ستارہ سحر کا انتظار
ایک بابلی اسطورہ میں بہارکی دیوی عشتار کا محبوب ’’تموز‘‘ سخت بیمار اورقریب المرگ ہوجاتا ہے
جب اسکول کے زمانے میں ''ٹیکے'' لگائے جاتے تھے تو اس کے ساتھ ہی ایک افواہ بھی پھیلنے لگی تھی کہ یہ ٹیکے اسے لیے لگائے جاتے ہیں کہ انگریزوں اورکافروں کو دراصل مسلمانوں سے خطرہ محسوس ہوتا ہے، اس لیے وہ مسلمانوں کے بچوں کی تعداد بھی گننا چاہتے ہیں اور ساتھ ساتھ انھیں اپاہج بنانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔
جو بچے ذہین اور بہادر ہوں،ان کا پتہ لگا کر مارڈالنا چاہتے ہیں تاکہ مسلمانوں کو مستقبل میں کوئی رہنما نہ مل سکے ۔اس کے ساتھ اور بھی بہت ساری کہانیاں وابستہ کی گئی تھیں، دجال اور یاجوج ماجوج کاتذکرہ بھی ہوتاتھا ۔کل ملاکر یہ کہانی یہ سنائی جاتی تھی کہ چودھویں صدی آخری صدی اور قیامت سے قبل دجال اور یاجوج ماجوج کا ظہور ہوگا، آخری زمانے میں دنیا کفراور فتنہ وشر سے بھر جائے گی لیکن آخری فتح مسلمانوں کی ہوگی۔
ایک نجات دہندہ کی آمد کا عقیدہ یا تصور زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہے، یہ عقیدہ کسی نہ کسی حوالے سے دنیا کے تمام قدیم وجدید ادیان میں موجود ہے، یہودیوں کو بھی اپنے آخری نجات دہندہ کا انتظار رہا، عیسائی تو اسے حضرت مسیح کی شکل میں مانتے ہیں کہ وہ چونکہ آسمان پر زندہ اٹھائے گئے ہیں ، وہ ہی آخری زمانے میں ظہور پذیر ہوںگے بلکہ عیسائی پادری اور پوپ وغیرہ تو کئی بار اس کی تاریخیں بھی دے چکے ہیں لیکن جب ان تاریخوں پر وہ ظہور پذیر نہیں ہوئے تو اب پادری تاریخیں تو نہیں دیتے لیکن منتظر ضرور ہیں۔ سامی مذاہب میں تو یہ عقیدہ انتہائی قدیم ہے ۔
حیرانگی کی بات یہ ہے کہ آریائی مذاہب کی موجودہ شکل ہندی دھرم میں بھی اس آنے والے کا عقیدہ موجود ہے جسے وہ ''کالکی اوتار''یعنی سفید اوتار کہتے ہیں، ہندی دھرم میں اوتاروں کا باقاعدہ سلسلہ ہے چنانچہ کالکی اوتار کو بھگوان وشنو کا دسواں اوتار کہا جاتا ہے۔
ویسے تو ہندو دھرم میں بے شمار دیوی دیوتا ہیں، ہندی دھرم میں انسانوں، جانوروں ، پانی ، آگ، پہاڑوں اور درختوں، پھولوں کے دیوی دیوتا بھی ہیں۔لیکن بڑے دیوتا ''تین'' ہیں جنھیں تری مورتی کہا جاتاہے ،ایک برھما جو اس کائنات کاخالق ہے دوسرا ''وشنو'' پالن ہار ہے جب کہ تیسرا ''شیو'' تباہ کارہے۔
وشنو پالن ہار ہونے کی وجہ سے جب بھی دنیا پر کوئی ''سنکٹ'' آتاہے تووہ کوئی اوتار لے کر آجاتاہے اور اس آفت یامصیبت کو ٹال دیتاہے، ہندو دیومالا کے مطابق اب تک وہ نو اوتار لے چکاہے۔
دسویں کالکی اوتار کا ظہور آخری زمانے میں ہوگا، اس زمانے میں ادھرم پھیل جائے گا، ظلم و جبر کا دور دورہ ہوگا، تو دسواں کالکی اوتار کا ظہور ہوگا جو زمین پر آکر ظالموں اور ادھرمیوں کا خاتمہ کرکے اصلی ویدک دھرم بحال کرے گا، کالکی اوتار سفید لباس میں ملبوس ہوگا، سفید گھوڑے پر سوار ہوگا اور سفید پھریرا لہراتا ہوا آئے گا ۔
یہ تو مذہبی عقائد ونظریات ہیں جن پر ہمیں کوئی تبصرہ نہیں کرنا ہے لیکن اس کا ایک طبیعاتی یا عقلی پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ انسان کو زندگی کے مصائب وآلام، غموں، دکھوں اوردردوں میں ہمیشہ ایک ''امید'' کا سہاراچاہیے ہوتا ہے ورنہ اس کا دل بیٹھ جائے گا یا وہ مرجائے یا خودکشی کرلے گا ۔
یونانی اسطورہ میں ایک عورت پنڈورا کی کہانی بھی اسی ''امید'' کی اہمیت کو ظاہرکرتی ہے اور آج کے ''اندھیرے'' میں ''کل'' کاسورج اس امید کی بنیاد ہے ،انسان دیکھتاہے کہ سورج غروب ہونے پر اندھیراچھاجاتاہے اوررات کے اس اندھیرے کا اختتام سورج کے دوبارہ نکلنے پر ہوتاہے ،سردیوں کے آغاز میں سورج روبہ زوال ہوتے ہوتے بے اثر ہوجاتاہے لیکن چار ماہ کے بعد دوبارہ چڑھنے لگ جاتاہے ،عروج کے بعد زوال اور زوال کے بعد عروج کے اس سلسلے سے ہی امید نے جنم لیا ہے ۔
ایک بابلی اسطورہ میں بہارکی دیوی عشتار کا محبوب ''تموز'' سخت بیمار اورقریب المرگ ہوجاتا ہے، عشتار اس کے علاج کا تریاق لانے کے لیے پاتال میںچلی جاتی ہے، تب بہار اور سبزے کی اس دیوی کی عدم موجودگی میں زمین کی ساری ہریالی شدید سردی سے جل جاتی ہے تاہم چارماہ کے بعد اس کے لوٹنے پر نئے سرے سے سبزہ اگنے لگتاہے اوربہار چھا جاتی ہے۔ لفظ''تموز'' تمازت وغیرہ بھی سورج کے استعارے ہیں اورعشتار، اسٹار، ایسٹر، اختر، ستارے اور خوشی کا استعارہ ہے ۔
اب اس ساری استعاراتی کہانی یا تصور کو سمیٹ کر پاکستان میں لاتے ہیں تو یہاں اس وقت اس ستارے، نجات دہندے کی شدید ضرورت ہے جو ''اندھیروں'' کے مظاہر یعنی موقع پرست، سازشی اور حریص سیاسی ومذہبی لیڈروں سے نجات دلادے۔