ناہید نیازی ایک منفرد آواز کی گلوکارہ
وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ناہید نیازی فلمی دنیا کی صف اول کی گلوکارہ بن گئی تھی
یہ میری نوجوانی کا زمانہ تھا جب کبھی آسمان پر کالی گھٹائیں آ جاتی تھیں تو ریڈیو سے ایک گیت کی گونج سنائی دیتی تھی اور گیت کے پس منظر میں ہلکی پھلکی بوندا باندی شروع ہو جاتی تھی اور اس کے بول ہوتے تھے:
رم جھم رم جھم پڑے پھوار
تیرا میرا نِت کا پیار
اور اس گیت میں دو بہنوں کی آواز ہوتی تھی اور وہ دو بہنیں ناہید نیازی اور نجمہ نیازی ہوتی تھیں، جن کی آواز میں کوئل کی سی کوک ہوتی تھی اور یہ گانا بھی موسیقار خواجہ خورشید انور نے فلم کوئل کے لیے کمپوز کیا تھا۔
یہ فلم 1959 میں ریلیز ہوئی تھی، یہی گیت میڈم نور جہاں کی آواز میں بھی تھا جو فلم کی ہیروئن پر فلمایا گیا تھا مگر یہی گیت ناہید نیازی اور نجمہ نیازی کی آوازوں میں فلم کے ہیرو اور ہیروئن کے بچپن کے کرداروں پر عکس بند کیا گیا تھا اور اس گیت نے بڑی شہرت حاصل کی تھی اور اس گیت کی مقبولیت نے ناہید نیازی اور نجمہ نیازی کو شہرت کا ہمسفر بنا دیا تھا اور آج بھی ہر برسات کے موسم میں اس گیت کو بڑی محبت سے سنا جاتا ہے اور یہ گیت برسات کے موسم میں ہر دل میں امنگیں جگاتا ہے۔
وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ناہید نیازی فلمی دنیا کی صف اول کی گلوکارہ بن گئی تھی اور نجمہ نیازی پس منظر میں چلی گئی تھی اور وہ مقبول نہ ہوسکی تھی پھر ناہید نیازی کی آواز میں تسلسل کے ساتھ فلموں کے لیے گیت ریکارڈ کیے جانے لگے تھے۔ ناہید نیازی نے اپنی گائیکی کے کیریئر میں لگ بھگ ڈھائی سو کے قریب گیت گائے تھے، اردو گیتوں کے علاوہ پنجابی فلموں کے گیتوں کی تعداد الگ ہے اور ناہید نے احمد رشدی کے ساتھ بھی بہت سی فلموں کے لیے جتنے بھی ڈوئیٹ گائے تھے وہ سب سپرہٹ ہوئے تھے اور اس طرح ایک طویل عرصے تک ناہید نیازی کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا تھا۔
اب میں ناہید نیازی کی ابتدائی زندگی کی طرف آتا ہوں ، ناہید نیازی کے والد سجاد سرور نیازی خود ایک اچھے موسیقار اور شاعر تھے انھوں نے بحیثیت ریڈیو آفیسر اپنے کیریئر کا آغاز غیر منقسم ہندوستان سے کیا تھا ، وہ لاہور ریڈیو اور پشاور ریڈیو اسٹیشن کے اسٹیشن ڈائریکٹر بھی رہ چکے تھے ، بلکہ پشاور ریڈیو اسٹیشن میں ریکارڈنگ کی جدید مشینری اور ساؤنڈ سسٹم سرور نیازی صاحب کی ملازمت کے دوران لگایا گیا تھا اور سرور نیازی صاحب نے ریڈیو سے پہلی بار بعد کی نامور گلوکارہ شمشاد بیگم کو ریڈیو کے ذریعے ہی متعارف کرایا تھا اور ایک دلکش نعت شمشاد بیگم کی آواز میں ریکارڈ کرکے سارے ہندوستان کے ریڈیو اسٹیشنوں سے نشر کی تھی وہ نعت شاعر و ہدایت کار ولی صاحب کی لکھی ہوئی تھی جس نعت کے بول تھے:
پیغام صبا لائی ہے گلزارِ نبی سے
آیا ہے بلاوا مجھے دربارِ نبی سے
اور اس نعت نے سب جگہ دھوم مچا دی تھی ، اس نعت کی بدولت ہی شمشاد بیگم کو شہرت کا آسمان میسر آیا تھا اور پھر شمشاد بیگم انڈین فلموں کے صف اول کی گلوکاراؤں کی صف میں شامل ہوگئی تھی، سجاد سرور نیاز نے پہلی بار اپنی ایک خوبصورت نظم شمشاد بیگم سے گوائی تھی پھر یہی نظم دوبارہ اپنی صاحبزادی ناہید نیازی کی آواز میں بھی ریکارڈ کرکے ریڈیو سے نشر کرائی تھی اس نظم کے بول تھے:
اک بار پھر کہو ذرا
کہ میری ساری کائنات
تیری اک نگاہ پہ نثار ہے
ناہید نیازی کی آواز میں اس نظم کو بھی بڑی مقبولیت ملی تھی، موسیقی کی ابتدائی تعلیم ناہید نیازی نے اپنے والد صاحب سے ہی حاصل کی تھی۔
اس کی آواز میں نہ صرف سروں کا گہرا رچاؤ تھا بلکہ بڑا سوز و گداز بھی تھا اور اس کی آواز میں ایک الگ انداز کی دلکشی تھی جو اسے دیگر گلوکاراؤں سے ممتاز حیثیت دلاتی تھی، یہی وجہ تھی کہ اس نے میڈم نور جہاں، مالا، نسیم بیگم کی موجودگی میں اپنی آواز کا جادو جگایا اور فلم انڈسٹری میں بطور پلے سنگر اپنے آپ کو منوایا موسیقار مصلح الدین جس کا تعلق ڈھاکہ سے تھا ، اس نے فلم آدمی میں جب موسیقی دی تو ناہید نیازی کی آواز میں کئی گیت گوائے اور ایک گیت کو تو بہت شہرت ملی تھی، جس کے بول تھے:
جاگ تقدیر کو جگا لوں گی
تجھ کو سینے سے جب لگا لوں گی
ڈھاکہ کی ایک اور فلم ہمسفر میں بھی موسیقی مصلح الدین کی تھی 'ہدایت کار شوکت ہاشمی تھے، جو بمبئی فلم انڈسٹری سے بھی وابستہ رہ چکے تھے ، انھوں نے پہلی فلم پاکستان میں ہمسفر کے نام سے بنائی تھی۔ اس میں ایک گیت دو آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ شاعر فیاض ہاشمی نے وہ گیت لکھا تھا، جس کے بول تھے:
زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نہ
یہ گیت سلیم رضا نے بھی گایا تھا اور پھر ناہید نیازی کی آواز میں بھی ریکارڈ کیا گیا۔ سلیم رضا کا گیت فلم کے ایک نئے اداکار اسد جعفری پر فلمایا گیا تھا ، جو بحیثیت آرٹسٹ تو فلاپ ہو گیا تھا، مگر وہ پھر صحافت کے میدان میں آگیا تھا اور فلمی صحافی بن گیا تھا۔ دوسرا ناہید نیازی کی آواز میں جو گیت تھا وہ فلم کی ہیروئن نگہت سلطانہ پر فلمایا گیا تھا۔
یہ وہی نگہت سلطانہ تھی جس نے ہدایت کار حسن طارق کی پہلی بیوی بننے کا اعزاز تو حاصل کیا تھا مگر پھر جلد ہی علیحدگی بھی ہوگئی تھی۔ ناہید نیازی کی ابتدا جس فلم سے ہوئی تھی وہ فلم تھی لیلیٰ مجنوں اور اس کے موسیقار رشید عطرے تھے۔ جب ناہید نیازی اپنی زندگی کا پہلا گیت ریکارڈ کرانے کے لیے فلم اسٹوڈیو گئی تو یہ گھبرا گئی تھی اور ریکارڈنگ کے موقع پر اس کا گلا بیٹھ گیا تھا۔
موسیقار نے اس دن ریکارڈنگ کینسل کرکے پھر دو چار دن بعد دوبارہ ناہید نیازی کی آواز میں وہ گیت ریکارڈ کرایا تھا۔ اس کو ابتدائی شہرت ملی وہ '' ایاز '' کے ایک گیت سے ملی تھی جس کے بول تھے ''رقص میں ہے سارا جہاں'' مگر ناہید نیازی کی شہرت کا آغاز خاص فلم زہر عشق کے گیت سے ہوا تھا جس کے موسیقار خواجہ خورشید انور تھے اور گیت کے بول تھے:
موہے پیا ملن کو جانے دے بیریا
موہے پیا ملن کو جانے دے
یہ گیت ناہید نیازی سے پہلے خواجہ خورشید انور نے مشہور گلوکار اقبال بانو کی آواز میں ریکارڈ کیا تھا مگر ریکارڈنگ کے بعد وہ مطمئن نہ ہوئے تھے آخرکار انھوں نے اس گیت کو کینسل کر کے دوبارہ سے اپنے دوست سجاد سرور نیازی کی بیٹی ناہید نیازی کی آواز میں ریکارڈ کرایا۔ ناہید نیازی کو وہ اس سے پہلے اپنی فلم کوئل میں گوا چکے تھے۔
ناہید نیازی کی آواز میں مذکورہ گیت بہت اچھا لگا اور اس کی منفرد آواز کی وجہ سے اس گیت کا حسن دوبالا ہو گیا تھا۔ فلم آدمی اور فلم ہمسفر کے دوران موسیقار مصلح الدین اور ناہید نیازی ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے تھے اور پھر دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے تھے اس طرح بنگال اور پنجاب کا خوبصورت ملاپ ہو گیا تھا۔
میری ایک یادگار ملاقات ان دونوں سے کراچی میں اس وقت ہوئی تھی جب یہ دونوں شادی کے بعد پہلی بار کراچی آئے تھے تو کراچی فلم جرنلسٹ ایسوسی ایشن نے ان کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا اس تقریب کو کنڈکٹ ہدایت کار اقبال یوسف اور مشہور اداکار کمال نے کیا تھا ، ہدایت کار اقبال یوسف کی کئی فلموں میں ناہید نیازی نے بڑے خوبصورت گیت گائے تھے اور خاص طور پر گلوکار احمد رشدی کیساتھ ان کے کئی ڈوئیٹ سپرہٹ ہوئے تھے پھر جب مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہوا تو نہ ناہید نیازی ڈھاکہ میں رہنا چاہتی تھیں اور نہ مصلح الدین لاہور میں رہنا چاہتے تھے تو پھر دونوں نے مشترکہ فیصلہ کیا کہ وہ اب یوکے میں جا کر رہیں گے اور پھر دونوں فلمی دنیا سے کنارہ کش ہو کر انگلینڈ چلے گئے تھے۔
ایک بار موسیقار مصلح الدین کے بارے میں یہ افواہ بھی اڑائی گئی تھی کہ وہ ناہید نیازی کو چھوڑ کر بنگلہ دیش چلے گئے اور بنگلہ دیش حکومت نے انھیں ماسکو میں اپنا سفیر بنا کر ڈھاکہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے ، مگر یہ خبر ایک افواہ ثابت ہوئی اور ناہید نیازی نے بی بی سی کے ایک انٹرویو میں اس خبر کو غلط قرار بلکہ جھوٹ قرار دیا تھا۔ برطانیہ میں ان کی زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی مگر قدرت کو یہ منظور نہیں تھا اور پھر اخبارات کے ذریعے پتا چلا کہ مصلح الدین کا برطانیہ میں انتقال ہو گیا اور وہ ناہید نیازی کو داغ مفارقت دے کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے یہ ایک بہت بڑا سانحہ تھا مگر ناہید نیازی نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے دو بچوں کی پرورش کی ماں اور باپ بن کر پالا، ان کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اور اب ان کی بیٹی نرمل اور بیٹا فیصل دونوں اپنی والدہ کی موجودگی میں خوشگوار اور خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔