کشمیر تاریخ کے آئینہ میں …

کشمیر کی تاریخ تقریباً اڑھائی ہزار سال قبل مسیح سے بھی پہلے کی معلوم و مرقوم ہے


Dr Tauseef Ahmed Khan March 25, 2023
[email protected]

کشمیر جنت نظیر وہ مسئلہ ہے جس نے پاکستان کو سیکیورٹی اسٹیٹ بنا دیا۔ پاک بھارت تین بڑی جنگیں لڑی گئیں مگر صورتحال جوں کی توں رہی۔ بھارت میں مذہبی انتہا پسند مودی نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے کچھ برسوں بعد بھارت کے زیرِ کنٹرول کشمیر کی آئین میں دی گئی خصوصی حیثیت ختم کردی۔کشمیر کے ایک فرزند پروفیسر ایم اے خان نے '' کشمیر تاریخ کے آئینہ میں'' کے عنوان سے ایک کتاب تحریرکی۔

یہ کتاب تقریباً 339 صفحات پر مشتمل ہے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے ہندوستان کی تمام بڑی ریاستوں بشمول جموں و کشمیر کے کسی دوسری صورت میں آزاد اور خودمختار رہنے پر اپنا موقف واضح کیا تھا اور اس ضمن میں ان کا گاندھی سے باقاعدہ ٹاکرا تاریخ میں موجود ہے۔ مصنف کا مدعا ہے کہ جموں و کشمیر84471 مربع میل رقبہ پر وہ علاقہ ہے جس کے اوپر اس وقت ہمارا دعویٰ آزادی ہے۔ یہ اس معاہدہ امرتسر کا نتیجہ ہے۔ اس کتاب کے باب 2 میں کشمیر کا مختصر تعارف بیان کیا گیا ہے۔

اس کتاب کے باب 3 میں قدیم تواریخ کشمیر بیان کی گئی ہے۔ مصنف نے زمانہ قبل از اسلام کے عنوان سے لکھا ہے کہ کشمیر کی تاریخ تقریباً اڑھائی ہزار سال قبل مسیح سے بھی پہلے کی معلوم و مرقوم ہے۔ اڑھائی ہزار سال قبل مسیح سے لے کر 1324 تک کا دور ہندو راجاؤں کا دور ہے۔ مسلمان سلاطین کشمیر نے تقریباً 240 سال تک کشمیر پر آزادانہ خود مختار حکمرانوں کی حیثیت سے حکومت کی۔ تقریباً یہ تمام عرصہ کشمیر ایک آزاد خود مختار مملکت کی حیثیت سے دنیا کے نقشہ پر موجود ہے۔

ان سلاطین کشمیر میں سے بعض نے بڑا نام پیدا کیا۔ ان میں سلطان شہاب الدین اور سلطان زین العابدین عرف بڈ شاہ سید مشہور ہوئے۔ سلطان شہاب الدین کی شہادت کے بعد دوسرا کشمیری حکمراں تھا جو دنیا کو فتح کرنے کے ارادہ سے نکلا۔ وہ سب علاقے دوبارہ کشمیر میں شامل تھے جو اس نے فتح کیے تھے۔

ان میں آج کا سارا کشمیر ، پنجاب ، سندھ، سرحدی صوبہ اور شمال میں کابل تک اور جنوب میں کاشغر تک اور دوسری طرف تبت اور ہندوستان کا بہت سا حصہ فیروز شاہ سے چھین لیا۔ جموں و کشمیر مغل حکمراں اکبر کے عہد میں فتح ہوا۔ اکبر تین مرتبہ وادی کے دورہ پر آیا۔

مغلوں کے بعد سکھوں کا دور حکومت 1819 تا 1864 تک رہا۔ ڈوگرہ راجہ 1846 تا 1947 تک تھا۔ مصنف کا بیانیہ ہے کہ 1858میں مہاراجہ گلاب سنگھ کی وفات کے بعد اس کا لڑکا رنبھیر سنگھ تخت نشین ہوا۔ 1885 میں اس کی وفات کے بعد اس کا بیٹا پرتاب سنگھ تخت نشین ہوا۔ اس کے دور میں کشمیر میں سیاسی بیداری شروع ہوئی۔ اس کا دور 1945 تک کا ہے۔ 1931میں مہاراجہ کے خلاف تحریک شروع ہوئی۔ یہ تحریک کسی نہ کسی طرح 1947تک جاری رہی۔ کتاب کے باب 4 کا عنوان تقسیمِ ہند اور کشمیر ہے۔

مصنف کا بیانیہ ہے کہ جدید کشمیر کی تاریخ کا آغاز 1846کے معاہدہ امرتسر سے ہوتا ہے جب کشمیر سکھوں سے ڈوگروں کو منتقل ہوا۔ یہ وہ عہد نامہ ہے جو حکومتِ برطانیہ اور مہاراجہ گلاب سنگھ اور جموں کے درمیان قرار پایا۔ یہ عہد نامہ دس دفعات پر مشتمل ہے۔ اس باب میں ڈوگرہ حکومت کا پس منظر مختصر مگر جامع انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

اس باب میں تحریر کیا گیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر مہاراجہ گلاب سنگھ کو منتقل کرنے کے بعد انگریزوں نے مہاراجہ پر دباؤ بڑھانا شروع کردیا۔ معاہدہ امرتسر 1849 کی رو سے اختیارات کا واضح تعین ہوا تھا جس کے تحت مہاراجہ کو انگریزوں کو کچھ نقدی اس نکتہ نظر سے دینی تھی کہ Paramontcy(اقتدار اعلٰی) انگریزوں کے پاس ہوگا۔ اندرونی طور پر ریاست مکمل طور پر خود مختار ہوگئی تھی۔

یہاں تک کہ خارجہ، دفاع اور کرنسی بھی ریاست کی اپنی تھی۔ پرتاب سنگھ کو اپنے اختیارکی بحالی کے لیے سخت محنت کرنا پڑی اور انگریزکو قریب سے جانچنے کے بعد کمال ہوشیاری سے بالآخر ریجنسی ختم کرانے میں کامیاب ہوگیا، البتہ ریزیڈنٹ تعینات رہا۔ اس بات کا اعادہ بھی ضروری ہے کہ انگریز بہادر کو جموں و کشمیر کے مسلمانوں یا سارے عوام کی ہمدردی سے کوئی غرض نہ تھی۔ مصنف نے کشمیر میں کشمکش کا چوتھا دور 1925 تا 1947 کو بتایا ہے۔

23 دسمبر 1925 کو پرتاب سنگھ کی وفات کے بعد اس کا بھتیجا ہری سنگھ تخت نشین ہوا۔ پرتاب سنگھ بے اولاد تھا۔ اس نے اپنے بھائی امر سنگھ کے لڑکے ہری کو ولی عہد نامزد کیا تھا۔ ہری سنگھ نے انگلینڈ میں تعلیم حاصل کی تھی۔ ہری سنگھ نے تخت پر بیٹھنے کے بعد پہلا حکم یہ جاری کیا کہ آج سے برطانوی پرچم ریاست میں نہیں لہرایا جائے گا اور ریزیڈنٹ کا مشورہ ماننے سے انکار کیا۔ مصنف نے عہد نامہ پیما بین برٹش گورنمنٹ و مہاراجہ صاحب جموں و کشمیر کے اہم نکات درج کیے ہیں۔

1947 میں انگریز کو برصغیر سے کوچ کرنا پڑا۔ یہ معاہدہ بھی اس کے ساتھ ختم ہوا۔ 4 اکتوبر اور 24 اکتوبر کو جس باغی حکومت کا اعلان ہوا تھا اس کو تسلیم کرنا یا مہاراجہ ہری سنگھ کو ریاست جموں و کشمیر کو ایک آزاد خودمختار حکمران تسلیم کرنے کے مترادف تھا۔ ہری سنگھ حکومت مسلمانوں کو مطمئن کرنے میں ناکام رہی تھی۔ مسلمانوں نے اس کے ردعمل میں اس کی حکومت کا تخت الٹ دیا۔

گویا مہاراجہ کی معزولی اور انقلابی حکومت کا اعلان ریاست جموں و کشمیر کی آزادانہ خود مختار کشمیر کی حیثیت کا اظہار کیا تھا۔ پاکستان نے اسے تسلیم کرکے قانونی حیثیت دی تھی۔ ہری سنگھ نے ماؤنٹ بیٹن کو لکھا مجھے یہ فیصلہ کرنے کے لیے وقت درکار تھا کہ میں کس مملکت کے ساتھ الحاق کروں۔ اس کتاب کے ایک اور باب کا عنوان '' کابینہ، جسٹس اور ریاستیں '' ہیں۔ مصنف نے اس کتاب میں قانون، آزادی پسند ریاستیں کے نام سے ایک باب تحریر کیا ہے۔

اس باب میں مصنف نے لکھا ہے کہ اس قانون کا مقصد لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے 3 جون کے منصوبہ تقسیمِ ہند کو عملی صورت دینا تھا۔ اس قانون میں ریاستوں کو نہیں چھیڑا گیا نہ ہی پاکستان میں شامل کیے گئے علاقوں میں کشمیر یا کسی دوسری ریاست کا ذکر ہے اور یہ وضاحت بھی کردی گئی تھی کہ ریاستوں کے بارے میں تاج کے سارے اختیارات تقسیم کر دیے گئے ، مگر یہ اختیارات گورنر جنرل کو نہیں دیے بلکہ موجودہ صورتحال کو برقرار رکھا گیا۔

یعنی ریاستیں آزاد اور خودمختار نہیں کیں اور تقسیم کے بعد ہندوستان کی دونوں حکومتیں بات چیت کے ذریعہ ریاستوں سے تعلقات قائم کریں گی۔ برطانیہ پہلے ہی اعلان کرچکا تھا کہ وہ حق بالادستی کسی اور کو منتقل نہیں کرے گا نہ خود رکھنے کا مجاز ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اختیارات یا حق بالا دستی واپس ریاستوں کو منتقل ہوجانے تھے۔ اس کتاب کے باب 6 میں ریاستوں کو خود مختاری کا حق حاصل ہوگیا کے عنوان کے تحت برطانیہ کا مؤقف ، لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا مؤقف، مسلم لیگ ڈوگرہ حکومت، مقامی سیاسی جماعتوں اور کشمیر پر لکھنے والوں کا مؤقف مختصراً اور جامع انداز سے تحریر کیا گیا ہے۔

مصنف نے مختلف حوالوں سے لکھا ہے کہ 13 جون 1947 کو پارٹی لیڈرز کانفرنس میں جس کی نہرو اور پولیٹیکل ایجنٹ سر کالزاڈ میں ریاستوں کے معاملہ پر تکرار ہوئی تھی ، سر کالزاڈ نے نہرو کے مؤقف کو مسترد کردیا۔ نہرو نے کہا کہ وہ اس صورتحال کو مکمل طور پر تسلیم کرتا ہے کہ ریاستیں اپنی خواہش کے مطابق چاہیں تو ریاستیں بھارت یا پاکستان سے الحاق کرسکتی ہیں مگر کابینہ کمیشن کی یاد داشت میں اس بات کی گنجائش نہیں کہ ریاستیں خود مختاری کا بھی حق رکھتی ہیں۔

قائد اعظم نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ ان کے خیال میں ریاستوں کو یہ مکمل اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ کسی قانون ساز اسمبلی (بھارت یا پاکستان) میں شامل نہ ہوں کیونکہ ہندوستان کی ہر ریاست ایک آزاد اور خودمختار ریاست ہے۔ اس کتاب میں کشمیر میں موجود سیاسی جماعتوں اور اہم سیاسی واقعات کا بھی تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں