے کو یقین دہانیاں کرائی جا رہی ہیں تا کہ قرضوں سے حکومت کا کشکول بھرا رہے۔ نجکاری کا پہلا اور لازمی نتیجہ بے روزگاری کی صورت میں نکلے گا اور ملک میں بے روزگار لوگوں کا سیلاب آ جائے گا۔ جس کے منفی اثرات سے معاشرے میں جرائم کی شرح میں خوفناک اضافہ ہو جائے گا۔
پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی حکومت کی نج کاری پالیسی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ اسی طرح قومی ادارے بھی حکومت کی عدم توجہ کے باعث زبوں حالی کا شکار ہیں اور ان کے ملازمین بدحالی، تنگدستی اور معاشی پریشانیوں سے دوچار ہو رہے ہیں ملک کی معیشت میں ''مدر انڈسٹری'' کہلانے والے قومی ادارے اسٹیل ملز کی طرف سے حکومت نے مسلسل بے حسی کا رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ ادارے کی سی بی اے کے چیئرمین شمشاد قریشی کے بقول چار ماہ سے ملازمین کو تنخواہیں ادا نہیں کی جا سکیں انھوں نے ادارے کی خستہ حالی و مالی بحران پر تشویش اور حکومتی رویے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بغیر سوچے سمجھے اسٹیل ملز جیسے اہم قومی ادارے کی نج کاری کے در پے ہے لیکن ہم شہید بھٹو کی نشانی کو بچانے کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کا خاصہ یہ ہے کہ وہ روزگار فراہم کرتی ہے گزشتہ دور حکومت میں تقریباً ساٹھ ہزار لوگوں کو روزگار فراہم کیا جنھیں نواز حکومت نکالنے کے در پے ہے۔ جب کہ (ن) لیگ حکومت نے حکومت سنبھالنے کے ایک ماہ بعد ہی سرکاری اداروں میں ملازمتوں پر پابندی عاید کر دی تھی اور دو ماہ قبل قومی اداروں میں کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز ملازمین کی مدت ملازمت میں توسیع پر پابندی لگا دی تھی۔ پیپلز پارٹی کے پرزور احتجاج پر حکومت کو حکم نامہ واپس لینا پڑا۔ تاہم نج کاری پالیسی کے باعث ہزاروں ملازمین کے مستقبل پر بے روزگاری کے خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے۔
حکمراں ڈیڑھ ارب ڈالر ملنے اور معاشی ترقی کے گن گا رہے ہیں لیکن ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ میں اصل حقائق یوں بیان کیے گئے کہ دوست ممالک سے ملنے والی رقوم سے وقتی طور پر زرمبادلہ کے ذخائر بڑھے ہیں اور روپے کی قدر بھی مستحکم ہوئی ہے لیکن یہ نہیں معلوم کہ غیر ملکی رقوم کب تک پاکستان کے پاس رہیں گی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح سب سے کم رہنے کا امکان ہے جو جنگ زدہ افغانستان اور نیپال سے بھی کم ہے۔ غیرملکی سرمایہ کاری کم ہے اور مہنگائی کی شرح بھی بڑھ سکتی ہے۔ یہ ہیں اصل حقائق جن کا حکومت کو ادراک کرنا چاہیے۔