ترقی کے سفر میں
آج کے تیز رفتار دور میں انسان اپنی سوچ کو تحقیق کے بل پر حقیقت کی دنیا میں لا سکتا ہے
ڈرون کے نام سے تو ہم سب واقف ہی ہیں اور اب اس کا استعمال تو ہمارے یہاں یوں ہو رہا ہے کہ جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ شادی ہالز میں مووی بنانے کے لیے اب مووی والے کیمرے اٹھائے نہیں پھرتے کہ اب یہ کام ڈرونز انجام دیتے ہیں۔
انسان نے سائنس کے شعبے میں کافی تحقیق کے بعد ان طریقوں کو بھی اختیار کر لیا ہے جنھیں ماضی کی کہانی سمجھا گیا تھا، مثلاً انسان کا پرندوں کی مانند پر لگا کر اڑنے کا ناکام تجربہ جس میں کئی لوگ زخمی ہوئے اور اپنے ہاتھ پیر تڑوا بیٹھے، لیکن آج کے دور میں اسی طرز پر ایسے ملبوسات ایجاد کر لیے گئے ہیں جنھیں پہن کر انسان پرندوں کی مانند اڑ سکتا ہے یا دوسرے الفاظ میں انسان ڈرونز کے طور پر بھی سفر کر سکے گا۔
حال ہی میں ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک صاحب اسی طرح کا لباس پہنے دبئی میں اڑتے پھرتے نظر آ رہے تھے۔ اس نئی سائنسی تحقیق کو انسانی دماغ کس طرح انسان کی فلاح کے لیے استعمال کر سکتا ہے ، یہ ذرا توجہ طلب نقطہ ہے۔
اس طرح کے لباس کو جیٹ سوٹ کہا جاتا ہے۔ اس طرح کے جیٹ سوٹ ان علاقوں میں جہاں انسان کی نقل و حمل کا کوئی ذریعہ نہ ہو بہت مناسب ہے۔
آئی ایم ٹی ایس 2022 کی اس نمائش میں لوگوں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جو ان کو بنا پنکھ لگائے اڑ کر دکھانے والا تھا، اس شخص کا نام رچرڈ براؤننگ تھا۔
رچرڈ نے گریوٹی کے نام سے ایک کمپنی بنائی یہ 2017 کی بات ہے، رچرڈ پیشے کے اعتبار سے ایک انجینئر ہیں۔ اڑنے اڑانے کی دھن ان کے ذہن میں محفوظ تھی اور اس پر کام کرتے کرتے وہ جیٹ سوٹ تک آگئے۔ اس سوٹ میں انھوں نے ترمیمات کیں اور آخرکار وہ اپنے مطلوبہ ہدف تک پہنچ گئے۔
ان کے سوٹ میں پانچ گیس کے ٹربائن جیٹ انجن لگے ہیں جو ایک ہزار ہارس پاورز پیدا کرتے ہیں۔ یہ پاور ان کو زمین کی کشش ثقل کے خلاف کام کرنے میں مدد دیتی ہے۔
ان کا یہ سوٹ پچھتر پاؤنڈز وزنی ہے۔ یہ ہوا کے دباؤ کو کنٹرول کرتے ہوئے کسی جیٹ طیارے کی مانند تیزی سے اپنا سفر کرتے ہیں۔ اسے جیٹ کے فیول ، مٹی کے تیل یا ڈیزل سے چلایا جاسکتا ہے جو انجن کو طاقت دیتا ہے۔ اس کی بھرپور فلائٹ 80 میل فی گھنٹہ ہے۔
برطانیہ میں اس جیٹ سوٹ کی اہمیت کو اس ہوائی ایمبولینس کے طور پر بھی استعمال کیا جا رہا ہے جہاں فوری طور پر حادثے کی صورت میں عام ایمبولینس کا فوری طور پر پہنچنا ممکن نہ ہو اور فوری طور پر خون کی سپلائی یا دیگر جان بچانے والی ادویات ہوں۔
صرف یہی نہیں بلکہ دہشت گردوں سے نمٹنے کی صورت میں بھی اسے استعمال کیا جاسکتا ہے ایسے علاقے جہاں زمینی راستے مسدود ہو جائیں یا گھنے جنگلات میں چھپے دشمنوں اور دہشت گردوں کے ٹھکانے پر پہنچا جا سکتا ہے یا پتا لگایا جاسکتا ہے۔
اسی طرح دہشت گردوں سے لڑائی کی صورت میں بھی یہ کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔ اس بھاری سوٹ کو پہن کر لڑنا ممکن نہیں ہے لہٰذا اسے فوری طور پر اتارنا اور پہننے کے عمل کے علاوہ اڑنے اور اس کے پہلے کے مراحل کے لیے باقاعدہ ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے۔
جس طرح ہوائی جہاز کو اڑانے کے لیے باقاعدہ ٹریننگ لی جاتی ہے اسی طرح اس جیٹ سوٹ کو پہننے اور اس سے کام لینے کے لیے باقاعدہ تربیت لینی ضروری ہے۔
دنیا اب اتنی ترقی کرچکی ہے کہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ لوگ صرف شوق و جستجو میں چاند پر پہنچ کر سیلفیاں لیں گے اور اس کے لیے بھاری رقوم بھی ادا کریں گے کیونکہ جیٹ سوٹ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا ہے اگر آپ کے پاس پیسہ ہے اور آپ پرندوں کی مانند اڑتے ہوئے اپنے شہر کا چکر لگانا چاہتے ہیں تو فکر کی کوئی بات نہیں کیونکہ رچرڈ براؤننگ کی کمپنی گریوٹی آپ کے شوق کے ساڑھے تین ہزار ڈالرز لے گی۔
بھارت جو جنگی جنون میں ایک عرصے سے مبتلا ہے اس جیٹ سوٹ کے خبط میں مبتلا ہے۔ یہ جیٹ سوٹ بنگلور میں قائم ایک کمپنی انڈیا میں افواج کے لیے ڈیزائن کرچکی ہے اور اس پر تجربات بھی کرچکی ہے۔
جنوری میں انڈین آرمی نے اڑتالیس جیٹ سوٹ کے لیے فرمائش تو داغی ہے، امید ہے کہ یہ جیٹ سوٹ ان کی افواج میں لازمی جز قرار پائے۔ ابھی فی الحال ان کے جیٹ سوٹ کی رینج دس کلومیٹر ہے اور یہ آٹھ منٹ تک اڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا وزن چالیس کلو گرام ہے اور یہ ڈیزل سے چلتا ہے۔ ابھی یہ جیٹ سوٹ زیادہ بلندی پر اڑنے کا متحمل نہیں ہے لیکن امید ہے کہ اس سوٹ پر جلد ہی کام ہوگا۔
اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ ہم محض سوچ کر بیٹھ جائیں۔ آج کے تیز رفتار دور میں انسان اپنی سوچ کو تحقیق کے بل پر حقیقت کی دنیا میں لا سکتا ہے۔
رچرڈ براؤننگ نے اپنے شوق اور جستجو کے بل پر فضا میں اڑنے کے فسانے کو سچ کر دکھایا لیکن کیا ان کی یہ کاوش رہتی دنیا کے لیے سودمند ثابت ہوگی یا یہ بھی انسان کی تخریب کاری کا ایک ہتھیار ہی رہے گی۔
گو گریوٹی نے اپنے اس کارنامے کو نہ صرف زمین بلکہ دوسرے سیاروں تک پہنچانے اور اپنے جھنڈے گاڑھنے کا دعویٰ تو کیا ہے لیکن اس میں کس حد تک صداقت شامل ہے۔
سائنسی تحقیقاتی ادارے کس حد تک انسان کے لیے سودمند ثابت ہو رہے ہیں اس کا ایک عام سا مظاہرہ تو آئے دن سوشل میڈیا پر دیکھا جاسکتا ہے۔ گاڑیوں کی چوری اب ایک ایسا جرم بن چکا ہے جس کی سزا بے چارے گاڑی کے مالک کو ہی ملتی ہے۔
سارے ٹریکرز غائب کرلیے جاتے ہیں اور گاڑی بڑے آرام سے ایک علاقے سے دوسرے اور پھر محفوظ طریقے اختیار کرتی شہر بدر کردی جاتی ہے۔ آخر وہ کون سے سائنسی آلات ہوتے ہیں جو ہر گاڑی کے تالے کے لیے کارگر ثابت ہوتے ہیں۔ باآسانی یہ مشکل ترین کام کیسے ہو جاتے ہیں اور انسان بے بس محض ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔
بنا کسی جیٹ سوٹ کے ہی بھارت نے کشمیریوں پر جو ظلم و ستم روا رکھا ہے وہ کسی کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہے کیا اس نئی آفت سے مظلوم کشمیریوں کے لیے ایک اور غم کی کہانی کا باب کھلنے کے در پر ہے؟
دنیا سائنس میں آگے کی جانب بڑھ رہی ہے ترقی کے زینے چڑھ رہی ہے اب انسان ہواؤں میں اڑ سکتا ہے لیکن ترقی کا یہ سفر مثبت انداز اختیار کرلے تو بہت اچھا ہے ورنہ ایسی ترقی سے تو تنزلی ہی بھلی۔